یاد آیا‘ اس روز لاہور میں ریمنڈ ڈیوس کیس کا فیصلہ آنا تھا کہ شہبازشریف کی اچانک لندن روانگی کی خبر ''بریکنگ نیوز‘‘ بن گئی۔ قارئین کو یاد ہو گا‘ امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس نے لاہور کے قرطبہ چوک پر بھرے بازار میں دن دہاڑے لاہور کے دو نوجوانوں کو فائرنگ کر کے مار ڈالا تھا۔ پنجاب حکومت نے اس کے خلاف دوہرے قتل اور ناجائز اسلحہ کا پرچہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔ اسے اسی روز گرفتار کر لیا گیا اور تفتیش کے بعد اب معاملہ عدالت میں تھا۔ اس دوران صدر اوباما ‘اس دور میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور سینٹر جان کیری سے لے کر اسلام آباد میں امریکی سفیر کیمرون منٹر دبائو کا ہر حربہ آزما چکے تھے۔ ملزم کو سفارت کار قرار دے کر ویانا کنونشن کے تحت اس کے لیے سفارتی استثنیٰ کا تقاضا کیا جا رہا تھا جس پر وزیراعلیٰ شہبازشریف کا کہنا تھا‘ ناجائز اسلحہ کے ساتھ سڑکوں پر گھومنا اور بیگناہوں کو قتل کرنا کونسی سفارت کاری ہے؟ ادھر نوازشریف کا ایک ہی جواب ہوتا‘ معاملہ عدالت میں ہے‘ اس کے مقدر کا فیصلہ بھی وہی کرے گی۔ 48 روز بعد ملزم کی رہائی عمل میں آ گئی‘ وہ سیدھا ائرپورٹ پہنچا اور امریکہ کا خصوصی طیارہ اسے لے کر پرواز کر گیا۔ دوہرے قتل میں اس کی رہائی کے لیے اسلام کے قانونِ دیت کا سہارا لیا گیا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ اور گارجین کے بقول یہ اچھوتا خیال حسین حقانی کا تھا‘ جبکہ پاکستانی میڈیا میں یہ تجویز مردِ دانا چودھری شجاعت حسین کی طرف سے آئی تھی۔ انہوں نے مقتول فیضان کی بیوہ کو اپنی بیٹی بنا کر اس کے لیے ایک لاکھ روپے بھی بھجوائے تھے (دوسرے مقتول فہیم کی بیوہ شمائلہ نے فیصلہ آنے سے پہلے ہی انصاف سے مایوس ہو کر خودکشی کر لی تھی)
وزیراعلیٰ شہبازشریف کی اچانک لندن روانگی کے قلابے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سے ملائے جا رہے تھے‘ مسلم لیگ نون کی قیادت اور اس کی صوبائی حکومت ریمنڈ ڈیوس کیس کے فیصلے اور اسی شام لاہور سے اس کی پرواز سے دامن بچانا چاہتی تھی؟ لیکن حقیقت مختلف تھی۔ لندن میں میاں نوازشریف اچانک خطرناک صورتحال سے دوچار ہو گئے تھے‘ یوں کہہ لیجیے کہ جان کے لالے پڑ گئے تھے ۔یہ ان کے لیے واقعتاً نئی زندگی تھی۔ وہ بیگم صاحبہ کی کمر کے علاج کے لیے لندن گئے تھے۔ سوچا کیوں نہ اپنے دل کے معاملات کی خیر خبر بھی لے لیں۔ یہ معمولی پروسیجر تھا جو غیر معمولی صورتحال کا باعث بن گیا۔ معائنے کے دوران دل کی ایک شریان پھٹ گئی تھی۔ معاملہ دل کے بائی پاس (اوپن ہارٹ سرجری) کا ہو تو اس میں تمام ضروری اقدامات اور خدشات کے لیے پوری تیاری ہوتی ہے لیکن یہاں یہ صورتحال اچانک پیدا ہو گئی تھی۔ خیر خدا نے کرم کیا اور میاں صاحب زندگی کی طرف لوٹ آئے۔ ڈاکٹروں کی ایڈوائس کے مطابق انہیں مزید کچھ عرصہ لندن میں رہنا تھا کہ 2 مئی کو ایبٹ آباد میں امریکیوں کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کے قتل کا واقعہ ہو گیا۔ امریکی ہیلی کاپٹر پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایبٹ آباد پہنچے اور اسامہ کو قتل کر کے لاش بھی ساتھ لے گئے۔ پاکستان کی ساورنٹی کی اس عریاں پامالی نے قوم میں اضطراب اور ہیجان کی لہر دوڑا دی تھی۔ (اگرچہ وزیراعظم گیلانی نے امریکیوں کو مبارکباد دیتے ہوئے اسے ایک عظیم کارنامہ قرار دیا تھا) نوازشریف اپنے برطانوی معالجین کی ایڈوائس کو نظرانداز کرتے ہوئے پاکستان پہنچے اور یہاں اپنے سیاسی رفقا اور پارلیمانی پارٹی سے مشاورت کے بعد وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں چاروں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل جوڈیشل کمشن کے قیام کا مطالبہ کر رہے تھے جس کے لیے انہوں نے تین دن اور تحقیقات کی تکمیل کے لیے اکیس دن کی مدت مقرر کی تھی (حسبِ ضرورت اس میں اضافہ بھی ہو سکتا تھا) اسے حمود الرحمن کمشن رپورٹ سمیت دیگر کئی رپورٹس کی طرح کسی الماری کی نذر ہونے سے بچانے کے لیے ان کا مطالبہ تھا کہ اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے (البتہ ملکی سلامتی اور قومی مفاد کے حوالے سے حساس حصے بند کمرے کے اجلاس میں پیش کئے جا سکتے تھے)
لندن سے واپس آ کر میاں صاحب سیاسی جھمیلوں میں یوں الجھے کہ دل کے نازک معاملات کی طرف دھیان ہی نہ رہا۔ وہ متعدد بار لندن گئے لیکن معائنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ پانامہ لیکس کے چند روز بعد معاملہ کچھ بگڑا تو لاہور کے ڈاکٹروں کی رائے تھی کہ وہ لندن جا کر ان ہی ڈاکٹروں سے رابطہ کریں جنہوں نے پانچ سال قبل دل کے نازک معاملات کو سنبھالا تھا۔
احمد فراز کے بقول : خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
اِدھر ان کی لندن روانگی کے پروگرام کی خبر آئی‘ اُدھر دور دراز کی کوڑیاں لانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس دوران انہوں نے تھر کا دورہ ملتوی کر دیا تھا۔ انہوں نے سوموار کو اسلام آباد روانگی ملتوی کر کے بدھ کو لاہور ہی سے لندن جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ استنبول کی مسلم سربراہ کانفرنس میں بھی ان کی جگہ صدر ممنون حسین جا رہے تھے ۔اور اس دوران وہ منظر سے بھی غائب تھے۔ تبصروں‘ تجزیوں‘ افواہوں اور قیاس آرائیوں کے لیے ماحول سازگار تھا۔ کہا گیا‘ وزارتِ عظمیٰ سے نوازشریف کی فراغت کا فیصلہ ہو چکا۔ پانچ اپریل کی نشری تقریر آخری موقع تھا جو انہیں دیا گیا کہ وہ پانامہ لیکس کے حوالے سے اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی صفائی پیش کر لیں۔ میاں صاحب کے متوقع جانشینوں کے نام بھی دیئے جا رہے تھے۔ ان میں اسحاق ڈار اور شہبازشریف سرفہرست تھے‘ اس کے لیے انہیں قومی اسمبلی کے کسی حلقے سے منتخب کرایا جائے گا۔ مشرف دور میں ظفر اللہ جمالی کی رخصتی اور شوکت عزیز کے انتخاب تک بڑے چودھری صاحب ''حلالہ وزیراعظم‘‘ بنے تھے۔ اب اس کے لیے حمزہ کا نام لیا جا رہا تھا۔ یہ کارِخیر چودھری نثار علی خاں بھی انجام دے سکتے تھے۔ ایک اور صاحب‘ میاں صاحب کے جانشین کے طور پر کلثوم نواز صاحبہ کا نام بھی لے رہے تھے۔ 2018ء تک آئینی مدت کی بجائے بعض دانشور قبل از وقت انتخابات کی خبر بھی لائے‘ لیکن ہمارے دوست ایک عسکری دانشور اسے مسترد کر رہے تھے کہ قبل ازوقت انتخابات
میں تو پھر نون لیگ آ جائے گی) وہ ٹیکنوکریٹ کی تین سالہ عبوری حکومت کی ''خبر‘‘ دے رہے تھے جو الیکشن سے پہلے چاروں طرف پھیلا ہوا ''گند‘‘ صاف کرے گی۔ تین سالہ عبوری حکومت کے لیے آئینی گنجائش کے سوال پر ان کا جواب تھا‘ کہ اس کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس کا راستہ اختیار کیا جائے گا۔
سچ بات یہ ہے کہ میاں صاحب کی رخصتی کا وہ شور تھا کہ خود ہمیں بھی کچھ کچھ یقین سا ہونے لگا۔ کیا آہنی اعصاب کی شہرت رکھنے (اور ماضی میں متعدد بار اس کا عملی مظاہرہ بھی کرنے) والے نوازشریف نے واقعی ہتھیار ڈال دیئے ہیں؟ اُدھر آرمی چیف گوادر کے سیمینار میں چائنا پاک اکنامک کاریڈور کے خلاف انڈین را کی سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں کسی کو کہیںبھی انتشار برپا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی آرڈر آف دی ڈے...فرماِن امروز...''محاذ آرائی ختم کر کے تعاون کی راہ اختیار کی جائے‘‘۔ اسی شب ایک اینکر پرسن نے اعتزاز احسن سے آرمی چیف کے اس بیان پر تبصرہ چاہا‘ آپ کے خیال میں یہ میسج کس کے لیے تھا؟ بڑبولے چودھری کا جواب تھا‘ حکومت پر تنقید اور اس کی مخالفت میرا آئینی اور جمہوری حق ہے‘ وہ مجھے روکنے والے کون ہوتے ہیں؟ ادھر چیف جسٹس جمالی کا کہنا تھا یہ جیسا بھی لولا لنگڑا جمہوری نظام ہے‘ اسے چلنے دیا جائے (کہ اسی سے اس میں توانائی آئے گی)
جمعہ کی شام کونسل آف نیشنل افیئرز کی ہفتہ وار میٹنگ میں ایک رائے یہ بھی تھی کہ حکومت پانامہ لیکس کے دبائو سے نکل رہی ہے‘ اعتماد بحال ہو رہا ہے اور وہ کسی بڑے خطرے سے دوچار نہیں لیکن یہاں دوسری رائے بھی تھی کہ خطرہ ٹلا نہیں...؟