تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     16-04-2016

نفعِ عاجل یا آجل؟

انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ ''نفعِ عاجل‘‘کی طرف لپکتا ہے، دیرپاخیر اور نفع کا انتظار اُس کی فطرت کو گوارا نہیں ہے ،سوائے اُن محدود افراد کے جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے سعادت مقدر فرمادی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(1) ''ہرگز نہیں!بلکہ تم جلد ملنے والے (نفع کو) پسند کرتے ہو اور آخرت کے (دیرپااور ابدی نفع کو)چھوڑ دیتے ہو،(القیامہ:20-21)‘‘۔(2)''انسان کو جلد باز پیدا کیا گیا ہے،عنقریب میں تم کو اپنی نشانیاں دکھائوں گا ،سو تم مجھ سے جلد بازی نہ کرو،(الانبیاء:37)‘‘۔(3)''بے شک یہ لوگ جلد ملنے والے( یعنی دنیاوی فائدے )کو پسند کرتے ہیں اور بھاری دن (قیامت)کو اپنے پسِ پشت ڈال دیتے ہیں ،(الدہر:27)‘‘۔ (4)''جو شخص فوری فائدے (یعنی دنیا )کا طلب گار ہوگا ،تو جس کے لیے ہم ارادہ کریں اُس کوہم اِس دنیاسے جتنا چاہیں دے دیتے ہیں ،پھر اُس کا ٹھکانا جہنم کو بنادیتے ہیں جس میں وہ مذمت کیا ہوا دھتکارا ہوا داخل ہوگا،(بنی اسرائیل:18)‘‘۔
ہمارا سیاسی منظر نامہ بھی اس انسانی جبلّت سے مستثنیٰ نہیں ہے ،جو اقتدار میں ہیں وہ کل کی بجائے آج ہی سارے فوائد سمیٹنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں اور اس انگریزی محاورے پر اُن کا پورا پورا یقین ہوتا ہے کہ: ''Tomorrow never comes‘‘اورجو اقتدار سے باہر ہیں وہ بھی کسی دستوری اور آئینی طریقے سے گزر کر ایوانِ اقتدارتک پہنچنے کی بجائے کسی غیبی سہارے اور اشارے کے منتظر ہوتے ہیںکہ:''مردِ از غیب آیدوکارِ بکُند‘‘یعنی اقتدا ر کے مسند نشین کو کوئی غیبی طاقت دھکا دے اور ہم یک دم جست لگاکرمَسندپہ بیٹھ جائیں ۔الغرض ذاتی اور گروہی خواہشات ہماری جبلّت پر غالب ہوتی ہیں ،ملک وقوم کے دیرپا مفادات ہمارے پیش نظر نہیں ہوتے ۔
پاناما لیکس کے پوشیدہ راز اِفشا ہونے کے بعد شوروغوغا مچا ہوا ہے اور تازہ ترین مطالبہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن قائم ہو اور اس مقصد کے لیے انہیں با اختیار بنایا جائے ۔ آج صبح ٹیلی ویژن اسکرین پر ٹِکر چل رہے تھے کہ سپریم کورٹ کے حاضر جج صاحبان بھی اس آگ کے الائو میں کودنے کے لیے تیار نہیں ہیں، کیونکہ ہمارے ہاں ریاست و عدالت کے مناصبِ جلیلہ کے احترام کی روایت بھی مفقود ہوتی جارہی ہے اور کون چاہے گا کہ بیٹھے بٹھائے خواہ مخواہ اپنی عزت کو دائو پر لگائے۔ گزشتہ قومی انتخابات میں منظّم دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں جو تحقیقاتی کمیشن قائم ہوا تھا ،اُن کی رپورٹ کو بھی دل وجان سے تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔
پاناما لیکس کے نتیجے میں جو سوالات سامنے آئے ہیں ،وہ ہمہ گیر اور دیرپا اہمیت کے حامل ہیں اور اس کے لیے پوری پارلیمنٹ کے اتفاقِ رائے سے ایک جامع آئینی ترمیم کی ضرورت ہے ۔وہ سوالات یہ ہیں:(الف)سیاسی ،عدالتی ،دفاعی اور دیگر ریاستی مناصب پر فائز اشخاص کا بیرونِ ملک بلا واسطہ یا بالواسطہ کاروباری مفاد ہونا چاہیے یا نہیں ؟(ب)اگر اس کا جواب نفی میں ہے ،تو یہ تحدید صرف منصب پر فائز یا منصب کے امیدوار کی ذات پر ہی عائد ہونی چاہیے یا اُس کے خاندان کے افرادپر بھی یہ پابندی محیط ہوگی۔ سرِ دست قانونی پوزیشن یہ ہے کہ کوئی عاقل وبالغ شخص اپنی ذات اور اپنے زیرِ کفالت افراد (Dependents)کے لیے جواب دہ ہے اور اُس کی عاقل وبالغ اولاد اور متعلقین اپنے اعمال کے لیے خودجواب دِہ ہیں ۔