تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     17-04-2016

رب‘ راج‘ روپیّہ

اگر چھوٹو مارا گیا‘ تو پاکستان میں ان گنت سرمایہ داروں کی چھٹی ہو جائے گی۔ پورے جنوبی پنجاب میں چھوٹو اور اس جیسے دوسرے ڈاکوئوں کا راج ہے۔ ان کی طاقت دیکھ کر‘ لوگوں نے اپنے نقد اثاثے‘ چھوٹو کے پاس جمع کرانے شروع کر رکھے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے پاس پاناما چھاپ دولت ہے۔ اسے بینکوں میں جمع کرایا جائے تو پوچھ گچھ ہوتی ہے۔ اگر جمع شدہ سرمایہ سرکاری چھان بین سے محفوظ رہ جائے تو اسے ڈاکو لوٹ لیتے ہیں۔ تنگ آکر لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بجائے بینک یا گھروں کے‘ اپنی جمع پونجی چھوٹو کے پاس جمع کرا دی جائے۔ اس طرح واپسی کا تقاضا تو کیا جا سکتا ہے؟ چھوٹو مرے گا تو ہو سکتا ہے کہ اس کے پاس جمع شدہ دولت‘ خطرے میں پڑ جائے لیکن اس نے یہ بندوبست بھی کر رکھا ہو گا کہ موت کی صورت میں جو امانتیں‘ اس کے پاس جمع ہیں‘ وہ مالکان کو لوٹا دی جائیں۔ کاش‘ پاکستان کے بینک بھی اتنے ہی ایمانتدار ہوتے۔ ہمارے بینکوں کا تو یہ حال ہے کہ کروڑوں روپے جسے چاہتے ہیں‘ نکال کر دے دیتے ہیں اور پھر معاف بھی کر دیتے ہیں۔ یہ پیسہ کس کا ہوتا ہے؟ کھاتہ داروں کا۔ ہمارے ملک کے وزیر اعظم کا خاندان‘ اپنے بینکوں پر بھروسہ نہیں کرتا۔ وہ اپنی دولت پاناما جا کر‘ وہاںکے بینکوں میں جمع کراتا ہے۔ ہم مجبور ہیں۔ ہمیں پاکستان میں ہی رہنا ہے۔ یہیں سے کمانا ہے اور یہیں پر جمع کرنا ہے اور یہیں ڈاکوئوں سے بچانا ہے۔ ہم اپنا پیسہ چھوٹو کے پاس جمع کرائیں یا پاکستانی بینکوں میں۔ ہمارے اثاثوں کی بندر بانٹ ہی ہونا ہے۔ چھوٹو کے پاس جمع کرایا پیسہ‘ شاید محفوظ رہ جائے لیکن بینکوں میں جمع کرایا گیا پیسہ‘ ہمارے مالیاتی نظام کے ڈاکو اڑا لے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں پاناما لیکس میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ ہمارے وزیر اعظم کے دونوں فرزند‘ فضلِ ربی کی تلاش میں‘ پاناما چلے گئے۔ وہاں کے بینکوں میں اپنی دولت جمع کرائی۔ سعودی عرب سے جتنا ھٰذا من فضلِ ربی‘ پاناما میں آنے کے بعد ہوا‘ اتنا سعودی عرب میں بھی نہیں ہوا تھا۔ ہمارے وزیر خزانہ پر‘ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہے۔ اس وقت وہ خزانے کی دو وزارتیں چلا رہے ہیں۔ ایک پاکستان کا خزانہ اور ایک رائیونڈ کا خزانہ۔ ان دنوں وہ پاکستان کی وزارت خزانہ سے‘ فرزندوں کے خزانے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ گزشتہ روز وہ بطور خاص‘ پاناما کے خصوصی دورے پر تشریف لے گئے اور وہاں کی جس آف شور کمپنی میں‘ فرزندوں کی دولت جمع ہے‘ اس کی انتظامیہ سے مذاکرات کئے اور وہاں کے ڈپٹی وزیر خزانہ سے‘ بحرانی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔ اس ملاقات کی خبر سی این این نے چلا دی لیکن ہمارے معاملات میں‘ جس طرح ساری دنیا جھوٹ بولتی ہے‘ سی این این نے بھی اسی خبث باطن کا مظاہرہ کیا۔ خود وزیر اعظم براستہ ماسکو‘ لندن تشریف لے گئے‘ جہاں انہیں اپنا طبی معائنہ کرانا تھا مگر ساتھ ہی آف شور بینک اکائونٹس کا ''طبی معائنہ‘‘ بھی کرتے رہے۔ بچوں کے معاملات کی دیکھ بھال بھی کی۔ بچوں کا کاروبار بہرحال آزادانہ ہے اور والد محترم کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں‘ لیکن اولاد پھر اولاد ہے۔ جس طرح شاہی خاندان کے بچوں کی کمائی کی‘ پوری طرح دیکھ بھال ہوتی ہے‘ اسی طرح چھوٹو کے کھاتہ داروں کی جمع شدہ پونجی کی حفاظت بھی کی جاتی ہے۔ 
