حکمرانوں کے حوصلے کی داد دینا پڑتی ہے۔ ان کا کچھ بھی بگڑ جائے‘ وہ پروا نہیں کرتے۔ مشرقی پاکستان گیا‘ ان کے ماتھے پر شکن تک نہ آئی۔ عوام نے رو دھو کے صبر کر لیا۔ اور بیچارے کرتے ہی کیا؟ کشمیر پر جتنی آسانی سے ہم نے بھارت کا قبضہ برداشت کیا‘ وہ بھی قابل داد ہے۔ بھارت نے اب کم و بیش مقبوضہ کشمیر پر اپنا قبضہ مستحکم کر لیا ہے اور کشمیر کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والی ایک قابل ذکر سیاسی پارٹی‘ انتہا پسند ہندوئوں کے ساتھ شریک اقتدار ہو کر‘ ایک نئی منزل کی طرف چل پڑی ہے۔ ہمیں پتہ بھی نہیں چلا کہ مقبوضہ کشمیر میں حالیہ انتخابات کے بعد کتنی بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ آزاد کشمیر پر یقین رکھنے والی ایک جماعت نے‘ وادیء کشمیر میں مسلمانوں کے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے‘ مگر ہمارے پاس کوئی ایسی حکمت عملی موجود نہیں تھی کہ ہم اس شاندار فتح پر عالمی برادری میں کسی بھی طرح کی آواز اٹھا سکتے۔ حقیقت میں یہ بھارتی قبضے کے خلاف‘ مسلمانوں کی اکثریت کا فیصلہ تھا۔ ان انتخابات میں بی جے پی پوری تیاریوں کے ساتھ اتری تھی۔ حکومت اس کی تھی۔ پیسہ اس کے پاس تھا۔ طاقت اس کے پاس تھی۔ مگر طاقت میں برتری کے سارے وسائل قبضے میں ہونے کے باوجود‘ بی جے پی مسلمانوں کے جذبہ آزادی کو شکست نہ دے سکی۔ لیکن ہم تو یوں گم سم تھے‘ جیسے سرے سے کوئی واقعہ ہی نہ ہوا ہو۔ پاکستان میں کوئی بیدار مغز قیادت ہوتی تو ہم حالیہ انتخابی نتائج کو آزادی کشمیر کی تحریک کی ایک مثال بنا کر عالمی برادری میں جا سکتے تھے۔ کشمیری عوام نے ہمیں کبھی دھوکا نہیں دیا۔ پاکستان کا ساتھ دینے کے لئے کشمیریوں نے جتنی قربانیاں دیں‘ وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ طاقت میں بھارت کی برتری اور مقبوضہ کشمیر میں سات ڈویژن فوج کے قبضے کے باوجود‘ نہتے مسلمانوں کی مزاحمت جاری ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی انتخابی مہم کے دوران بھی‘ مسلمانوں نے پاکستان کا پرچم لہرا کر اس کے حق میں نعرے بلند کئے۔ انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ لاٹھی چارج کیا گیا۔ اندھا دھند گرفتاریاں کر کے جیلوں میں ڈالا گیا۔ اس کے باوجود مسلمانوں نے پاکستان کا نام لینا بند نہیں کیا۔ مفتی سعید کی پارٹی نے جو اکثریتی ووٹ حاصل کئے‘ وہ مسلمانوں کے جذبہ آزادی کا اظہار تھا۔ عمر عبداللہ نے مسلمانوں کے ووٹ تقسیم کر کے‘ اپنے خاندان کی روایت کے عین مطابق‘ اپنی قوم کی پیٹھ میں خنجر گھونپا‘ لیکن پاکستان اگر معمولی سی توجہ بھی دیتا تو عمر عبداللہ اور مفتی سعید کے درمیان‘ مفاہمت کے لئے سہولت کاری پر کام کر سکتا تھا۔ پاکستانی قیادت نے مقبوضہ کشمیر کو فراموش کر رکھا ہے۔ آزاد کشمیر کے عوام آج بھی اپنی آزادانہ حیثیت برقرار رکھتے ہوئے‘ پوری ریاست جموں و کشمیر کی آزادی کے خواہش مند ہیں‘ لیکن اسلام آباد کے حکمرانوں نے ان کی آزادی کے خواب کو دھندلا کر‘ اپنے اقتدار کا گندا کھیل آزاد کشمیر تک پھیلا دیا اور اب وہ انہیں ہر نام نہاد الیکشن کے بعد پاکستانی حکمرانوںکا دم چھلا بننے پر مجبور کر دیتے ہیں اور ایسا کرتے کرتے ان کے جذبہ آزادی کو سرد کرتے جا رہے ہیں۔ درحقیقت یہ ایک طرح سے برصغیر میں ہندو کی بالادستی کی کوششوں میں مددگار بن رہے ہیں۔ یہ ہمارے حکمرانوں ہی کی بے حسی ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے مسلمانوں نے پاکستان سے اپنی امیدوں کو خیرباد کہتے ہوئے‘ حقوق حاصل کرنے کے نئے طریقے دریافت کرنا شروع کر دئیے ہیں۔ بھارت میں بیس کروڑ مسلمانوں کی تعداد اتنی بڑی ہے کہ وہ کسی بھی حالت میں ہندو کی غلامی برداشت نہیں کریں گے۔ وہاں کے جمہوری نظام میں وہ اپنی قومی آزادیوں کی راہیں نکالتے رہیں گے۔ بھارتی حکمران طبقہ کتنا کھوکھلا ہے کہ طلبا کی چھوٹی اور محدود سی تحریکوں پر بھی وہ بوکھلا جاتا ہے۔ وہاں کا حکمران طبقہ‘ مذہبی تعصب کے باوجود اتنا بزدل ہے کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے باغی طلبا کی تحریک پر بھی اس کے اوسان خطا ہو گئے تھے‘ حالانکہ اس تحریک کی قیادت ایک ہندو لڑکا کر رہا تھا۔ بی جے پی کے لیڈر پھر بھی اعتماد سے محروم تھے۔ آج بھی پاکستان اگر منافقت چھوڑ کر برملا‘ بھارتی مسلمانوں کا ساتھ دینا شروع کر دے تو بھارتی بالادستی کا خواب چکنا چور کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت نہ تو بھارتی مسلمانوں کا پورا ساتھ دے کر انہیں اپنی قوت میں بدل سکتی ہے اور نہ ہی ایسی سیاسی حکمت عملی اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے‘ جس کے تحت بھارتی ڈپلومیسی کا جواب دیا جا سکے۔ ہمارے موجودہ وزیر اعظم نے انفرادی حیثیت میں بھارت کے ساتھ خیر سگالی کے جو مظاہرے کئے ہیں‘ ان کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ طویل رابطوں‘ مذاکرات اور متعدد سمجھوتو ں کی کوششوں کے باوجود‘ کچھ حاصل نہیں ہوا۔ خیر سگالی کے سارے مظاہروں کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت نے انتہائی بے رخی اور سفارتی بداخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ یکطرفہ طور پر مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔ ہم نے جناب نواز شریف کی خیر سگالی سے کیا حاصل کیا؟ سب ہمارے سامنے آ گیا ہے۔
جو کچھ سامنے آیا ہے‘ وہ ہماری فوج کے لئے کسی بھی طرح اطمینان بخش نہیں۔ ایسے حالات میں جبکہ ساری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف پاکستانی فوج کی کارکردگی پر تحسین کی جا رہی ہے‘ ہماری حکومت سفارتی محاذ پر اس سے کوئی بھی فائدہ حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ حال ہی میں ایک ہائی پروفائل بھارتی جاسوس کلبھوشن کو پکڑنے کا جو کارنامہ فوج نے انجام دیا‘ ہماری حکومت اس پر بھی کوئی سفارتی یا سیاسی فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی۔ فوج کے وسائل محدود ہوتے ہیں۔ وہ بطور ادارہ اپنی شاندار کامیابی پر کوئی قابل ذکر نتیجہ حاصل نہیں کر سکی۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارتی جیلوں کے اندر جاسوسی کے الزام میں پھینکے گئے بے گناہوں میں سے کسی ایک کو بدلے میں دے کر بھارتی حکمران‘ اپنا اعلیٰ درجے کا جاسوس حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ہماری حکومت جو مودی اور اس کے ساتھیوں کے سامنے بچھی چلی جا رہی ہے‘ بھارت کی مصنوعی خیر سگالی کے بدلے میں ان کے اعلیٰ پائے کے جاسوس کو آسانی سے بھارت کے حوالے کر دے گی۔ مجھے جو اطلاعات مل رہی ہیں‘ ان کے مطابق بھارت کے ساتھ ہمارا طرز عمل اور خصوصاً ہائی پروفائل بھارتی جاسوس کی گرفتاری پر سرد مہری کے رویے کو شدت سے محسوس کیا گیا ہے۔
پاک فوج اپنے وطن اور عزت ووقار کے معاملے میں کتنی حساس اور سنجیدہ ہے‘ اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے افسر اور جوان‘ وطن کی عزت کے لئے اپنا خون تک بہا دیتے ہیں۔ ملکی قیادت کو اپنی فوج کے ان جذبات کا احساس رکھنا چاہئے۔ بھارتی قیادت حالانکہ شفاف انتخابات میں جیت کر آتی ہے لیکن وہ اپنی فوج کے افسروں اور جوانوں کے جذبات کا پورا احترام کرتی ہے۔ وہاں کی پالیسی سازی میں‘ خصوصاً پاکستان کے ساتھ تعلقات کے سوال پر‘ بھارتی فوج کی رائے کو مقدم سمجھا جاتا ہے۔ دنیا بھر کی قومی افواج کے بارے میں ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ جو حکومت بھی اس کے وطن پرستی کے جذبات کا احترام نہیں کرتی‘ اس کی پالیسیاں ہر فوجی کو تکلیف دہ محسوس ہوتی ہیں۔ ان دنوں ہم جس سانحے سے گزر رہے ہیں‘ یہی سانحہ اگر بھارت کے ساتھ ہوتا‘ خصوصاً اس کا وزیر اعظم مالی معاملات میں ہیر پھیر کے الزامات کی زد میں آ کر مشکوک ہو جاتا‘ تو وہاں کی حکومت ایک لمحے کے لئے بھی پردہ ڈالنے کی کوشش نہ کرتی۔ پہلے الزامات کی چھان بین ہوتی۔ بعد میں وزیر اعظم کے بارے میں فیصلہ کیا جاتا۔ حکمران پارٹی کے حامی کامیڈینز‘ بچوں کا جو کھیل کھیل رہے ہیں‘ وہ اپنے لیڈر کے لئے مزید مشکلات پیدا کرتے جا رہے ہیں۔ پاناما سانحے کی من مانی تحقیقات کا جو بھی نتیجہ نکلتا ہے وہ تو بعد میں سامنے آئے گا‘ لیکن ہماری سیاسی قیادت‘ عالمی برادری کی نظروں میں جس طرح اپنا مقام کھو چکی ہے‘ اس کی تلافی ہونے میں بہت دیر لگے گی۔ اور دیر ہو جانے کے بعد بھی اس عزت و وقار کی بحالی انتہائی مشکل ہو جائے گی‘ جو ایک منتخب وزیر اعظم کو حاصل ہوتی ہے۔ اگر ایک اعلیٰ سرکاری ملازم بھی ایسے الزامات کی زد میں آجائے تو سب سے پہلے وہ چھٹیاں لے کر یا استعفیٰ دے کر گھر بیٹھ جاتا ہے۔ دنیا ہمارے وزیر اعظم کی طرف دیکھ رہی ہے اور خصوصاً پاک فوج جوا پنے وطن کے وقار کے لئے ہر وقت خون بہانے کے لئے تیار رہتی ہے۔