بخدمت جناب ڈیوڈ کیمرون صاحب وزیر اعظم برطانیہ
اُمید ہے پاناما لیکس کے باوجود آپ یہاں بہترین صحت سے لطف اندوز ہو رہے ہونگے ‘تاہم‘ اس بات پر اعتراض ہے کہ میں دو روز سے آپ کے ملک میں وارد ہو چکا ہوں اور ماشاء اللہ بلکہ الحمد للہ آپ کا ہم منصب بھی ہوں اور الحمد للہ ہم کامن ویلتھ میں بھی اکٹھے ہیں لیکن آپ کی طرف سے کوئی خیر مقدمی بیان یا اشارہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ بیشک آپ بھی اس بیماری میں مبتلا ہیں لیکن الحمد للہ آپ کے کم از کم ہوش و حواس تو قائم ہیں جبکہ میں تو بقضائے الٰہی اس نعمت سے بھی محروم ہو چکا ہوں۔
دراصل تو کھچ میرے بیٹے نے ماری ہے جو الحمد للہ الحمد للہ کہتے کہتے اس نے سارا کچھ ہی مان کر دے دیا‘ ورنہ یہ شور شرابہ تو کب سے جاری تھا لیکن الحمد للہ کوئی پروا ہی نہیں تھی لیکن اب حالات یکایک تبدیل ہو گئے ہیں اور کوئی حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج بھی میرے بنائے ہوئے کسی کمیشن کا ممبر بننے کو تیار نہیں ہے‘ حالانکہ عدلیہ ہر برے بھلے وقت میں میرے ساتھ رہی ہے اور میں نے بھی ان کا ہر طرح سے خیال رکھا ہے لیکن سب نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لی ہیں اور میں ہر طرف سے بری طرح دبائو مں آ چکا ہوں۔ آخر اس ملک کا کیا بنے گا جس میں ایک وزیر اعظم کو اس قدر پریشان کر دیا جائے جو کہ تقریباً تقریباً منتخب بھی ہے‘ ہیں جی؟
اوپر سے آپ لوگوں کے سابق داماد عمران خان نے ناک میں دم کر رکھا ہے جو کہ پہلے بھی دھرنے سے مجھے کافی پریشان کر چکا ہے۔ اس کے سابق سسرالیے آپ ہی کے ہاں رہائش پذیر ہیں اور اس کے بچے بھی اُنہی کے پاس پڑھ رہے ہیں‘ کیا آپ اُن سے کہہ سُن کر اس کا ٹینٹوانہیں دبا سکتے؟ جبکہ کم بخت اب کے خاکسار کی رہائش گاہ پر دھرنا دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ بندہ پوچھے‘ اسے دھرنا دینے کے علاوہ اور کوئی کام ہی نہیں ہے۔ اور ابھی تک امپائر کی ‘انگلی کھڑی ہونے سے ڈرا رہا ہے۔ خدا ایسوں کو ہدایت بھی نہیں دیتا۔
یہاں آنے کا بڑا اور اصل مقصد زرداری صاحب سے ملاقات اور ان کی مدد حاصل کرنا تھا‘جیسا کہ دھرنے کے دنوں میں انہوں نے اور ان کی پوری جماعت نے پوری جانفشانی کے ساتھ مجھے اس مصیبت سے نجات دلائی تھی لیکن ان کا مطالبہ ہے کہ پہلے سندھ میں رینجرز سے ڈاکٹر عاصم وغیرہ کی جان چھڑائی جائے جو کہ کسی طرح سے بھی میرے اختیار میں نہیں ہے بلکہ میں اور میری پارٹی کے جملہ سرکردہ افراد تو خود رینجرز کے نشانے پر ہیں اور کسی وقت بھی کوئی دھماکہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ موصوف نے جو پارٹی کو عمران خان کے دھرنے اور استثنیٰ کے مطالبے سے انکار کر رکھا ہے تو صرف اس لیے کہ ان کے من پسند کوئی ڈیل ہو جائے جبکہ میں تو اس پوزیشن میں ہی نہیں ہوں۔ اوپر سے نیب والے بھی اپنی چھریاں کلہاڑے تیز کر رہے ہیں۔ دیکھیے وہ کیا گل کھلاتے ہیں۔
اِدھر مسئلہ یہ ہے کہ آخر کب تک ڈاکٹر مجھے زیر نگرانی یا زیر علاج رکھ سکتے ہیں۔ ایک نہ ایک دن تو واپس جانا ہی پڑے گا لیکن آخر واپس جا کر سب کو کیا مُنہ دکھائوں گا کیونکہ اس وقت تک اور بہت سے کارہائے خفیہ ظاہر ہو چکے ہوں گے۔ علاوہ ازیں اعلیٰ عدلیہ میں بھی اس طرح کی درخواستیں دی جا چکی ہیں کہ اس منحوس پانامہ لیکس کی مکمل اور بھر پور انکوائری کروائی جائے اور جو سماعت کے لیے نہ صرف منظور کی جا چکی ہیں بلکہ فریقین کو نوٹس بھی جاری ہو چکے ہیں۔ اور لگتا ہے کہ اس دفعہ عدلیہ بھی کوئی لحاظ نہیں کرے گی۔
ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ اس بُرے وقت میں صرف مولانا فضل الرحمن ہی میرے ساتھ ہیں جبکہ دیگر جماعتوں کی طرف سے کورا جواب ہے۔ اگرچہ مولانا صاحب کی مدد اور تائید بھی حسب معمول بہت مہنگی پڑے گی کیونکہ ان کے ساتھ جب بھی معاملہ ہوتا ہے، داڑھی سے مونچھیں بڑھ جاتی ہیں کیونکہ ان کے مطالبات بھی موقع کی سنگینی کے مطابق ہی ہوتے ہیں اور آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان حالات میں وہ مجھے کتنے میں پڑیں گے جبکہ تحفظِ حقوقِ نسواں بل کے حوالے سے بھی ان کی کافی ناز برداری کی جا چکی ہے۔
اس درخواست کو سیاسی پناہ حاصل کرنے کی استدعا سمجھا جائے کیونکہ میں واپس جانے جوگا تو رہ نہیں گیا کیونکہ اگر آپ الطاف حسین جیسوں کو گلے سے لگائے بیٹھے ہیں تو میں تو تاحال اپنے ملک کا وزیر اعظم ہوں اور صورت حال اس قدر نازک ہو چکی ہے کہ بھوک ہی ختم ہو گئی ہے اور جو دو باورچی اپنے ساتھ لایا تھا وہ بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں اور ان کا خرچہ الگ سے پڑتا رہتا ہے اور یہ حادثہ زندگی میں پہلی بار پیش آیا ہے کہ بھوک ہی غائب ہو گئی ہے مجھے تو یہ قربِ قیامت کی نشانیوں میں سے ہی لگتی ہے۔ ہیں جی؟
اس کے ساتھ ہی ایک دلفریب مشورہ آپ کے لیے بھی ہے کہ یہاں اپوزیشن نے آپ کا جینا بھی حرام کر رکھا ہے جبکہ حالات کے‘ میری طرح‘ مزید خراب ہونے کا بھی اندیشہ ہے‘ اس لیے بہتر ہے ک آپ میرے ملک میں سیاسی پناہ حاصل کر لیں‘ عوض معاوضہ گلہ ندارد۔ میں اپنے صدر کو فون کر دوں گا‘ جو اپنے برخوردار ہی ہیں‘ وہ فوری طور پر آپ کی درخواست منظور کر لیں گے اور برخوردار شہباز شریف وغیرہ ہر طرح سے آپ کے آرام و آسائش کا خیال رکھیں گے بشرطیکہ خود ان پر کوئی مصیبت نہ آپڑی۔
چونکہ ہم دونوں ایک دوسرے کے ملک میں سیاسی پناہ حاصل کر چکے ہوں گے اس لیے دونوں میں سے کسی کی سبکی کا بھی کوئی سوال پیدا نہیں ہو گا جبکہ میں ادھر اپنے اثاثوں اور آف شور کمپنیوں کا بھی دھیان رکھ سکوں گا۔ برخورداران تو پہلے ہی یہاں ہیں جن کا وجود الحمد للہ پارس پتھر کی طرح ہے کہ جس چیز کو ہاتھ لگائیں‘ سونا ہو جاتی ہے۔ نیز اگر آپ چاہیں تو ہمارے ملک میں بھی کوئی آف شور کمپنی کھول سکتے ہیں جبکہ زرداری صاحب کا مستقل قیام بھی یہیں رہے گا‘ یعنی خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو‘ ہیں جی؟
آپ کا مخلص‘ نواز شریف عفی عنہ
آج کا مقطع
میں ایک قطرے کو دریا بنا رہا ہوں‘ ظفرؔ
اور اس کے بعد اسے میں نے پار کرنا ہے