مجھے تو آج بھی یقین ہے کہ چھوٹو کے بڑے بڑے سٹیک ہولڈرز‘ آخرکار اسے بچا لیں گے‘ کیونکہ جدید دنیا نے ایک ''کیپیٹل کلب‘‘ بنا رکھی ہے۔ اربوں روپے کمانے والے اس کے رکن بنتے ہیں اور وہ جتنی دولت بھی اکٹھی کر لیں‘ اسے عالمی سطح پر یہ کلب تحفظ دیتی ہے۔ پاناما کلب کے ارب پتی اراکین تو سینکڑوں میں ہیں۔ شاید ہزاروں میں ہوں‘ لیکن لاکھوں والے جو غیر محفوظ اور مضطرب لوگ‘ خود کو سرمایہ دار سمجھتے ہیں‘ پوچھتے پھرتے ہیں کہ یہ پاناما کہاں ہے؟ سمجھدار لوگ انہیں چھوٹو کا پتہ بتا دیتے ہیں اور وہ دو چار‘ دس بیس لاکھ کی پونجی جنوبی پنجاب کے پاناما میں جمع کرا کے خوش ہو جاتے ہیں۔
جتنے لوگ‘ وزیر اعظم کے فرزندوں کی پاناما میں‘ جمع شدہ دولت پر شور مچا رہے ہیں‘ اصل میں وہ خود اس کلب کے رکن بننے کے خواہش مند ہیں۔ گزشتہ دنوں جب عمران خان‘ اپنے دو سرمایہ دار ساتھیوں کے ہمراہ لندن گئے‘ تو وہاں مالیات کے بہترین ماہرین کے پاس‘ فرانزک چھان بین کر کے‘ یہ دیکھتے پھرے کہ پاناما میں اکائونٹ کھولنے کے لئے کتنی دولت درکار ہے؟ دلوں کے حال اللہ جانتا ہے۔ بہرحال یہ شبہ کرنا واجب ہے کہ عمران خان‘ بڑے اکائونٹس کی چھان بین کرنے آئے ہوں گے۔ ان کے دو ہی مقاصد ہو سکتے ہیں۔ یا تو پاناما کے اکائونٹس ہولڈرز کی برابری کے لئے اپنا اکائونٹ کھولیں یا فرانزک ریسرچ کے ذریعے‘ دوسروں کے بہی کھاتوں میں جھانک لیں‘ تاکہ پتہ چلے کہ کس نے‘ کتنے ملک لوٹ کر کتنی پونجی جمع کی ہے؟ ایک دو ملک لوٹ کے‘ پاناما یا دیگر آف شور مراکز میں اکائونٹ نہیں کھولے جا سکتے۔ ہمارے وزیر اعظم نے تو صرف ایک ہی ملک میں ''مزدوری‘‘ کر کے پانچ دس کھرب کی رقم جمع کی ہو گی‘ جو انہوں نے گزشتہ عید کے دن‘ بچوں کو بطور عیدی دے دی۔ آج ہمارے وزیر اعظم کے بہی کھاتے کھولے جائیں‘ تو اندر سے کچھ برآمد نہیں ہو گا۔ وزیر اعظم نے اپنے پاس بقول خود رکھا ہی کچھ نہیں۔ 
بھارت کے مقابلے میں ہماری اکانومی بہت چھوٹی ہے۔ وہاں کئی وزیر اعظم بنے‘ لیکن باور کیا جاتا ہے کہ ان میں سے کسی کی رقم بھی‘ آف شور کمپنیوں میں جمع نہیں۔ یہ ہماری شان ہے کہ خدا نے ہمیں امیر کبیر وزرائے اعظم سے نوازا۔ بھارت کے بھوکے ننگے عوام کی قسمت میں‘ اسی طرح کے تھڑ پونجیے وزیر اعظم ہی لکھے ہیں۔ پاکستانی سیاست کے فاسٹ بائولر‘ عمران خان مسلسل‘ جناب وزیر اعظم کی طرف بائونسر پھینک رہے ہیں۔ تازہ بائونسر بہت ہی خطرناک ہے۔ کپیل دیو نے وسیم اکرم کی بائولنگ کا ذکر کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ''وسیم کی گیند اتنی تیز آتی کہ اسے کھیلنا تو دور کی بات‘ ہمیں سمجھ تک نہیں آتی تھی کہ اس سے بچائو کیسے کرنا ہے؟ گیند کا پتہ اس وقت چلتا‘ جب وہ کان کے پاس سے شوں کرتی ہوئی نکل جاتی تھی‘‘۔ عمران کے بائونسر بھی‘ وزیر اعظم کے کان کے پاس سے شوں کرتے ہوئے نکلتے جا رہے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ خیر خیریت رہتی ہے۔ کوئی چوٹ ووٹ نہیں لگتی۔ میاں صاحب‘ انشاء اللہ اس بار بھی بائونسر کے سامنے سے سر ہٹا کر محفوظ رہیں گے۔ پاکستان پر صرف میاں نواز شریف کی حکومت نہیں‘ ان کا تمام خاندان حتیٰ کہ بچہ بچہ حکمرانی کی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے۔ اتنے بڑے ہجوم کی حکمرانی بہت دیرپا ہوتی ہے۔ رواں صدی میں تو کم از کم اس خاندان کی حکمرانی کو کوئی خطرہ نہیں۔ 2018ء میں میاں صاحب‘ انشاء اللہ ایک مرتبہ پھر منتخب ہوں گے۔ جب وہ اپنی مدت پوری کر لیں گے تو مریم بیٹی تیار بیٹھی ہے۔ انشاء اللہ‘ دس پندرہ سال تک وہ بھی حکومت کرے گی۔ اس کے بعد شاید‘ میاں شہباز شریف کا نمبر آجائے۔
نوٹ:۔ جناب وزیر اعظم نے حسب عادت ایک اور کمیشن بنا کر اس کی سربراہی سابق جج‘ سرمد جلال عثمانی کے سپرد کر دی۔ قائد حزب اختلاف‘ خورشید شاہ نے بڑے خوبصورت انداز میں اس نامزدگی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم جج صاحب کی عزت کرتے ہیں لیکن ان کی نامزدگی پر بڑے احترام کے ساتھ اعتراض ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved