وزیر اعظم پاکستان نواز شریف علیل ہیں اور علاج کے لیے لندن کے ایک بڑے ہسپتال میں داخل ہیں۔ عبدالستار ایدھی شدید علیل ہیں اور کراچی کے ایک ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں زیر علاج ہیں۔ یہ دو خبریں دو متضاد تصویریں ہیں اور پاکستان کے دو متضاد رُخ۔ ایک خبر پڑھ کر اپنے پاکستانی ہونے پر افسوس ہوتا ہے کہ ہم پرکیسے حکمران مسلط رہے اور ہیں‘ جن کو زکام بھی ہو جائے تو چیک اپ کے لیے لندن اور امریکہ جاتے ہیں‘ کیونکہ سہولیات سے عاری سرکاری ہسپتال تو عوام کے ذلیل و خوار ہونے کے لیے ہیں۔ دوسری خبر پڑھیں تو بے اختیار منہ سے نکلتا ہے کہ ایسی چنگاری بھی یار رب اپنے خاکستر میں تھی۔ عبدالستار ایدھی جیسے عظیم سماجی رہنما کا پاکستانی ہونا ہم سب پاکستانیوں کے لیے باعث فخر ہے۔
پاکستان کے حکمرانوں کاوتیرہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کسی سیاسی پریشر میں صورت حال ان کے لیے ناخوشگوار ہو جائے تو فوراً بیمار پڑ جاتے ہیں اور بیماری بھی ایسی کہ جس کا علاج پاکستان میں نہیںہو سکتا۔ سرکاری خرچ پر لندن اور امریکہ کے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور پھر کسی چینل کے ذریعے ایک ایکسکلوسیو تصویر جاری کرتے ہیں جس میں موصوف ہسپتال کے بیڈ پر صاحب فراش ہیں۔ یہ تصویر اس لیے جاری ہوتی ہے کہ پیچھے رہ جانے والے غریب عوام کو یقین آ جائے کہ ان کے حکمران، جو دل میں پاکستانیوں کا درد رکھتے ہیں ‘واقعی بیمار ہیں اور کسی ناخوشگوار سیاسی صورت حال سے فرار ہو کربیرون ملک نہیں سدھارے۔ ادھر وزیر اعظم لندن گئے تو اگلے روز وزیر داخلہ نثار علی خان نے بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے غریب عوام کو اعتماد میں لیا اور بتایا کہ ان کی اہلیہ کا علاج جرمنی سے ہونا ہے ‘سو وہ بھی اگلے روز جرمنی سدھارے۔
چند روز پہلے فیس بک پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں مشرف‘ نواز شریف ‘شہباز شریف کی تصویروں کے ساتھ ان کا عرصہ حکمرانی بھی درج تھا اور ساتھ ہی ایک سوال تھا کہ پاکستان پر برسوں حکومت کرنے کے باوجود یہ حکمران یہاں ایک بھی ایسا ہسپتال نہیں بنا سکے جہاں ان کا بھی علاج ہو سکے۔ غریب عوام کے ساتھ ‘ جذباتی وعدے کرنے اور جینے مرنے کی قسمیں کھانے والے خادم اعلیٰ پنجاب بھی اپنا علاج اور روٹین کا چیک اپ بیرون ملک سے کراتے ہیں۔ مریم نواز شریف کے گھٹنے کا آپریشن ہو یا آصفہ زرداری کا علاج‘ سب پاکستان سے باہرہوتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں بہترین ڈاکٹر موجود ہیں اور اچھے ہسپتال بھی ہیں مگر نوّے فیصد سرکاری علاج گاہیں سہولیات سے عاری ہیں۔ کرپشن اور اقربا پروری نے ادارے تباہ کر دیے ہیں، صحت کا حال بھی پتلا ہے۔ اس کا اندازہ ایک تازہ ترین خبر سے لگائیں ۔معاصر انگریزی اخبار کے میٹرو پولیٹن صفحے پر خبر ہے کہ سروسز ہسپتال لاہور میں جعلی نیورو سرجن کئی ہفتے کام کرتی رہی۔ معاملے کی انکوائری پر یہ بھی انکشاف ہوا کہ وہ خاتون جعلی ڈاکٹر ہے جو ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن کے ایک اہم عہدیدار کی منگیتر ہے جسے وائے ڈی اے کے پلیٹ فارم کی طرف سے سیاسی دبائو ڈال کر سروسز ہسپتال میں ڈاکٹر بھرتی کیا گیا۔ وہ بھی نیورو سرجن ۔ یہ انتہائی افسوسناک صورت حال ہے یعنی ہسپتالوں میں سہولیات نہ ہونا تو ایک ایشو ہے‘ عوام بیچارے جعلی ڈگریاں رکھنے والے
بندے مار عطائی ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ خبر رپورٹ کرنے والے رپورٹر نے لکھا ہے کہ اس انتہا ئی درجے کی کرپشن پر وزیر اعلیٰ کے مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق خاموش اور اپنا موقف دینے سے گریزاں ہیں۔ ایسی صورتحال پر صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ لوگوں کی قیمتی جانوں سے کھیلنے کے لیے بندے مار جعلی ڈاکٹر یہاں اس لیے آسانی سے بھرتی ہو جاتے ہیں کہ اشرافیہ اور حکمران طبقہ ان ہسپتالوں میں علاج کے لیے جاتا ہی نہیں‘ وہ ترقی یافتہ ملکوں کی اعلیٰ‘ محفوظ اور سہولیات سے مزین علاج گاہوں میں اپنا علاج کرواتے ہیں ۔رہے غریب عوام، تو مہنگائی اور غربت کے ہاتھوں نہیں مریں گے تو ہسپتالوں میں آدم خور عطائیوں کے ہتھے چڑھ جائیں گے۔ خوار ہوکے مرنا ان کا مقدر ہے۔کرپشن اور بددیانتی کے ہاتھوں پاکستان کے ادارے تباہ ہو گئے ۔ جو پیسہ ٹیکس کی صورت میں سرکاری ہسپتالوں اور سرکاری سکولوں کی بحالی اور بہتری کے لیے صرف ہونا تھا وہ بیرون ملک آف شور کمپنیوں میں پڑا ہے اور ابھی تو صرف ایک کمپنی کی دستاویزات سامنے آئی ہیں‘ دنیا بھر میں ہزاروں کمپنیاں ایسی دولت کو ٹیکس سے بچانے کے لیے موجود ہیں۔ پاکستان میں کرپشن‘بددیانتی اور مفادات کے گٹھ جوڑ کے اتنے چور دروازے ہیں کہ اگر کمیشن بن بھی جائے تو اس کے اندر سے کچھ نہیں نکلے گا کہ ''یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں‘‘۔ اس کی تازہ ترین مثال مشرف غداری کیس ہے۔
ایک طرف پیرا سائٹ یعنی طفیلیے حکمرانوں کا ایک گینگ ہے جو پاکستان کی چرا گاہ سے چرتا ہے اور اپنا منافع‘اپنا مفاد باہر کے بینکوں میں رکھواتا ہے۔ دوسری جانب عبدالستار ایدھی ‘ جو اسی ملک کے لوگوں کے ساتھ جیتے اور مرتے ہیں۔جو اپنی صحت‘ زندگی‘ وقت‘ محبتیں سب کچھ اسی دھرتی پرنچھاوردیتے ہیں۔ دو متضاد تصویریں اور دونوں ہی پاکستان کی۔ گزشتہ برس جب ایدھی صاحب کے دونوں گردے فیل ہو گئے اور انہیں ڈاکٹروں نے ڈائیلاسز تجویز کیا تو ایدھی صاحب کو سرکار نے بیرون ملک علاج کی آفر کی جس کو اس عظیم پاکستانی نے قبول نہیں کیا۔ جو شخص پاکستانیوں کے دکھوں سے پیار کرتا ہو‘ حادثات کی ناگہانی گھڑیوں میں ان کے آنسو صاف کرتا ہو‘ جو لاوارث لاشوں کو اپنا سمجھ کر کفناتا دفناتا ہو‘ جو لاکھوں بے گھر‘ خانماں مسکینوں غریبوں کا ایسا باپ ہو جو انہیں چھت فراہم کرتا اور پیٹ بھرنے کو روٹی دیتا ہے۔ وہ کیسے اپنے پاکستانیوں کو چھوڑ کر بیرون ملک علاج کے لیے جا سکتا ہے کہ اس کی زندگی اس کے اپنے لوگوں کے ساتھ بندھی ہے۔ ایدھی صاحب ہمارا بے مثل اثاثہ اور قیمتی سرمایہ ہیں۔ اللہ انہیں سلامت رکھے۔ پوری قوم ان کے لیے دعا گو ہے۔ وہ کراچی کے ایک ہسپتال میں انتہائی نگہداشت وارڈ میں داخل ہیں۔ دوسری جانب وزیر اعظم پاکستان قوم کا درد لیے لندن کے ایک اعلیٰ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ دو متضاد تصویریں دو مختلف رُخ!