اگر یہ مطلوبہ پابندی زیرِ کفالت افراد تک محدود نہیں ہے اور عاقل وبالغ اولاد اور خاندان کے دیگرافراد بھی اس پابندی کے ذیل میں آتے ہیں ،تو پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما جناب چوہدری محمد سرور جو آئندہ کسی بھی قومی انتخابات میں بزعمِ خویش پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے متوقع اُمید وارہیں ،انہیں یا توابھی سے اپنی خواہش سے دستبردار ہونا پڑے گا،ورنہ اولاد سمیت اپنے پورے کاروبار کی بساط لپیٹ کر سارا سرمایہ پاکستان لانا پڑے گا، کیونکہ قانون کے اطلاق میں پسند وناپسند یعنی Pick & Chooseکی گنجائش نہیں ہوتی۔ہمارے عوامی نمائندوں ،سیاسی رہنمائوں اور قومی مناصب پر فائز افراد کی ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ملے گی جن کا بلا واسطہ یا بالواسطہ مالی مفاد بیرون ملک موجود ہے ، یہ الگ بات ہے کہ وہ مستور ہے یا ریکارڈ پر ہے۔(ج)ہم قانونی جواز اور اخلاقی اعتبار (Credibility)کو ایک ہی درجہ دیتے ہیں یا دونوں کوالگ خانوں میں رکھتے ہیں۔ کیونکہ قانون کے شکنجے میں کسنا تو آسان ہوتا ہے ،لیکن اخلاقیات پر پورا اترنا ایک رضاکارانہ عمل ہوتا ہے ،یہ بندے کی اپنی ساکھ اور اعتبار کا مسئلہ ہے ۔لیکن ہمارے معاشرے میں بد قسمتی سے یہ جنس کمیاب ہی نہیں ، نایاب ہے۔لہٰذا جب تک اخلاقیات کو بھی قانون کا درجہ نہ دیا جائے تو محض شوروغوغا سے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بدقسمتی سے ہماری سیاست اسی لا حاصل مشق کا نام ہے ۔
قرآن مجید کی آیاتِ مبارکہ جو شروع میں درج کی گئی ہیں ،اُن کا مقصد بھی یہی ہے کہ عام انسانی جبلّت کی طرح ہمارا اجتماعی نظم عجلت پسندی ،مادیت پرستی ،نفعِ عاجل اور مطلب براری کا آئینہ دار ہے۔ ملک کے دیرپااور دائمی مفاد سے کسی کو غرض نہیں ہے ، ورنہ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی نمائندے مل بیٹھ کر ماہرین کی مدد سے نظام کی اصلاح کے لیے تجاویز مرتب کریںاور پھر انہیں قانونی حیثیت دیں۔ ہمارا آئین مرتب کرنے والوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کی مجالسِ قائمہ کا ادارہ اسی مقصد کے لیے قائم کیا تھا کہ کسی بھی مسئلے پر قانون سازی سے پہلے پوری طرح سے چھان پھٹک ہو،قانون کی حتمی تشکیل سے پہلے تمام مُثبِت اور منفی پہلوئوں کا احاطہ کیا جائے ،ہر چور دروازے کو بند کیا جائے اورقانون کو جامع ومانع بنایا جائے۔لیکن صد افسوس کہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا،یہ تجربہ ہمیں امریکا میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کی کارروائیوں میں ملتا ہے ۔
(د)ہماری سیاسی قیادت بحیثیت مجموعی کوثر وتسنیم میں دھلی ہوئی نہیں ہے ۔اکثراپنی کمزوریوں کومستور رکھنے کے لیے دوسروں کے عیوب پر پردہ ڈالنا ناگزیر ہوجاتا ہے ،کیونکہ ہماری قانونی اور اخلاقی کمزوریاں تقریباً یکساں ہیں۔ شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی نے کہاہے: ؎
گر کند میل بہ خُوبان دلِ مَن ،عیب مَکُن
کاین گناہیست کہ در شہر شما نیز کنند
ترجمہ:''اگر میرا دل حسینائوں کی طرف کھچا چلا جاتا ہے،تو اِسے عیب نہ سمجھ،کیونکہ یہ وہ گناہ ہے کہ جو( آئے دن) آپ سے بھی سرزد ہوتا رہتا ہے ‘‘، یعنی اس حمام میں سب ننگے ہیں اور کسی کا دامن بھی پاک نہیں ہے ۔ہر ایک زبانِ حال سے دوسرے سے مخاطب ہے : ع
تمہاری زلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی
وہ تیرگی ،جو میرے نامۂ سیاہ میں تھی
اسی لیے میں نے کسی گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ اگر پاناما لیکس کے بارے میں یہ سیاسی کشمکش آگے بڑھتی ہے ،تو پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام،پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور دیگر قوم پرست جماعتیں خواستہ وناخواستہ حکومت کی پشت پر آکر کھڑی ہوں گی، کیونکہ اُن کے نزدیک وزیرِ اعظم کو غیر جمہوری طریقے سے اقتدار سے معزول کرنے کا مقصد آئین کی نفی ہے اور اس کے لیے وہ تیار نہیں ہیں۔ اُن کے نزدیک اُن کے حقوق کا جو تھوڑا بہت تحفظ ہوسکتا ہے ،وہ جمہوری ،آئینی اور پارلیمانی نظام میں ہوسکتا ہے اور مختلف گوشوں سے صدارتی نظام کے حق میں وقتاً فوقتاً جو صدائیں بلند ہوتی ہیں ،وہ اُن کے نزدیک آئینی نظام کو تاراج کرنے والی غیبی قوتوں کے اشارے سے ہوتی ہیں ۔
مذہبی جماعتیں مابین المسالک اور خود مسالک کے اندر تشتُّت وافتراق کا شکار ہیں ،وقتاً فوقتاً جو آپ اُن کے اجتماعات دیکھتے ہیں ،یہ فریب خوردگی اور فریب دہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''(ظاہرِ حال میں)تم انہیں یکجا سمجھتے ہو، حالانکہ اُن کے دل (ایک دوسر ے سے )جدا جدا ہیں، (الحشر: 14)‘‘ ۔ جہاں تک منظّم ہونے کا بھرم رکھنے والی مذہبی سیاسی جماعت ،جماعتِ اسلامی کا تعلق ہے ،وہ انگریزی محاورے کے مطابق Taken for Grantedیعنی ''ہمہ وقت برائے خدمت دستیاب ‘‘کی صورت میں ہے ،جہاں ہلا گُلا ہو ،ہمارے یہ دوست شامل باجا ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں ،نظریاتی وحدت واشتراک کی کوئی اہمیت نہیں رہی ،نہ ہی ہم اپنی ماضی کی تاریخ سے سبق حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں ۔پاکستان نیشنل الائنس المعروف پاکستان قومی اتحاد یا تحریکِ نظام مصطفی ﷺ اِسی طرح کے متضاد عناصر کا مجموعہ تھی اور اُس دور میں اُس کی اٹھان مثالی تھی ۔لیکن چونکہ وہ بھی منفی مقصد یعنی ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو مسندِ اقتدار سے معزول کرنے کے لیے تھی،نہ کوئی قومی میثاق مرتّب شکل میں موجود تھا اورنہ ہی کسی لائحہ عمل پر قومی اتفاقِ رائے تھا ۔چنانچہ وہ تحریک مارشل لاء پر منتج ہوئی اور اُس وقت کے مقتدر نے کہاکہ آئین کیا ہے ،چند کاغذ کے ٹکڑے ہیں اور سیاست دان ہر وقت برائے خدمت دستیاب ہیں، میں جسے اشارہ کروں گا،وہ دُم ہلاتا ہوا چلا آئے گا،انہوں نے بقولِ خود نسب ناموں کا مطالعہ کر کے اپنی مَن پسند مجلسِ شوریٰ تشکیل دے دی ۔اور اس پر نہ زمین شَق ہوئی ،نہ آسمان پھٹ پڑا اور نہ ہی ہمالیہ رویا، البتہ ملک میں جمہوریت کا تسلسل مفقود ہوگیا، بعد کی تاریخ بھی اس سے مختلف نہیں ہے ۔ہوسکتا ہے بانیانِ پاکستان کی روح گریہ کُناں ہوئی ہو،لیکن اُس پر غور کرنے کی کسی کو فرصت نہیں ہے ۔لہٰذا ہماری ناقص رائے میں عُجلت پسندی سے اجتناب کیا جائے اور قومی اتفاقِ رائے یا کثرتِ رائے سے ان مسائل کا مل بیٹھ کر ایک دیرپا حل تجویز کیا جائے تاکہ قرآن کے کلماتِ مبارکہ کی رُو سے : ''جسے(ذلت کے ساتھ) ہلاک ہونا ہے ،وہ دلیل آنے کے بعد ہلاک ہو اور جسے (باوقارانداز میں) جینا ہے وہ حجت کے ساتھ جیے ، (الانفال:42)‘‘۔پس تاریک کھائی میں چھلانگ لگانے سے اجتناب اولیٰ ہے ،اِسے صدائے فقیرسمجھو یا ندائے غالب: 
اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل 
زنہار! اگر تمھیں ہوسِ نائے و نوش ہے 
دیکھو مجھے، جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو! جو گوشِ نصیحت نیوش ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved