تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     18-04-2016

علم یا معلومات؟

منوں معلومات میں کیا کہیں رتی بھر علم بھی ہے؟
پرفیسر ریاض احمد کا محبت آمیز اصرار، اس سفر گریز آ دمی کو بالآخر کوٹ مومن لے ہی گیا۔ شہر کے صاحبانِ ذوق، گورنمنٹ ڈگری کالج اور سپیریئر کالج کے طلبہ و طالبات اپنے اساتذہ کے ساتھ جمع ہوئے۔ ''ہمارا نظام تعلیم اور عصری مسائل‘‘ کے موضوع پر گفتگو اور سوال و جواب کی طویل نشست ہوئی۔ جاندار سوالات نے ایک بار پھر اس خیال کو مستحکم کیا کہ قدرت نے صلاحیتوں کی تقسیم میں کسی امتیاز کو روا نہیں رکھا۔ میرا مشاہدہ تو یہ ہے کہ ذہانت بڑے شہروں سے رخصت ہو رہی ہے۔ حسنِ طبیعت کے مظاہر وہاں زیادہ ہیں جہاں زندگی فطرت سے قریب تر ہے۔ جدید شہروں میں سرمایہ دارانہ معیشت نے کچھ اس طرح سے ڈیرہ ڈالا ہے کہ معلومات نے علم اور تکلف نے اخلاق کی جگہ لے لی۔ اب یہاں تعلیمی اداروں میں صرف معلومات بکتی ہیں۔ سوال اٹھانے کی ضرورت ہے اور نہ کوئی جواب دینے والا ہے۔ اگر سوال اٹھتا بھی ہے تو 'کیریئر کونسلنگ‘ کے باب میں۔
ہماری نئی نسل سب سے زیادہ پراگندہ طبع (confused) ہے۔ علم تو خیر رخصت ہوا، مزاج بھی برباد ہوئے۔ وہ نظامِ تعلیم‘ جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم کے ساتھ تربیت کا بھی اہتمام کرے، اپنے فریضے سے دست بردار ہو چکا۔ والدین اور معاشرہ بھی لاتعلق ہیں۔ مسجد و مکتب فروغِ اشتعال کے مراکز بن چکے۔ سیاسی راہنما ہیجان پیدا کرتے اور نوجوانوں کو اپنے اقتدار کے لیے زادِ راہ سمجھتے ہیں۔ اب کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا اللہ؟ کوٹ مومن کی نوجوان نسل پوچھتی ہے: پاکستان دہشت گردی کا مرکز کیوں ہے؟ دورِ حاضر میں اہل اسلام کی تخلیقی قوت کا اضمحلال کیا مذہبی تشخص پر اصرار کے باعث ہے؟ اہلِ مغرب کی ترقی کا راز کیا مذہب سے نجات میں ہے؟ یہ زندگی کیا ہے؟ ہم کہاں سے آئے اور کہاں چلے؟ ہمیں اس سوال کا غیر مذہبی جواب چاہیے۔
اب گنت سوالات تھے جو خبر دے رہے تھے کہ نو جوان سوچ رہے ہیں‘ مگر کمرہ جماعت میں ان کے جواب نہیں دیے جاتے۔ صرف ایک سوال ایسا تھا جس کا تعلق تعلیم کے عملی مسئلے سے تھا۔ یہ پیشہ ورانہ تعلیم کے اداروں میں داخلے سے متعلق تھا۔ اس کے سوا تمام سوالات فکری اور نظری نوعیت کے تھے۔ مجھے بڑے شہروں میں یونیورسٹیوں وغیرہ میں بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ سچ یہ ہے کہ اس طرح کے سوالات بہت کم سننے کو ملے۔ خوشی بہت ہوئی کہ نئی نسل سوچتی ہے۔ غم یہ تھا کہ انہیں جواب نہ ملے تو یہ کہاں جائیں گے؟ گلی بازار میں تعلیم، مذہب اور سیاست کے نام پر پھیلتے ادارے برائے فروغِ انتہا پسندی انہیں کہاں لے جائیں گے؟ نظامِ تعلیم کے پاس، ان نوجوانوں کے اطمینان کا کوئی سامان کیوں نہیں ہے؟ 
گھر کے بعد مزاج کی تشکیل میں تعلیمی ادارے کا کردار ہے۔ انسان اسی وقت شرفِ انسانیت سے متصف ہوتا ہے جب اس میں دو اوصاف ہوں۔ ایک یہ کہ وہ عقلی بنیادوں پر غور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس کی سوچ کا زاویہ منطقی ہو۔ دوسرا یہ کہ وہ جمالیاتی حس رکھتا ہو۔ انسانی رشتوں سے لے کر مظاہرِ فطرت تک، اس میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ ہر جگہ مو جود لطافت اور حسن کو پہچان سکے۔ منطقی اندازِ فکر (Rational thinking) فلسفے کی تعلیم سے پیدا ہوتا‘ اور جمالیاتی حس ادب اور فنونِ لطیفہ کی تعلیم سے آتی ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں ان دونوں باتوں کا کہیں گزر نہیں۔ طالب علم کو فلسفہ پڑھایا جاتا ہے نہ فنونِ لطیفہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ادب کہیں نصاب میں شامل نہیں۔ اردو کی نصابی کتاب میں چند غزلیں یا نظمیں اس طرح پڑھائی جاتی ہیں کہ طالب علم غالب اور میر کو ایک مصیبت سمجھتے ہیں۔ رہی موسیقی اور مصوری تو ویسے ہی شرفا کے لیے ممنوع ہیں۔ لوگوں کو حیرت ہوتی ہے جب یہ سنتے ہیں کہ مولانا ابوالکلام آزاد بھی کبھی تاج محل کی چھت پر بیٹھ کر چاندنی راتوں میں ستار بجایا کرتے تھے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ نئی نسل میں انتہا پسندی پیدا نہ ہو اور انہیں دلیل کے ساتھ کوئی بات سمجھائی جا سکے تو لازم ہے کہ فلسفہ، ادب اور فنونِ لطیفہ کو ابتدائی تعلیم کا حصہ بنا دیا جائے۔ اس کے بغیر وہ متوازن شخصیات پیدا نہیں ہو سکتیں‘ جو مذہب اور معاشرے کے معاملات میں منطقی انداز سے سوچ سکیں۔ انسانی جان کی حرمت اور انسان کے لطیف جذبات کا شعور بھی اسی وقت جنم لے گا‘ جب ان کی فطرت میں ودیعت کردہ احساسِ جمالیات کی تربیت ہو۔ یہ دینی مدرسے کا طالب علم ہو یا جدید تعلیمی ادارے کا، فلسفے، ادب اور فنونِ لطیفہ کی تعلیم سب کے لیے لازم اور ایک جیسی ہونی چاہیے۔ اس کے بعد ہم معاشرتی سطح پر موجود تقسیم کو کم کر سکتے ہیں اور انتہا پسندی کو لگام ڈال سکتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ جمالیات کا ذوق رکھنے والا کسی بھی عنوان سے انسانی خون بہانے کو اپنا نعرہ بنا لے۔ وہ لوگوں کو بے توقیر کرنے میں لذت محسوس کرے۔ وہ کسی گروہ یا مسلک کے خلاف نفرت کا علم برادر بن جائے۔
اس وقت سرکاری سطح پر کسی کو اس بات کا خیال ہے نہ نجی سطح پر۔ ہر جگہ پیشہ ورانہ تعلیم کے حاملین پیدا کرنے پر سارا زور صرف کیا جا رہا ہے۔ انسان پیدا کرنا کسی کے پیشِ نظر نہیں ہے۔ اب ہر شعبے کے ماہرین تو ہمیں مل جاتے ہیں مگر ان میں جوہرِ انسانیت تلاش کرنا مشکل ہے۔ مزاج برہم ہیں اور اخلاق میں فساد ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کو دیکھیں تو لیپ ٹاپ بانٹ رہے ہیں۔ مجھے اس پر اعتراض نہیں۔ مجھے اس اندازِ نظر پر اعتراض ہے جو معلومات کے فروغ کو علم کا فروغ سمجھ رہا ہے۔ لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ سے معلومات جمع کی جا سکتی ہیں، علم نہیں۔ علم معلومات کو ترتیب دینے اور ان میں موجود رطب و یابس کو الگ کرنے کا نام ہے۔ اگر اس کی تربیت نہیں تو پھر محض معلومات تک رسائی صرف فکری پراگندگی ہی پیدا کرے گی۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارا شمار دنیا کے ان ممالک میں سرفہرست ہے جو انٹرنیٹ کے مضر استعمال کی شہرت رکھتے ہیں۔ 
اہلِ سیاست کو اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ نہیں۔ قومی ایکشن پلان میں اس مسئلے کو ایک حد تک موضوع بنایا گیا مگر اس کے لیے کوئی حکمتِ عملی تشکیل نہ پا سکی۔ تعلیم اب محض سرکاری اداروں کے ہاتھ میں نہیں رہی۔2011ء کے اعدا د و شمار کے مطابق 28 فی صد تعلیمی ادارے نجی شعبے کے پاس ہیں جہاں 34 فیصد طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی تعلیمی ادارہ یا گروپ ایک ایسے نظام تعلیم کی بنیاد رکھے جو انسان سازی کو مقاصدِ تعلیم میں مقدم رکھے۔ جہاں فلسفہ، ادب اور فنونِ لطیفہ نصاب اور تعلیمی ماحول کا حصہ ہو۔
نجی شعبے میں کہیں کہیں اس کا ادراک موجود ہے۔ کوٹ مومن میں نجی کالج کے پرنسپل عون شیرازی مجھے اپنے ادارے میں لے گئے۔ ان سے اسی موضوع پر بات ہوتی رہی کہ ان کی لائبریری میں کون سی کتب ہونی چاہئیں اور طلبا و طالبات میں منطقی اندازِ نظر اور جمالیاتی شعور کیسے پیدا ہو۔ اہم سوال یہ بھی سامنے رہا کہ نصاب کے اتنے بوجھ کے ساتھ یہ کیسے ممکن ہو گا؟ میرا احساس ہے کہ مقصد کا تعین ہو جائے تو آغاز کیا جا سکتا ہے۔ میرے پاس کچھ تجاویز ہیں۔ اگر کسی نجی تعلیمی ادارے یا گروپ کا مالک تعلیم کو جنسِ بازار قرار دینے کے بجائے، ایک سماجی خدمت سمجھنے پر آمادہ ہو تو بات ہو سکتی ہے۔
قدرت نے نئی نسل کی صورت میں خام مال ہمارے حوالے کیا ہے۔ اب ہم نے سوچنا ہے کہ انہیں کیسے خد و خال دینے ہیں۔ انہیں معلومات دینی ہیں یا علم؟ اقبال کے الفاظ میں انبارِ گِل کو آدم کیسے بنانا ہے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved