یہ ان دنوں کی بات ہے جب راجن پور اور مظفر گڑھ ابھی ضلع نہیں بنے تھے اور موجودہ ڈیرہ غازی خان ڈویژن پاکستان کا وسیع و عریض ضلع تھا۔ شاہوالی ‘ڈیرہ غازی اور راجن پور کا دور دراز قصبہ ہے جہاں کی پولیس چوکی کو ڈیرہ غازی خاں کا کالا پانی سمجھ کر حکام کے ناپسندیدہ پولیس اہلکاروں کی تعیناتی ہوتی تھی۔ ایک نوجوان پولیس افسر نے ضلعی مہتمم پولیس کا چارج سنبھالا تو تھانہ شاہوالی کے معائنے کا ارادہ کیا‘ ماتحتوں نے سمجھایا حضور! بہت دور اور سفر دشوار ہے مگر دیگر نوجوان افسروں کی طرح ڈٹ گئے کہ میں تو شاہوالی جا کر چھوڑوں گا۔
دورے کا پروگرام بنا‘ دن بھر کے سفر کے بعد تھکے ماندے شاہوالی پہنچے‘ عمارت میں داخل ہوئے تو ایک کانسٹیبل ٹوٹی پھوٹی چارپائی پر لیٹا کسی ملزم یا مشقتی سے ٹانگیں دبوا رہا تھا۔ ایس پی کی آمد پر سلیوٹ کرنا تو درکنار اٹھنا بھی گوارا نہ کیا۔ ایس پی نے رعب دار آواز میں پوچھا‘ تم جانتے ہو میں کون ہوں اور تم نے میری آمد کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟''کانسٹیبل سے کم تر کوئی رینک نہیں اور شاہوالی سے آگے کوئی تھانہ نہیں‘ آپ میرا کیا بگاڑ سکتے ہیں ‘‘کانسٹیبل نے لیٹے لیٹے جواب دیا ۔اسی شاہوالی کے نواح میں ان دنوں غلام رسول عرف چھوٹو کے خلاف آپریشن جاری ہے اور ایک ایس ایچ او سمیت سات پولیس اہلکار اس آپریشن کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
رانا ثناء اللہ کا دعویٰ اگرچہ اب بھی یہی ہے کہ پنجاب پولیس فوج کی کمان میں نہیں اپنے طور پر آپریشن کر رہی ہے لیکن آئی ایس پی آر نے یہ کہہ کر صورتحال واضح کر دی ہے کہ فوج کی کمان میں رینجرز اور پولیس نے علاقے کا محاصرہ کر لیا ہے اور فرار کے راستے مسدود کرنے کے بعد مغوی پولیس اہلکاروں کی بازیابی کی کوششیں جاری ہیں۔ پانچ سال تک مسلم لیگ کے ایم پی اے سردار عاطف مزاری کا باڈی گارڈ رہنے والا ایک عام شہری اس قدر خطرناک ڈاکو کس طرح بنا اور اس نے بوسن گینگ سمیت دیگر چھوٹے موٹے گروہوں کو زیر کرنے کے بعد چار پانچ اضلاع تک اپنی متوازی سلطنت کو کیسے وسیع کیا ‘یہ ایک طویل داستاں ہے۔ مقامی وڈیروں اور پولیس نے روایتی ہتھکنڈوں کے ذریعے اسے جرائم کی وادی میں دھکیلا‘ دہشت کی علامت بنایا اور ہر کردہ ‘ناکردہ جرم کا ملبہ اس پر ڈال کر مال پانی بھی بنایا اور اپنے جرائم پر پردہ بھی ڈالا۔ اسے تحفظ فراہم کرنے والے بھی جاگیردار اور پولیس حکام تھے اور اس کے خلاف واویلا کرنے والے بھی۔
پولیس اور اپنے مقامی مخالفین کے مقابلے میں یہ شخص اتنا چالاک تھا کہ آج تک پولیس و انتظامیہ اس کے گروہ درکنار علاقے میں اپنا کوئی مخبر پیدا کرسکی نہ بوسن گینگ‘ علی بازگیر گینگ کی طرح دھڑے بندی میں کامیاب ہوئی اور نہ علاقے کے عوام کو اپنا ہمنوا بنا سکی۔ سلطانہ ڈاکو اور محمد خان ڈاکو کی طرح چھوٹو اپنی پناہ گاہ کے قریبی علاقوں میں خود واردات کرتا تھا نہ کسی اور کو گھسنے دیتا ‘ لوٹ مار کے مال میں سے وہ وڈیروں اور پولیس اہلکاروں کے علاوہ علاقے کے لوگوں کی خوب مدد کرتا‘ شادی بیاہ اور موت فوت کے موقع پر اس کی دریا دلی نے اردگرد کے علاقوں میں ہمدردی کے جذبات پیدا کئے اور ہر آپریشن کے موقع پر یہ غریب لوگ ڈھال کا کام دیتے رہے۔ جب یہ صرف جنوبی پنجاب نہیں بلکہ بالائی پنجاب‘ خیبر پختونخوا‘ سندھ اور بلوچستان کے ہسٹری شیٹرز‘ جرائم پیشہ ‘ اغوا کار‘ بھتہ خور اور دہشت گرد عناصر کے لیے مرکز نگاہ بن رہا تھا تو پولیس‘ انتظامیہ اور میڈیا خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔
پولیس حکام کی غفلت کا تو یہ عالم ہے کہ آخری آپریشن کی ناکامی کے بعد جب معقول رقم کے ساتھ مبینہ طور پر ساٹھ ستر لاکھ روپے کا سیمنٹ اور سریا بطور تاوان چھوٹو گینگ نے منگوایا تو کسی نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ اس سیمنٹ سریے سے وہ پختہ بنکر اور خندقیں تعمیر کرے گا اور آئندہ پولیس آپریشن مزید مشکل ہو گا۔ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا اور ڈی پی او راجن پور و رحیم یار خان کو چھوٹو گینگ کی قوت‘ جدید اسلحے اور کنکریٹ سے بنے بنکرز کی صورت میں محفوظ ٹھکانوں کا علم ہونے کے باوجود ایلیٹ فورس کو معمولی اسلحے سے لیس کھلی کشتیوں میں جزیرے کی طرف بھیجنا ایک ناکام جوا ثابت ہوا اور جذبہ جہاد سے سرشار سات پولیس اہلکار خودکش مشن کی بھینٹ چڑھ گئے۔ سات اضلاع کی پولیس کا ایک سو پچاس افراد پر مشتمل گروہ کے سامنے ناکامی سے دوچار ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ذمہ داری اب تک مگر کسی نے قبول نہیں کی۔
فوجی آپریشن کی کامیابی تو یقینی ہے تاہم اب وقت آ گیا ہے کہ پنجاب پولیس کی اوپر سے نیچے تک تفتیش و تطہیر کی جائے۔ کراچی پولیس کی طرح اس میں بھی کہیں دہشت گردوں‘ ڈاکوئوں‘ اغوا کاروں اور بھتہ خوروں کے ساتھی‘ سہولت کار اور مخبر تو موجود نہیں۔ عزیر بلوچ کی طرح گزشتہ روز عبدالقادر بلوچ نے بھی کراچی پولیس کے بعض ایس پی سطح کے افسروں کے حوالے سے انکشافات کئے ہیں ۔چھوٹو گینگ گرفتاری کے بعد اس سلسلے میں ریاستی اداروں کی مدد کر سکتا ہے بشرطیکہ اسے ہر صورت میں زندہ گرفتار کیا جائے اور اس کے اعترافی بیانات کی روشنی میں مخبروں‘ سہولت کاروں‘ مددگاروں اور اسے جرائم کی وادی میں دھکیلنے والوں سے کسی قسم کی رعایت نہ ہو۔ چھوٹو گینگ چٹی دلالی‘ وڈیرہ شاہی‘ بھتہ خوری‘ زر اندوزی ناانصافی اور ریاستی جبر پر مبنی موجودہ طبقاتی نظام کا نمائندہ ہے اور ملک میں جاری ظلم‘ زیادتی اور قانون شکنی کی علامت۔ پانی ڈھلوان کی طرف بہتا ہے اور حکمران طبقات کی عادتیں‘ رویے اور افعال عام آدمی کے کردار پر فیصلہ کن اثرات مرتب کرتے ہیں۔
پاکستان میں اکیلا چھوٹو گینگ نہیں جس نے قانون کو للکارا‘ ریاست کے اندر ریاست قائم کی اور پولیس و انتظامیہ کے علاوہ شریف شہریوں کے لیے خطرہ بن گیا۔ ہر شہر اور علاقے میں ایسے گینگ موجود ہیںاور بعض نو گو ایریاز بھی۔ مقامی وڈیروں‘منتخب عوامی نمائندوں اور پولیس و انتظامیہ کی سرپرستی میں کام کرنے والے یہ گینگ قتل‘ اغوا برائے تاوان‘ ڈکیتی‘ راہزنی اور بھتہ خوری کا کاروبار کرتے ہیں مگر اپنے سیاسی سرپرستوں کی وجہ سے قانون کی گرفت میں نہیں آتے۔ ان جرائم پیشہ گروہوں اور پولیس میں اس طرح کی خاموش مفاہمت ہوتی ہے جس طرح ہماری سیاست میں ان دنوں رائج ہے ۔تم ہمارے جرائم کی پردہ پوشی کرو ہم تمہارے گناہوں سے چشم پوشی کریں گے۔ مابخیر شمابسلامت!
