تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     17-04-2016

راجن پور کے کچے سے لے کر لاہور کے پکے تک

بالآخر وہی کرنا پڑا جس کا مشورہ دیا گیا تھا مگر پنجاب حکومت نے اپنے اندرونی خوف کے مارے اسے بروقت قبول نہ کیا اور اب اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے سرکاری خزانہ ہلکا کرنا پڑ رہا ہے۔ دہشت کی علامت غلام رسول عرف چھوٹو کا گروہ‘ جس کا نام اب ''چھوٹو گینگ‘‘ ہے‘ گزشتہ کئی سال سے نہ صرف کچے کے علاقے میں بلکہ اس سے ملحقہ اضلاع میں بھی خوف و دہشت کی علامت ہے۔ یہ اس مقام پر کوئی ایک آدھ سال یا مہینے میں نہیں پہنچا۔ اسے اس مقام تک پہنچنے میں کئی سال لگے اور اس عرصہ میں تمام حکومتیں حسب معمول دھنیا پی کر سوئی رہیں کہ اس کا براہ راست اثر لاہور پر نہیں پڑ رہا تھا اور اگر لاہور اس چیز سے متاثر نہ ہو رہا ہو تو راوی چین لکھتا ہے۔
یہ بات شہر میں رہنے والے عام آدمی کو سمجھانا بہت ہی مشکل ہے کہ راجن پور کے ساتھ دریائے سندھ کے کنارے یہ علاقہ جسے کچے کا علاقہ کہا جاتا ہے‘ کس قدر دشوار ہے اور یہاں چُھپنے کے لیے قدرتی طور پر کیسی کیسی پناہ گاہیں موجود ہیں۔ جھاڑیاں‘ جنگل اور کھائیاں‘ وہ بھی ایسی کہ بیس بیس فٹ گہری۔ قد آدم جھاڑیاں جن میں دو تین فٹ دور آدمی چھپا بیٹھا ہو تو نظر آنا ممکن نہیں۔ اوپر سے عرصہ دراز سے وہاں پناہ لیے ہوئے ڈاکوئوں، قاتلوں اور اغوا برائے تاوان کے مجرموں کے بنے ہوئے باقاعدہ پکے مورچے اور پناہ گاہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ یہاں موجود ان جرائم پیشہ افراد کے پاس ہلکی مشین گنیں‘ راکٹ لانچر‘ آٹومیٹک رائفلیں اور ایک اطلاع کے مطابق کم از کم چار اینٹی ایئر کرافٹ گنیں اور جدید مواصلاتی نظام ہے۔ یہ تو وہ چیزیں ہیں جن کے بارے میں معلوم ہے، علاوہ ازیں علاقے کے وڈیروں کی سرپرستی‘ پولیس میں موجود مخبر اور سیاستدانوں کی آشیرباد۔ یہ سارے عوامل مل کر جہاں چھوٹو کو بڑا بنانے میں شریک کار تھے‘ وہیں حکومت کی بے حسی اور لاپروائی بھی کسی سے کم نہیں تھی۔ درجنوں لوگ مارے گئے‘ سینکڑوں لوگ اغوا ہوئے اور تاوان دے کر واپس آئے۔ ہزاروں لوگ لوٹے گئے مگر کسی حکمران کو حالات کی سنگینی کا احساس نہ ہوا۔ کئی بار آپریشن کیا گیا مگر ہر بار ناکامی ہوئی اور اس ناکامی سے کسی نے سبق حاصل نہ کیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہر ناکام آپریشن کے بعد چھوٹو زیادہ بڑا ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ اتنا بڑا کہ ضلعے کا ڈی پی او وائرلیس پر اس سے منتیں کر رہا ہے۔ اسے بہادر جوان کے خطاب سے نواز رہا ہے۔ اسے مہمانداری کے واسطے دے کر اپنے یرغمالی اہلکاروں کی جان بخشی کی اپیل کر رہا ہے اور اسے یقین دلا رہا ہے کہ وہ کچھ مہربانی کر ے تو اس کے بارے میں بھی رعایت دینے کا سوچا جائے گا۔ وائرلیس پر جہاں ایک طرف ضلعی پولیس کا سربراہ گڑگڑا رہا ہے تو دوسری طرف چھوٹو اسے تحکمانہ انداز میں حکم جاری کر رہا ہے۔ میرے پاس اس گفتگو کی پانچ منٹ پچیس سکینڈ پر مشتمل پوری ریکارڈنگ موجود ہے، جس میں چھوٹو پولیس کو چوکیاں ختم کرنے کا حکم جاری کر رہا ہے۔ ڈی پی او زخمیوں اور شہید ہونے والے اہلکاروں کی لاشیں مانگ رہا ہے اور جواب میں چھوٹو اسے باقاعدہ ڈانٹ پلا رہا ہے۔ یہ ایک شرمناک مکالمہ ہے جس میں ریاست کی رٹ کا بساند مارتا ہوا مردہ صاف پڑا نظر آ رہا ہے۔
میں ایک دوست کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک فون آیا اور میرے اس دوست کو ایک باخبر ذریعے نے بتایا کہ راجن پور کے کچے کے علاقے میں رینجرز کے ذریعے آپریشن کا فیصلہ ہوا ہے اور اس سلسلے میں ایک آدھ دن کے اندر صورتحال واضح ہو جائے گی۔ فون بند کرنے کے بعد میرے اس دوست نے یہ بات تفصیل سے بتائی اور مجھ سے میری رائے پوچھی۔ میں نے کہا: پہلی بات تو یہ ہے کہ اس آپریشن کو صرف رینجرز بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتی کہ اس علاقے میں ڈاکوئوں‘ قاتلوں اور جرائم پیشہ افراد کے اس بڑے گروہ کے پاس جس قسم کا جدید اسلحہ ہے اور اسے اس علاقے کی جغرافیائی صورتحال کی جو قدرتی ڈھال میسر ہے، اس کی موجودگی میں صرف رینجرز یہ کام نہ کر پائے گی۔ اس کام کے لیے گن شپ ہیلی کاپٹر‘ بکتربند گاڑیاں اور بھاری اسلحہ درکار ہے جو صرف فوج کے پاس ہے۔ لیکن ان سب باتوں سے پہلے میرا یہ خیال ہے کہ پنجاب حکومت اس پر راضی نہیں ہو گی کہ اس میں ان کی بڑی سبکی ہے اور دوسری بات یہ کہ پنجاب حکومت بالکل نہیں چاہے گی کہ رینجرز یہاں کسی آپریشن کی ابتدا کرے کہ اس ابتدا کے بعد اسے پنجاب میں روکنا اور محدود کرنا مشکل ہو جائے گا۔ میاں صاحب اور ان کی ٹیم رینجرز کے کراچی میں عمل دخل اور کردار سے خوفزدہ ہے۔ رینجرز اگر پنجاب میں ایک بار آ گئی تو آسانی سے جائے گی نہیں۔ بھلا رانا مشہود وغیرہ کو یہ کیسے قبول ہو گا کہ رینجرز آئے اور ان کے پاجامے گیلے کروائے؟ اور وہی ہوا۔ خادم اعلیٰ اور اس سے بڑھ کر آئی جی پولیس مشتاق سکھیرا نے یہ آپریشن خود شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور ضرب عضب سے متاثر ہو کر اس کا نام آپریشن ضرب آہن رکھ کر بغیر کسی تیاری اور منصوبہ بندی کے یہ آپریشن شروع کر دیا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ سات پولیس والے جوان شہید ہوئے۔ پچیس کے لگ بھگ یرغمالی ہیں اور اب یہ آپریشن فوج کر رہی ہے۔
یہ نااہلی اور نالائقی کی ایک مثال ہے جس کی ''مثال‘‘ ملنا ممکن نہیں۔ بغیر تیاری کے جوانوں کو قتل گاہ میں دھکیل دیا گیا۔ نہ مناسب اسلحہ تھا نہ پوری تیاری تھی‘ نہ پورا ساز و سامان تھا اور نہ ہی مکمل انٹیلی جنس رپورٹیں۔ نہ پوری منصوبہ بندی اور نہ ہی مقامی جغرافیائی حالات سے مکمل آگاہی۔ حتیٰ کہ جوانوں کی کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ ان کے لیے کھانا پورا نہیں تھا۔ آئی جی صاحب کو جب جوانوں نے کہا کہ ساز و سامان پورا نہیں اور اسلحہ بھی پرانا ہے تو آئی جی صاحب نے ان کو بزدلی کا طعنہ دیا اور کہا کہ وہ خود آگے جانے کے لیے تیار ہیں۔ اس جذباتی بات سے جوان تو موت کے منہ میں کود گئے اور آئی جی صاحب واپس لوٹ گئے۔ اب انتظامیہ نے شہید ہونے والوں کو پچاس پچاس لاکھ‘ ان کو گھر کے لیے پچیس پچیس لاکھ اور پوری تنخواہ کے ساتھ خاندان میں ایک نوکری دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ پنجاب حکومت کا طرہ امتیاز ہے کہ جرائم پر قابو نہیں پایا جا رہا؛ البتہ بعد میں مظلوم کے گھر جا کر وزیر اعلیٰ پانچ لاکھ کا چیک عطا فرما دیتے ہیں۔ اب پولیس کے شہدا کے ساتھ بھی یہ معاملہ ہوا ہے۔ یہ ساری امداد اور پیکج اپنی جگہ مگر کیا ان مظلوموں کا خون اسی طرح رزق خاک ہو جائے گا جس طرح اس ملک میں قانون نافذ کرنے والے پہلے مظلوموں کا ہوا ہے؟
پاکستان میں جان دینے والے پولیس کے افسروں اور جوانوں کی تعداد دنیا بھر میں بے شک سب سے زیادہ نہ ہو مگر دنیا بھر میں مر کر لاوارث قرار پانے میں یہ تعداد سب سے زیادہ ہو گی کہ ملک عزیز میں سب سے لاوارث مرنے والا یہی قانون نافذ کرنے والا ادارہ ہے۔ کراچی میں آپریشن کرنے والے سارے افسران سوائے ایک آدھ کے دن دیہاڑے مار دیئے گئے۔ کسی نے ان کے قاتلوں سے بدلہ نہیں لیا۔ لیاری آپریشن میں درجنوں افسر اور اہلکار جان سے گئے، کسی نے ان کے خون کا حساب نہیں مانگا۔ یہ ایسا ملک ہے جس میں سب سے لاوارث سرکاری ملازم ہوتا ہے۔ نیب کا تفتیشی افسر مارا گیا کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ ایان علی کے کیس میں کسٹم افسر قتل ہو گیا کسی کو فکر نہیں۔ اب سات آٹھ پولیس اہلکار اپنے افسروں کی ناقص حکمت عملی اور نالائقی کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں، ان کے لیے سرکاری خزانے سے امدادی پیکج کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ کیا اس سے جانے والے آ جائیں گے؟ کیا اس سے آئندہ کے لیے ایسے واقعات کا سدباب ہو جائے گا؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پر باقاعدہ جوڈیشل کمشن بنایا جائے۔ انکوائری کی جائے اور ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔
ایمل کانسی نے ایف بی آئی کے دفتر کے سامنے اس کے دو اہلکاروں کو گولی مار دی۔ امریکی حکومت نے اسے عزت کا مسئلہ بنا لیا اور سالوں کی بھاگ دوڑ اور کروڑوں کے خرچے کے بعد اپنے سرکاری اہلکاروں کو قتل کرنے والے ایمل کانسی کو گرفتار کیا۔ یہ ایک مثال تھی۔ امریکہ میں چند محکمے ہی سرکار کی لسٹ پر باقی بچے ہیں۔ اگر آپ پوسٹ مین کو تھپڑ مار دیں تو ساری ریاست اس کے پیچھے کھڑی ہو جاتی ہے۔ کسی سینئر کو جرأت نہیں کہ وہ مدعی کو بٹھا دے اور ملزم کی سفارش کرے، بات نہ ماننے والے افسر کے خلاف تحریک استحقاق پیش کرے۔
یورپ‘ برطانیہ اور امریکہ وغیرہ میں ممکن ہی نہیں کہ کسی پولیس والے کو قتل کر کے قاتل دنیا کے کسی کونے میں چین پا سکے۔ پوری ریاست پیچھے کھڑی ہو جاتی ہے اور اپنے پورے وسائل اس میں جھونک دیتی ہے۔ ادھر ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ یہاں سب سے ارزاں خون پولیس کا ہے۔
پولیس کی کمیاں کوتاہیاں اپنی جگہ‘ اس کا بھی بندوبست ہونا چاہیے اور یہ حکومت کا کام ہے لیکن جہاں افسر سیاستدانوں کی سفارش پر تعینات ہوں اور علاقے کے ارکان اسمبلی ٹرانسفر پوسٹنگ کرواتے ہوں، وہاں نظام کون ٹھیک کرے گا؟ جہاں آدھی پولیس فورس حکمرانوں کی ڈیوٹی دے رہی ہو وہاں نظام کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے؟ جہاں ڈاکوئوں اور قاتلوں کو علاقے کے سیاستدانوں کی پشت پناہی حاصل ہو، وہاں جرائم پر کون قابو پا سکتا ہے؟ جہاں پنجاب اسمبلی کا ڈپٹی سپیکر چھوٹو کے ساتھ اپنی گفتگو کی ریکارڈنگ کے بارے یہ کہے کہ ساری جعلی ہے مگر مخلوق خدا اس کے الٹ کہہ رہی ہو، وہاں آپریشن کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں؟
اب اتنے نقصان کے بعد بالآخر فوج کو ہی بلانا پڑا ہے کہ وہ چھوٹو گینگ کا قلع قمع کرے، لیکن جو ہمارے اوپر چھوٹو گینگ مسلط ہیں ان کا کیا بنے گا؟ جب تک حکمرانوں کی صورت میں چھوٹو گینگ موجود ہیں کچے میں چھوٹو گینگ پیدا ہوتے رہیں گے۔ جب لاہور کے پکے میں کچا نظام چل رہا ہو تو راجن پور کے کچے میں پکا نظام قائم ہو جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved