تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     17-04-2016

مقدمہ خارج سمجھیں!

حسن نواز کہتے ہیں کہ الحمدللہ وہ اور ان کے بھائی حسین نواز اگر ٹاپ کے بزنس مین ہیں اور کروڑوں کما چکے ہیں تو یہ سب محض ان کی ان تھک محنت کا نتیجہ اور خون پسینے کی کمائی ہے۔ میاں صاحب کے یہ دونوں بیٹے کچھ کریڈٹ اپنے مرحوم دادا کی کاروباری ذہانت کو بھی دے سکتے تھے‘ جنہوں نے اربوں نہیں تو کروڑوں روپے میاں صاحب کو بطورِ تحفہ دیے اور پھر میاں صاحب کے صاحبزادگان کے پاس یہ دولت لینے سے انکار کی کوئی قانونی وجہ بھی نہیں تھی اور نہ پاکستانی حکام کے سامنے اس دولت کے اظہار کے وہ پابند تھے کیونکہ ماشاء اللہ وہ بیرون ملک مقیم ہیں۔ میاں صاحب کے خانوادے کے گرد احتساب کا گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ ان پر اثاثے پوشیدہ رکھنے، حقائق چھپانے، ٹیکسوں کی ادائیگی میں ناکامی اور ذاتی فنڈز کی غیر قانونی ذرائع سے منتقلی کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔ یہ الزامات بریکنگ نیوز ہرگز نہیں کیونکہ کئی عشروں سے میڈیا میاں صاحب کی دولت پہ سوالات اٹھاتا آرہا ہے، لیکن ان کے خلاف کوئی ٹھوس قانونی اقدام ابھی تک نہیں کیا جا سکا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے پانامہ دستاویزات کے بارے میں تحقیقات کے لئے ایک عدالتی کمشن کی تجویز دی ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کمشن کیا نیا کارنامہ سرانجام دے سکتا ہے جبکہ احتساب جج وزیر اعظم اور ان کے اہلِ خانہ کے خلاف کرپشن کے مقدمات پہلے ہی خارج کر چکے ہیں۔ یہ ایک زیرو سم گیم ہے جس میں جیت یا تو میاں صاحب کی ہو گی یا شور شرابہ کرنے والے ان کے ناقدین کی۔ افسوس کہ احتساب جج پہلے ہی وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کو بے گناہ قرار دے چکے ہیں۔ مئی 2013ء میں جب میاں صاحب نون لیگ کے سربراہ کی حیثیت میں تیسری بار وزارتِ عظمیٰ پر متمکن ہونے والے تھے تو اس وقت قومی احتساب بیورو یکدم ہی متحرک ہو گیا اور کرپشن ریفرنسوں کے حوالے سے میاں صاحب کو راولپنڈی کی احتساب عدالت میں حاضر کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ3 دسمبر 2012ء کو لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بنچ نے اتفاق فائونڈریز، رائیونڈ کے اثاثوں اور حدیبیہ پیپر ملز میں کرپشن کے ریفرنسوں کے خاتمے کے لئے شریف خاندان کی پٹیشن پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ یہ ریفرنسز احتساب عدالت میں 2000ء سے زیرِ التوا تھے۔ نیب نے جب احتساب عدالت میں ان ریفرنسوں پر سماعت کے لئے دوبارہ کارروائی شروع کی تو شریف خاندان نے ان کے خاتمے کے لئے پٹیشن دائر کر دی۔ 18 اکتوبر 2011ء کو لاہور ہائی کورٹ نے اس مقدمے میں فیصلے تک نیب کو شریف خاندان کے خلاف مزید کارروائی کرنے سے روک دیا تھا اور یہ حکم ستمبر 2014ء میں اس وقت تک مؤثر رہا‘ جب راولپنڈی کی ایک احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دس سال پرانے ان ریفرنسوں پر دوبارہ کارروائی کے لئے کی گئی درخواست مسترد کرتے ہوئے حدیبیہ پیپر مل اور رائیونڈ کے اثاثوں کی کرپشن کے دونوں مقدمات سے میاں صاحب کو بری کر دیا۔ ان ریفرنسوں میں میاں نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، ان کے مرحوم والد میاں محمد شریف، ان کی والدہ شمیم اختر، وزیر خزانہ اسحق ڈار، میاں صاحب کی اہلیہ کلثوم نواز، حمزہ شہباز، حسین نواز، میاں عباس شریف، صبیحہ عباس، مریم صفدر اور حدیبیہ پیپر ملز کے سیکرٹری سید اجمل سبطین کو نامزد کیا گیا تھا۔ چودہ برس قبل دائر کئے گئے منی لانڈرنگ کے ایک ریفرنس میں بھی میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف کو تمام الزامات سے بری قرار دے دیا گیا۔ جسٹس انوار احمد کی زیرِ سربراہی ایک احتساب عدالت نے میاں صاحب، ان کے بھائی اور تمام مذکورہ اہلِ خانہ کو ان تمام ریفرنسز میں لگائے گئے سارے الزامات سے بری قرار دے دیا۔ جسٹس احمد کا کہنا تھا کہ یہ مقدمات پچھلے چودہ برسوں سے عدالتوں میں زیرِ التوا تھے لیکن کوئی ایک گواہ بھی سامنے نہیں آیا۔ شریف خاندان پر لگے الزامات کو انہوں نے حقیقی بنیاد سے عاری‘ محض سیاسی محرکات کا نتیجہ قرار دیا۔ حدیبیہ پیپر ملز کے بارے میں نیب کی گیارہ صفحات کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شریف خاندان نے ناجائز طریقوں سے حاصل کی گئی رقوم دوسرے لوگوں کے نام پہ کھولے گئے بینک کھاتوں میں جمع کروا کے انہیں اپنی کمپنیوں کے قرضوں کی واپسی میں استعمال کیا ہے۔ نیب کے ایک تحقیقاتی افسر کی مرتب کردہ اس رپورٹ میں سابق وزیر خزانہ کے طور پر اسحق ڈار کا بیان بھی شامل کیا گیا ہے جو اس وقت شریف خاندان کے خلاف سلطانی گواہ بنے تھے۔ رائے ونڈ کے اثاثوں کے ریفرنس میں شریف خاندان پہ الزام یہ لگا تھا کہ ملزمان نے وسیع اراضی حاصل کر کے اس پر اس قدر بڑے بڑے مکانات اور محلات تعمیر کئے ہیں جو ان کی آمدن کے معلوم اور ظاہر کردہ ذرائع سے قطعی مطابقت نہیں رکھتے۔ 
میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری ہمیشہ بڑی سہولت سے احتساب کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔ کئی عشروں سے ان کے خلاف کرپشن کے بڑے بڑے مقدمات قائم ہوتے رہے لیکن یہ دونوں سبھی کو احمق بناتے ہوئے ہمیشہ ان مقدمات سے بری ہو جاتے ہیں۔ محض اپنی ذاتی دولت میں اضافے کے لئے یہ لوگ کرپشن کرتے ہیں۔ پانامہ دستاویزات کے سامنے آنے کے بعد میاں نواز شریف کی اولاد یعنی دونوں بیٹوں اور اکلوتی بیٹی کا نام عالمی سطح پر روسی صدر پیوٹن اور سعودی فرمانروا شاہ سلیمان کے ساتھ یکجا آ رہا ہے۔ میاں صاحب نے ٹی وی پہ آ کے نیکی اور معصومیت کا مرقع بن کر قوم کو یقین دلایا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی بیرون ملک دولت کی تحقیقات کے لئے ایک عدالتی کمشن قائم کر رہے ہیں۔ اس کمشن کے ارکان بھی میاں صاحب ہی کی مرضی کے ہوں گے اور اس کی تحقیقات کے لئے مدت کی بھی کوئی حد نہیں رکھی جائے گی یعنی یہ تحقیقات سالوں پہ محیط ہو سکتی ہے۔ یہ تو بالکل ایسی ہی بات ہوئی کہ جیسے ایک لومڑی کو مرغیوں کی نگرانی سونپ دی جائے۔ جب تک عدالتیں میاں صاحب کے اشاروں پہ 
چلیں گی، کرپشن کے عفریت کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکتا۔ میڈیا اور خاص طور پر ٹی وی اینکرز کو چاہئے کہ وہ توجہ اسی عفریت پہ مرکوز رکھیں کیونکہ جب وہ زرداریوں اور شریفوں کے یوں بچ نکلنے پہ توجہ دیتے ہیں تو پھر کچھ اور انہیں دکھائی نہیں دیتا۔ یعنی محض جزو پہ نظر رکھ کر وہ کُل کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ پانامہ دستاویزات کے انکشافات میں محو ہونے سے قبل ہمیں ان حقائق پہ نظر کرنا ہو گی‘ جو ایک مدت سے ہماری توجہ کے منتظر ہیں۔ میاں نواز شریف نے ایک بار پھر نیب کو اپنے خاندان کے خلاف نادہندگی کے مقدمات کھولنے سے متنبہ کیا ہے‘ اور نیب والے ایک بار پھر پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ نیب کے اتفاق فائونڈریز والے ریفرنس کے مطابق شریف خاندان عمداً بینکوں کے 3.8 ارب روپے کے قرضوں کا نادہندہ ہے۔ نیب کا دعویٰ ہے کہ دسمبر 2011ء تک شریف خاندان نے نیشنل بینک کو 2.31 بلین روپے، حبیب بینک کو 336 ملین روپے، یونائیٹڈ بینک کو 343 ملین روپے، مسلم کمرشل بینک کو 456 ملین روپے، فرسٹ بینک پنجاب مضاربہ کو 202 ملین روپے، بینک آف پنجاب کو 95 ملین روپے‘ ZTBL کو 60 ملین روپے، NIB (سابقہPICIC) کو 27 ملین روپے اور ICBP کو 8 ملین روپے واپس کرنا تھے۔ 
عمران خان مطالبہ کر رہے ہیں کہ بیرونی ممالک میں وزیر اعظم کے اہلِ خانہ کی ملکیتی کمپنیوں کے بارے میں تفصیلی تحقیقات ہونی چاہیے۔ وزیر اعظم نے جس عدالتی کمشن کا اعلان کیا ہے، اسے خان صاحب غیر مؤثر قرار دے رہے ہیں۔ خان صاحب نے حکمران خاندان کے اثاثوں کے فرنزک آڈٹ کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ یہ معاملہ اب گمبھیر تر ہوتا جا رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved