کچھ عرصہ پہلے تک ہم پاکستان کے قبائلی علاقوں، افغانستان، یمن اور صومالیہ میں انتہا پسندوں کے خلاف ڈرون حملوں کے بارے میں سنتے چلے آئے ہیں۔ انتہا پسندوں کے خلاف بغیر پائلٹ کے اڑنے والے ان طیاروں کے استعمال پر پاکستان کے ٹی وی سٹوڈیوز میں کافی گرما گرمی دکھائی دی۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے انسانی حقوق کے نمائندے بھی چیخ وپکار کرتے رہے؛ تاہم کسی نے بھی ان کا متبادل تجویز نہ کیا۔ پھر اچانک ہر طرف ڈرون ہی ڈرون دکھائی دینے لگے۔ بچوں کے کھلونوں سے لے کر محکمہ پولیس اور میڈیا چینل تک، ہر کوئی اُنہیں استعمال کرنے لگا۔ خوش قسمتی سے یہ بغیر پائلٹ کے اُڑنے والی مشینیں مسلح نہیں، ان میں صرف کیمرے ہیں، لیکن ان کی فضا میں بہتات کسی قدر بے چینی کا سماں پیدا کرتی ہے۔ میڈیا کے نمائندے اور شوقیہ فوٹوگرافر ان فاصلاتی کیمروں کی مدد سے اہم شخصیات کے قریب رسائی حاصل کرنے کی زحمت اٹھائے بغیر اُن کی فلم بندی کرلیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ ممالک میں پولیس بھی اس ''سماوی آنکھ‘‘ کی مدد سے جرائم پیشہ افراد کا کھوج لگاتی اور تعاقب کرتی ہے۔
ڈرون ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی اور اس کے مختلف مقاصد کے لیے استعمال میں اضافے کے باوجود ان کے استعمال کے اخلاقی پہلو پر بہت کم بات کی گئی؛ تاہم ایک فلم ''Eye in the Sky‘‘ جو میں نے حال ہی میں دیکھی، اس موضو ع پر سنجیدہ بحث کرنے کی کوشش ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ معلوم دہشت گردوں کے خلاف ڈرون حملوں کا اجتماعی نقصان بھی خارج ازامکان نہیں۔ مختلف جہتوںکے اعتبار سے اس فلم کو ایک زبردست تھرلر مووی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کے ڈائرکٹر گیوین ہڈ اور نمایاں سٹار ہیلن میرن ہیں جو فلم میں کتھرائن پائول کا کردار ادا کرتی ہیں۔ کتھرائن پائول برطانوی فوج میں ایک کرنل ہیں اور کئی برسوںسے دہشت گردوں کا تعاقب کر رہی ہیں۔ وہ دہشت گرد آخر کار نیروبی کے مضافاتی علاقے میں ایک محفوظ گھر میں جمع ہوجاتے ہیں، لیکن ایک ڈرون اُن کا کھوج لگالیتا ہے۔ اس ڈرون کو برطانوی افسران نوادا (Nevada) سے کنٹرول کر رہے ہیں۔
دہشت گردوں کو سماوی آنکھ تاڑ لیتی ہے لیکن جنگی قوانین کے تحت بہت سی احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔ ان میں سب سے اہم احتیاط سویلینز کے ضمنی نقصان کو کم سے کم کرنا ہے۔ ایک فوجی ماہرسافٹ ویئر پروگرام کو آپریٹ کرتا ہے جو سی ڈی ای (کولیٹرل ڈیمج اسٹیمیٹ) کو بنیاد بنا کر اُس میزائل کے ہدف کا تعین کرتا ہے جو ڈرون فائر کرے گا۔ اس سے ہونے والے بلاسٹ کا مقام طے شدہ ہے۔ اُس محفوظ گھر میں موجودہ مشتبہ دہشت گردوں کی تصاویر حاصل کرنے کے لیے بھنوروں اور ہمنگ برڈ کی صورت میں روبوٹ کیمرے وہاں پہنچا دیے جاتے ہیں۔ ان ننھے روبورٹس کو کینیا کا ایک انٹیلی جنس ایجنٹ کنٹرول کرتا ہے۔ حاصل کردہ فوٹو چند لمحوں میں دہشت گردوں کی شناخت کی تصدیق کر دیتے ہیں۔
اس دوران ہم دو دہشت گردوں کو دیکھتے ہیں۔ ان میں ایک صومالی نژاد امریکی ہے جو خود کش جیکٹ پہن رہا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بہت جلد کہیں حملہ کرنے والے ہیں۔ کرنل پائول حکام سے کہتی ہیں کہ ڈرون میں نصب ہیل فائر میزائل فائر کردیا جائے کیونکہ دہشت گرد حملہ کرنے کے لیے روانہ ہونے والے ہیں؛ تاہم اس تمام عمل کی نگرانی کرنے والی کمیٹی سیکرٹری خارجہ کی منظوری چاہتی ہے۔ اس وقت سیکرٹری خارجہ جنوبی کوریا میں ہوتے ہیں اور پیٹ کی خرابی کے مرض میں مبتلا ہیں؛ چنانچہ وہ اس کی ذمہ داری وزیر ِاعظم پر ڈال دیتے ہیں جو اس وقت برسلز میں ہوتے ہیں۔ چونکہ اُس محفوظ گھر میں ایک امریکی شہری بھی ہے، اس لیے وہ اس معاملے کو امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کو ریفر کرتے ہیں جو اس وقت چین میں ہوتے ہیں۔ اس تمام تذبذب کے عالم میں امریکی دوٹوک انداز میں برطانیہ کو مشور ہ دیتے ہیں کہ وہ کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر حملہ کردے۔ لیکن پھر ایک چھوٹی سی لڑکی کی وجہ سے اخلاقی الجھن پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے گھر کے پچھلے صحن میں کھیلتی دکھائی دیتی ہے جو اس محفوظ گھر سے ملحق ہے۔ وہ نہیں جانتی کہ اس گھر میں دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں۔ جس وقت میزائل فائر کیے جانے کی تیاری کی جا رہی ہوتی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لڑکی روٹی کے کئی سلائس لے کر میز پر بیٹھ جاتی ہے جو ہدف بنائی جانے والی عمارت کے باہر ہے۔ وہ روٹی فروخت کر رہی ہوتی ہے۔
اس وقت تک فلم دیکھنے والوں کی ہمدردی اُس لڑکی کے ساتھ ہے، وہ اُسے مرتے نہیں دیکھنا چاہتے۔ ایسا لگتا ہے کہ ڈرون کنٹرول کرنے والا بھی اس کی ہلاکت نہیں چاہتا۔ وہ تازہ سی ڈی ای دیکھتا ہے اور اُسے پتا چلتا ہے کہ وہ لڑکی بلاسٹ کے دائرہ اثر کے اندر ہے۔ ایک جونیئر وزیر اکثریت کی رائے کے برعکس جو کہتی ہے کہ چونکہ خود کش بمبار روانہ ہونے والا ہے، اس لئے میزائل فائر کردیا جائے، میزائل فائر نہ کرنے کا کہتا ہے۔ دیگر کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ خود کش بمبار درجنوں افراد کی جان لے سکتا ہے، ا س لیے محض ایک لڑکی کی جان بچانے کے لیے لاتعداد انسانوں کی زندگی دائو پر نہیں لگائی جاسکتی۔ وہ کرنل فیصلے سے مجبور ہو کر بلاسٹ کا مرکز قدرے تبدیل کردیتی ہے اور جونیئر افسر سے کہتی ہے کہ سی ڈی ای کو اس طرح کر دے کہ لڑکی کے ہلاک ہونے کاخطرہ ستر فیصد سے چالیس فیصد تک آجائے۔ میں اس فلم کا اختتام قارئین سے شیئر نہیں کروں گا کیونکہ جو اسے دیکھنے کا ارادہ کرچکے ہیں، ان کا سسپنس جاتا رہے گا۔
ناظرین پر زبردست تنائو پیدا کرنے والی اس تھرلر مووی نے ڈرون کے حوالے سے اخلاقی ایشو کو اجاگر کیا ہے، لیکن بہر حال یہ فکشن ہے۔ جہاں تک ہم جانتے ہیں سویلینز کے ہلاک ہونے کا خدشہ فوجی حکمت ِ عملی میں زیادہ جگہ نہیں پاتا۔ اجتماعی نقصان پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں لیکن فوجی حکام انہیں خاطر میں نہیں لاتے۔ سزائے موت کے قانون کی مخالفت کرنے والے گروپ ''Reprieve‘‘ کے چیف کلفورڈ سٹافورڈ سمتھ اس فلم میں شناخت ظاہر کرنے کے لیے استعمال کی جانی والی ٹیکنالوجی کی مذمت کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ اس فلم کے ڈائرکٹرکو مشورہ بھی دیتے رہے ہیں لیکن اُن کا موقف یہ ہے کہ غیر واضح تصاویر بہت بڑے نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ اکثر اوقات عام شہری غلط فہمی کی بنیاد پر میزائلوں کے ہدف بن جاتے ہیں۔
بہرحال بہت سے نقائص کے باوجود ڈرون ٹیکنالوجی، جس کی ہلاکت خیزی سے انکار نہیں، دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے لیے انتہائی موثر ہتھیار ہے۔ خطرناک علاقوں میں فوجی بھیجنے کی ضرورت سے بے نیاز کرنے والے یہ ڈرون ہزاروں فٹ کی بلندی پر کئی گھنٹوں تک پرواز کرتے رہتے ہیں اور ہدف کو شناخت کرنے کے لیے مہلک میزائل فائر کر دیتے ہیں۔ عام جیٹ فائٹر اس طرح ٹھیک نشانہ نہیں لگا سکتے۔ گزشتہ کئی برسوںسے ڈرون حملوں میں اجتماعی نقصان کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اس میں مکمل کامیابی دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سفاک انتہا پسند شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کی صورت میں انتہائی درست نشانہ لگانے والے ہتھیار بھی اجتماعی نقصان کو نہیں روک سکتے ۔ اورجہاں تک امریکیوں کو تعلق ہے، وہ بہت زیادہ شناختوں کی الجھن میں نہیں پڑتے، جہاں ہدف کا پتا ملتا ہے، میزائل فائر کردیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شناخت بعد میں ہوتی رہے گی۔