تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     17-04-2016

کچھ اصل ہے ‘کچھ خواب ہے ‘کچھ حسن بیاں ہے

ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ اے دانشورانِ عصر! زندگی اپنی خوبیوں پر بسر کی جاتی ہے، دوسروں کی خامیوں پر نہیں۔
دانشوروں کے ہم قائل ہیں، دل و جان سے قائل۔ کیسے کیسے دقیق نکات وہ بیان کرتے ہیں۔ کیسا کیسا فلسفہ بگھارتے ہیں۔ انسانی ادراک کو خیرہ کر دینے والی توجیہات۔ پانامہ لیکس کا مقدمہ مگر عمران خان کا نہیں، پوری قوم کا ہے۔ بیس بائیس کروڑ عوام کا‘ جنہیں لوٹا اور ستایا گیا ہے۔ نسل در نسل جن پر بادشاہ اور جاگیردار مسلط رہے، پھر غیر ملکی حکمران۔ غیر ملکیوں نے کارندے تلاش کیے اور انہیں قوت بخشی۔ پیرانِ تسمہ پابن کر ہماری گردنوں پر وہ سوار ہیں۔ عمران خان کی غلطیاں اس کی غلطیاں ہیں۔ کپتان کی خامیاں اس کی اپنی خامیاں ہیں۔ دھرنا ہو یا کچھ اور‘ لازماً ان پر گرفت کی جائے اور اس لیے بھی کی جائے کہ وہ وزارتِ عظمیٰ کا طلب گار ہے۔ وہ اقتدار کا آرزو مند ہے۔ دوسروں کی طرح وہ بھی شعبدہ بازی کرتا اور وعدوں کے کھلونے بیچتا ہے۔ جی ہاں، اس میں تعصب اور جذبۂ انتقام کارفرما ہو سکتا ہے مگر پانامہ لیکس سے اس کا تعلق صرف اتنا ہے کہ جہاں پیپلز پارٹی اور دوسری بعض جماعتوں نے چکمہ دینے کی کوشش کی، زور و شور سے اس نے یہ معاملہ اٹھایا۔ تفتیش کا شدّ و مد سے مطالبہ کیا اور وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا۔ دنیا بھر میں کئی لوگ مستعفی ہو چکے؛ لہٰذا استعفے کے تقاضے پر تعجب نہ ہونا چاہئے۔ ہم جیسے لوگوں نے اگرچہ اس کی مخالفت کی اور واضح طورپر مخالفت کی کہ ملک کو استحکام درکار ہے۔
یہ بات البتہ سمجھ میں نہیں آتی کہ تحقیقات پر کیا اعتراض ہے۔ وہ بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی نگرانی میں، جن پر کبھی اعتراض نہیں کیا گیا۔ جنہیں کبھی فریق نہیں سمجھا گیا۔ جن کی 
دیانت پر کبھی شبہ نہ کیا گیا۔ جن کی احتیاط پسندی کا عالم یہ ہے کہ اس چیز میں دخل اندازی سے گریزاں تھے۔ مجھ ناچیز سمیت کچھ لوگوں نے جب ان سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تو ڈانٹ کر انہوں نے کہہ دیا: ہمارا اس سے کیا تعلق۔ تفتیش انتظامیہ کا کام ہے۔ ہم ایسوں کا احساس یہ ہے کہ از خود نوٹس کا اختیار ایسے ہی مواقع کی بنا پر رکھا گیا ہے۔ شاید اس کا پورا جواز تھا کہ پہل کاری سے وہ کام لیتے مگر انہوں نے انکار کیا تو کسی ایک بھی ذمہ دار آدمی نے گستاخی کا ارتکاب نہ کیا۔ 
غالباً اسی فضا سے فائدہ اٹھا کر وہ خبر شائع کرائی گئی کہ سپریم کورٹ نے تحقیقات سے انکار کر دیا۔ دانستہ نہیں شاید نادانستہ طور پر وقائع نگار نے غلطی کا ارتکاب کیا۔ شاید وہ استعمال ہوا اور یہ قابل فہم ہے۔ اس طرح کے ماحول میں جب پیچیدگیاں پائی جاتی ہوں۔ متاثرہ فریق غلط فہمیاں پیدا کرنے کے آرزو مند ہوں، اس طرح کے واقعات پر ہرگز کوئی تعجب نہ ہونا چاہئے۔ خبر نگار کی نیت پر شبہ کرنے کی بجائے، ایک فروگذاشت سمجھ کر اسے معاف کر دینا چاہئے۔ نواز شریف کے لیے وہ نرم گوشہ رکھتا ہے۔ برسوں پہلے بھی نون لیگ کی پنجاب حکومت اس کو برتنے میں کامیاب رہی تھی۔ انہوں نے اخبارات میں یہ سنسنی خیز خبر چھپوا دی تھی کہ بابر اعوان اور سلمان تاثیر نے پنجاب کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف کو قتل کرانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ جیل میں رکھے گئے مجرموں کے ذریعے۔ بعد میں انکشاف ہوا کہ یہ سپیشل برانچ کے ایک افسر کا کارنامہ تھا۔ اکتوبر 1999ء میں شریف حکومت کا تختہ الٹنے کے 
ہنگام اس سابق فوجی افسر کا شریف برادران سے رابطہ ہوا۔ جیسا کہ ان کا مزاج ہے، انہوں نے اسے گانٹھ لیا۔ بعد ازاں پنجاب حکومت کی خفیہ کاری سونپی۔ اپنی اہمیت جتانے کے آرزو مند افسر نے ایک افسانہ گھڑا۔ یہ پورا قصہ الم نشرح ہو گیا۔ ایک سنسنی خیز کتاب ان دنوں کی یادگار ہے، ''ایک قتل جو نہ ہو سکا‘‘۔ ایسی کہانی ہے کہ اس پر ایک فلم بنائی جا سکتی ہے۔ ایک شب جاگ کر یہ کتاب پڑھ ڈالی تھی۔ جی چاہتا ہے کہ ایک بار پھر پڑھی جائے۔ رضا شاہ پہلوی کے عہد کا ایک ایرانی شاعر یاد آیا ؎
پیکر تراشِ پیرم و باتیشۂ خیال
یک شب ترا زمرمرِ شعر آفریدہ ام
اے مرے محبوب! میں ایک بوڑھا بت تراش ہوں۔ ایک شب خیال کے تیشے سے، شعر کے سنگ مرمر سے تیرا پیکر میں نے تراش دیا تھا۔ بارہ برس ہوتے ہیں، نواب زادہ نصراللہ خان کو یہ شعر سنایا تو دیر تک وہ سر دھنتے رہے۔ اس طرح کی داستانوں پر وہ ایک شعر پڑھا کرتے ؎
سنتا ہوں بڑے غور سے افسانۂ ہستی
کچھ اصل ہے ‘کچھ خواب ہے ‘کچھ حسن بیاں ہے
سپریم کورٹ کی طرف سے تردید کر دی گئی ہے۔ مبالغہ آمیزی نہیں بلکہ اس فسانے کو جھوٹ قرار دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کذب تراشی ہے۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کہ عدالتِ عظمیٰ پانامہ لیکس کو خرافات سمجھتی ہے۔ منزلوں پر منزلیں سر کرتے ہوئے نادر شاہ دلی کو لپک رہا تھا۔ بادشاہ کو تنبیہ کا ایک خط اس نے لکھا۔ ڈرانے اور اس کی ہمت توڑنے کے لیے۔ کہا جاتا ہے کہ اس خط کو بادشاہ سلامت نے جام کی نذر کیا اور یہ کہا ع
ایں دفتر بے معنی غرق مے ناب اولیٰ
یہ پروانہ بے سروپا ہے۔ اس کو دخترِانگور کی نذر کر دیا جائے۔ پھر اس کے سر پہ شمشیر چمکی اور تین دن تک دلی میں قتل عام ہوتا رہا۔ نوشتۂ دیوار کو جو لوگ نظر انداز کرتے ہیں، ان کے ساتھ یہی ہوتا ہے ؎ 
بینر پہ لکھے حرفِ خوشامد پہ جو خوش ہے
دیوار پہ لکھی ہوئی تحریر بھی دیکھے
برسوں پہلے شعیب بن عزیز نے یہ شعر جب کہا تو چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے تخت پر براجمان تھے۔ 1122جن کی یادگار ہے، جنہوں نے 0.25فیصد شرح سود پر لاہور کی لوکل ریلوے کا منصوبہ بنایا تھا۔ عملدرآمد ہوتا تو 2012ء میں ایک بہترین نظام وجود میں آ چکا ہوتا۔ صرف 100ارب روپے کے اخراجات ہوتے۔ خادمِ پنجاب کے منصوبے سے آدھے۔ پنجاب کے تعلیمی اداروں، پینے کے صاف پانی اور قبرستانوں کے لیے مختص رقوم بھی ہڑپ نہ کرنا پڑتیں۔ افتادگان خاک کا خون بھی نچوڑا نہ جاتا۔ گیارہ گنا زیادہ شرح پر قرض نہ لیا جاتا۔ اقبالؔ نے یہ بات کسی اور تناظر میں کہی تھی، مگرصادق شہباز شریف پہ بھی آتی ہے۔ ؎
تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
شریف خاندان یہ سمجھتا ہے کہ وہ قوم کو اُلّوبنا سکتے ہیں۔ وہ ٹھیک سمجھتے ہیں کہ اب تک دھڑا دھڑ روپیہ بناتے رہے، قوم کو احمق بھی۔ مگر وہی ابراہام لنکن کا قول: کچھ لوگوں کو ہمیشہ کے لیے آپ بیوقوف بنا سکتے ہیں، سب لوگوں کو کچھ دن کے لیے۔ سب کو ہمیشہ کے لیے ہونّق نہیں بنایا جا سکتا۔ جرمن فلسفی ہیگل نے کہا تھا: ہر شخص‘ ہر ادارے اور ہر عمل کے تضادات خود اس کے اندر پوشیدہ ہوتے ہیں، بالآخر جو ظاہر ہو کر رہتے ہیں۔ Theisis and anti theisis اس کے فلسفے کا عنوان ہے۔ خلاصہ اس کا یہی ہے۔ قدرت کا نظام یہ ہے کہ ہر شخص بالآخر آشکار ہوتا ہے۔ سرکارؐ کے ایک فرمان کا مفہوم یہ ہے: کوئی شخص اس دنیا سے اٹھے گا نہیں جب تک اس کا ظاہر و باطن آشکار نہ ہو جائے۔ اللہ کی آخری کتاب یہ بتاتی ہے کہ مبارک اور نا مبارک، کھوٹا اور کھرا وقت کی کسوٹی پہ پرکھا جاتا اور الگ الگ کر دیا جاتا ہے۔ شریف خاندان اگر سچا ہے تو تحقیقات سے مفرور کیوں ہے؟ شہباز شریف اس ایک موضوع پر تفتیش کی بجائے دنیا بھر کے مسائل کو مجوزہ کمیشن میں سمیٹنے کے خواہش مند کیوں ہیں؟ اسحاق ڈار نے پانامہ کے وزیر سے کس سلسلے میں ملاقات کی؟ موسم پر تبادلۂ خیال کی خاطر؟
ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ اے دانشورانِ عصر! زندگی اپنی خوبیوں پر بسر کی جاتی ہے، دوسروں کی خامیوں پر نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved