ایک طرف پانامہ کا ہنگامہ ہے تو دوسری طرف جنوبی پنجاب میں دریائے سندھ کے کنارے اپنی ''سلطنت‘‘ قائم کرنے والے چھوٹو مہاراج کے خلاف فوج کو میدان میں اتارنا پڑا ہے۔ یہ چھٹا حملہ ہے جو ''چھوٹو سومنات‘‘ پر کیا جا رہا ہے، امید ہی نہیں یقین ہے کہ یہ فیصلہ کن ہو گا اور اس گینگ کے ارکان زندہ یا مردہ گرفتار کر لئے جائیں گے۔ یہ تجزیہ بھی کیا جا رہا ہے کہ حکام کو انہیں زندہ پکڑنے میں دلچسپی نہیں۔ اس طرح ان کے سرپرست اور محافظ بے نقاب ہو سکتے ہیں کہ طاقتور سرپرستوں کے بغیر نہ جرم پرورش پاتا ہے اور نہ مجرم دندنا سکتے ہیں۔ کراچی اور کوئٹہ میں بھی ''چھوٹو گینگز‘‘ کے خلاف جنگ جاری ہے۔ کئی کیفر کردار کو پہنچ چکے، لیکن کئی ابھی تک زمین کی چھاتی پر مونگ دَل رہے ہیں۔ روزانہ ان کا کوئی نہ کوئی کارندہ پکڑا جاتا ہے اور اپنے ''کارناموں‘‘ کی ایسی تفصیل بیان کرتا ہے کہ سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
پاکستان کن آرزوئوں اور تمنائوں سے بنایا گیا تھا۔ برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے کن ارمانوں سے ایسے وطن کا خواب دیکھا تھا، جہاں وہ اپنے معاملات آزادانہ چلا سکیں اور اپنے آدرشوں اور خوابوں کے مطابق اجتماعی زندگی کی تشکیل کر سکیں۔ قائد اعظمؒ کے یہ الفاظ آج بھی کانوں میں رس گھول دیتے ہیں کہ پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ ہو گا۔ گویا یہاں ایک ایسا معاشرہ ترتیب پائے گا جس کی بنیاد اسلام کے آفاقی اور اخلاقی اصولوں پر ہو گی اور جس کی عمارت جدید طرز تعمیر کا نمونہ ہو گی۔ یہاں تعلیم و تحقیق کی دنیائیں آباد ہوں گی تو ایجاد و تخلیق کا ماحول بھی فراہم ہو گا۔ برابری اور اخوت کے جذبے سے سرشار لوگ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلیں گے۔ زبردستوں کی اکڑ توڑی جائے گی تو زیر دستوں کا سر اونچا کیا جائے گا۔ حکیم الامت (علامہ اقبالؒ) کے بقول مسلمان عوام کی روٹی کا مسئلہ حل ہو گا۔ ڈرانے والے ڈرا رہے تھے کہ نئے ملک میں غربت کا راج ہو گا۔ بانٹنے کے لئے امارت نہیں، غربت ہی ہاتھ آئے گی۔ جواب یہ دیا جاتا تھا کہ فکر نہ کرو ہم مل بانٹ کر گزارا کر لیں گے۔ پھولنے والے پیٹ اگر نہیں ہوں گے تو کیا، آدھی آدھی روٹی بھی میسر آئی تو سب کے حصہ میں آئے گی۔ پیٹ پر پتھر باندھنے پڑے تو سب کے پیٹ ایک جیسا بوجھ اٹھائیں گے۔ ایک ایسے معاشرے کا تصور آنکھوں میں بسائے سب نعرہ زن تھے... ''بٹ کے رہے گا ہندوستان، بن کے رہے گا پاکستان‘‘... کسی کے حاشیہء خیال میں بھی نہ تھا کہ پہلے قدم ہی پر اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ فسادات کا بازار گرم ہو گا اور اقلیتی علاقوں کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ مسلم اکثریتی علاقوں کی زمین غیر مسلموں کو راس نہیں آئے گی اور غیر مسلم اکثریتی علاقے مسلمانوں کے لئے جہنم بن جائیں گے۔ انہیں آگ اور خون کے دریا میں دھکا دے کر بزعم خود پاکستان روانہ کر دیا جائے گا۔
وہ سب کچھ ہوا جس کا تصور تک نہ کیا گیا تھا۔ پہاڑوں جیسے بوجھ اٹھائے لاکھوں لوگ نئے وطن پر لاد دیئے گئے۔ انسانی تاریخ کی اس سے بڑی ہجرت سورج کی آنکھ نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ نئی مملکت جس کا نہ کوئی ڈھانچہ تھا، نہ نظم،دفتر تھا، نہ اہل کار، دیکھتے ہی دیکھتے اپنے پائوں پر کھڑی ہو گئی۔ درختوں کے سائے میں بیٹھ کر ببول کے کانٹوں سے کاغذات کو جوڑ جوڑ کر فائلیں بنائی جانے لگیں‘ اور دنیا حیران ہو کر رہ گئی۔ وہ جو دعوے کر رہے تھے کہ چند روز میں یہ گھٹنے ٹیک کر واپسی کی بھیک مانگیں گے اور اپنے مطالبے کو اپنی بہت بڑی غلطی قرار دے کر توبہ توبہ کر اٹھیں گے، سر پیٹ کر رہ گئے کہ پہلا بجٹ ہی متوازن سے بڑھ کر تھا۔ خسارے کی جگہ فائدے کا تھا، خرچ آمدنی کے مقابلے میں کم تھا... اور پھر قدم آگے بڑھتے چلے گئے، نیا ملک عزت پاتا گیا۔ اسلامی اصولوں کی روشنی میں جمہوریت کی بنیادیں مضبوط کرنے میں مصروف ہوا اور داد پانے لگا۔
کارخانے بنتے گئے، درس گاہوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا، ہسپتال تعمیر ہوتے گئے، امیر اور غریب سب کے بچے ایک جیسے سکولوں میں پڑھتے، ایک جیسے ہسپتالوں سے علاج کراتے، ایک جیسی بستیوں میں ساتھ ساتھ رہتے، ایک دوسرے کا درد بانٹنے میں مگن تھے۔ ان کا اسلام فرقہ واریت کا نام نہیں تھا اور کوئی ایک صوبہ ان کا بت خانہ نہیں تھا۔ پھر وہ ہوا کہ جو نہیں ہونا چاہیے تھا اور وہی ہوتا چلا گیا۔ ایسے حکمران آئے جو احتساب سے بے نیاز تھے، جو سب کو اپنے سامنے اور اپنے آپ کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے تھے۔ جنہوں نے اس شراکت نامے ہی کو پھاڑ ڈالا جو نئی مملکت کے شہریوں نے مل بیٹھ کر تحریر کیا تھا، کاروبار مملکت چلانے کے لئے فرائض اور ذمہ داریوں کا تعین کیا تھا، اپنے اپنے حصے کے کام بانٹے تھے اور اپنے اپنے کام کو سرانجام دینے کا عہد کیا تھا... ''پارٹنرشپ ڈیڈ‘‘ کے ٹکڑے ہوئے تو ہر حصہ دار نے اپنے حصے کو بڑھانے کے لئے ہاتھ پائوں مارنا شروع کئے۔ جس کے ہاتھ لاٹھی تھی، وہ بھینس پر اپنا حق جتانے اور منوانے میں لگ گیا۔ حصہ بقدر جثہ کا قومی نعرہ ایجاد کیا گیا اور آپا دھاپی شروع ہو گئی۔ یہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
سیاست، تجارت، صنعت، معاشرت میں چھوٹو گینگ بنتے اور بڑھتے چلے گئے، اثاثے بنانا اور چھپانا فرض اولین قرار دے لیا گیا۔ ایک ایسا حمام بن گیا جس میں سب ننگے تو ہیں لیکن دوسروں کو طعنے دے رہے ہیں، ان کے ننگ کی نشاندہی کر رہے ہیں، ان پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں اور پاکستان حیران کھڑا ہے، مَیں کہاں پھنس گیا ہوں؟ ملک بنا تھا تو اس کے رہنے والے غریب تھے، لیکن جذبوں نے سرکاری خزانے کو بھر دیا تھا۔ اب ارب پتی قطار اندر قطار ہیں، لیکن قومی خزانہ زبردستوں اور سرکشوں سے اپنا حصہ وصول نہیں کر پا رہا۔ یہ غیروں کے چندے پر چلتا ہے اور بے بس لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں، ایک چھوٹو تو گھیرے میں آ گیا، دوسروں کی باری کب آئے گی؟ آستینیں اپنے اپنے بت کب نکال کر پھینکیں گی اور کب ان پر غزنوی ضرب لگائی جائے گی؟... غزنوی، جو تم بھی ہو اور ہم بھی ہیں۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]