جب حکمران پوری قوم کو یرغمال بنا کر قومی خزانے کی لوٹ مار میں مصروف ہوں‘ ان کے قریبی ساتھی اپنے اپنے علاقوں میں جرائم پیشہ گروہوں کے سرپرست اور منتخب عوامی نمائندے چٹی دلالی کا کاروبار کرتے ہوں‘ پولیس اور انتظامیہ اپنے خاندان کی حفاظت اور مخالفین کی سرکوبی پر مامور‘ نظام انصاف صرف امیروں‘ طاقتوروں اور قبضہ گروپوں کے لیے مختص ہو اور عام آدمی کی جان و مال‘ عزت و آبرو کے تحفظ‘ تعلیم‘ صحت اور روزگار کی ذمہ داری سے ریاست سبکدوش ہو کر محض اشرافیہ کی نازبر داری میں مصروف ہو تو اس طرح کے گروہ وجود میں آتے اور من مانی کرتے ہیں۔ طاقت و قوت خواہ ووٹ کی ہو‘ دولت کی یا اسلحے کی‘ گر قانون اور اخلاقیات کے دائرے سے نکل جائے اور کرپشن کا بازار گرم ہو تو ہر طاقتور زور آزمائی کرتا ہے ۔ماڈل ٹائون میں پندرہ بے گناہوں کو تہہ تیغ کرنے والوں کی ریاست اور قانون نے باز پرس نہیں کی‘ چھوٹو کو بھی یقین تھا کہ اس سے کون پوچھ سکتا ہے۔
فتح مصر کے بعد سپہ سالار نے امیر المومنین کو ایک رقعہ بھیجا جس میں درج تھا کہ میرے سپاہی اس قدر دیانتدار ہیں کہ اگر کسی کو مفتوحہ علاقے سے سونے کی اینٹ بھی ملی تو اس نے بیت المال میں جمع کرا دی۔ خط پڑھ کر حضرت عمر ؓ اشکبار ہو گئے‘ ساتھ حضرت علی کرم اللہ وجہہ‘ بیٹھے تھے‘ پوچھا کیا ہوا؟ حضرت عمرؓ نے ماجرا بیان کیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ‘بولے ‘یہ سپاہیوں کی دیانت کا کرشمہ نہیں‘ آپ کی دیانت کا اثر ہے۔ سربراہ حکومت‘ دیانت دار نہ ہو تو سپاہ میں یہ وصف کبھی پیدا نہیں ہو سکتا۔
کیا خیال ہے‘ طورخم سے مکران تک ہمیں جو کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے وہ ہماری حکمران اشرافیہ کے کردار کا پرتو نہیں؟۔ عزیر بلوچ‘ چھوٹو مزاری ‘ صولت مرزا ماں کے پیٹ سے ڈاکو‘ قاتل‘ دہشت گرد‘ ٹارگٹ کلر‘ اغوا کار اور بھتہ خور پیدا نہیں ہوتے۔ ہم اور ہمارے اعمال و عمّال انہیں اس سانچے میں ڈھالتے ہیں۔
ایک غلطی چھوٹ مزاری سے ضرور ہوئی ‘اپنی ''نیک کمائی‘‘ سے وڈیروں کے انتخابی اخراجات اٹھانے اور ویران جزیرے میں مقیم رہنے کے بجائے اس دولت کے صدقے خود منتخب ہو کر لاہور یا اسلام آباد کے کسی ایوان میں ڈیرہ جماتا ‘مجال ہے کوئی اسے ٹیڑھی آنکھ سے بھی دیکھ سکتا۔