تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     19-04-2016

دانہ پانی

سرکارؐ کا قرینہ یہ تھا کہ مہمانوں کی مدارات میں اہتمام فرمایا کرتے۔ ارشاد کیا: جو وقت مہمان کے ساتھ گزرے زندگی میں اس کا شمار نہیں‘ جو روپیہ اس پر صرف ہو‘ اس کا حساب نہیں۔ خالق کس قدر مہربان ہے‘ فرمایا:کھائو جو کچھ بھی حلال اور پاکیزہ ہے۔ توجہ سے پکا کھانا کتنی بڑی نعمت ہے‘ اکثر خواتین اس پر غور نہیں کرتیں۔ لیکن پھرکس چیز پہ ہم غور کرتے ہیں؟
شب ڈھلے محفل یاراں میں کھانے پہ بحث تھی۔ حبیب اکرم کو میں نے بتایا کہ سات دن کے بعد جی بھر کے کھانا کھایا۔ اس پر وہ ہنسے اور کہا: آپ کیا کھانا کھائیں گے‘ دن میں چار بار اور ہر بار ایک ذرا سا۔ آغا نثار سے میں نے درخواست کی تھی کہ گھر سے سبز چنے کا پلائو پکوا کر لائیں۔ آغا کھانے کے مزاج آشنا ہیں اور خود ایک زبردست باورچی۔ آخری درجے کا یارباش آدمی۔ خالد مسعود خان نے بیان کیا کہ لندن مشاعرہ پڑھنے گئے۔ بغل میں اپنی پینٹنگز تھیں۔ دوستوں نے باورچی خانے میں لے جا کھڑا کیا۔ باقی دن اسی کارخیر میں بیت گئے۔ حبیب اکرم نے ناک بھوں چڑھائی: عجیب طرح کے کھانے آپ جناب کھاتے ہیں۔ ناچیز نے تو حسب معمول ذرا سا کھایا۔ ٹھنڈے پانی کے دو گلاس پیئے اور شاد ہوئے۔ آغا جی کا شکریہ ادا کیا تو انہوں نے بتایا کہ آج بیٹی نے پکایا اور کہا: انکل کی رائے سے مطلع کیجئے گا۔ دل بھر آیا۔ اللہ اسے دائم آباد رکھے۔ ننھی سی جان‘ سکول میں پڑھتی ہے مگر اولاد کی طرح محبت کرتی ہے۔ یہ ہماری خاتون ہے اور خاندان کا ادارہ جس نے معاشرے کو بچا رکھا ہے‘ ورنہ ہم مرعوب اور نقال لوگ ہیں۔ کچھ دیر میں حبیب اکرم کو پسینہ آنے لگا۔ کھاتے کھاتے تھک گئے مگر جی نہ بھرا۔ بولے: ایسا لذیذ کھانا مدتوں سے نہیں کھایا؛ حالانکہ خود بھی خوش ذوق ہیں اور اہل خاندان بھی۔ اس کے باوجود ابھی تک وہ میرے درپے تھے کہ میں فضول قسم کے کھانوں سے شغف رکھتا ہوں‘ مثلاً چکڑ چھولے‘ کبھی میں اس کے لیے ماڈل ٹائون جایا کرتا تھا‘ سی بلاک کی مارکیٹ میں ایک ریڑھی والے کے پاس‘ اب دفتر کے قریب ریگل چوک پہ اکتفا کرتا ہوں۔
آغا صاحب نے انہیں مضحکہ اڑاتے دیکھا تو بھاٹی گیٹ کے ایک چکڑ چھولے والے کی کہانی کہی۔ صاف پانی سے دھوئے گئے چمچماتے برتن‘ ایک خاص طرح کا سادہ سا سلاد۔ پھر چکڑ چھولے پکانے کا نسخہ بتایا۔
حبیب صاحب اور عظمیٰ نعمان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے کبھی بڑیوں کا پلائو کھایا ہے۔ پسی ہوئی دال میں ذرا سا قیمہ ملا دیا جاتا ہے اور زیرہ۔ بعض اوقات حلوہ کدو کا اضافہ بھی کیا جاتا ہے۔ خشک کرنے کے بعد مدتوں استعمال کے قابل۔ انہوں نے کہا: ہم نے تو اس ڈش کا نام ہی پہلی بار سنا ہے۔ عرض کیا: گوجرانوالہ میں شیخ عرفان سے فرمائش کی ہے۔ کوئی دن میں پکا کر بھیجیں گے تو پیش کروں گا۔ ان کی بیگم اس ذوق شوق سے پکاتی ہیں‘ جیسے استاد اللہ بخش تصویر بنایا کرتے۔ سابق گورنر میاں محمد اظہرکے ڈرائنگ روم میں چند ایک آویزاں ہیں۔ نگاہ خیرہ ہوتی ہے۔ 70ء کی بات ہے‘ استاد ایک تصویر بنا رہے تھے۔ ایک دوست نے کہا کہ انہیں عطا کردیں۔ چوتھے دن ان کی خدمت میں پیش کردی۔ قیمت پوچھی تو استاد نے انکار کردیا‘ حساب دوستاں دردل ۔مصر ہوئے تو کہا: ایک لاکھ روپے دے دیجئے۔ حیرت زدہ انہوں نے کہا: استاد فقط تین دن کے انہماک کا اس قدر معاوضہ؟ بولے‘ پچاس برس اور تین دن۔ نصف صدی کی تمام ریاضت ان ایام میںبھی گندھی ہے۔
سڑک پر سے اسلام آباد کا قصد ہو اور کھانے کا وقت بیچ میں پڑتا ہو تو شیخ اسلم یا شیخ عرفان کو فون کرتا ہوں۔ پچھلے رمضان کا قصہ ہے‘ حبیب اکرم کے چھوٹے بھائی نے ان سے کہاکہ سحری ان کے ساتھ کریں۔ پوچھا کہ کیا چیز وہ پسند کریں گے۔ بولے: ٹینڈے اور لحم خنزیر کے سوا کچھ بھی۔ شیخ عرفان سے میں ٹینڈے گوشت کی درخواست کرتا ہوں۔ ایک بار ان کے ہاں کھائے تھے۔ ذائقہ ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ وقت کبھی کم ہوتا ہے‘ شیخ صاحب سے گزارش کرتا ہوں سرراہ کسی ڈھابے میں لے آئیں۔ وہ تنور والے کے سرہانے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس سے کہتے ہیں کہ کرسیاں شیشم کے درخت تلے ڈالے۔ برتن گھر سے لاتے ہیں۔ اصرار کرتے ہیں کہ تنور کی آگ دھیمی ہو اور خشک آٹے کی بجائے چپاتی کو پانی لگایا جائے۔ لاہور میں ہمارے مہربانوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کھانے کا اہتمام اس ذوق شوق سے کرتے ہیں کہ پورے ماحول میں برکت پھیل جاتی ہے۔ رانا
نذرالرحمن اور ان کے فرند رانا زہیر‘ جناب مجیب الرحمن شامی‘ عثمان خان‘ ڈاکٹر امجد ثاقب اور سب سے بڑھ کر میرے بھائی میاں عامر محمود۔ ان کے باورچی نے ایک بار اروی گوشت ایسا پکایا کہ میں دنگ رہ گیا۔ میاں صاحب یاد کریں تو گاہے موقع پا کر اس باورچی سے درخواست کرتا ہوں کہ ویسا ہی کھانا پکا دے۔ رحیم یار خان میں ان کے دادا میاں حفیظ کے عالمگیر ہوٹل پر بعض چیزوں کا اس قدر اہتمام ہوتا کہ سننے والے حیران رہ جاتے ۔ بازار سے گندم خرید کر صاف کی جاتی‘ دھو کر خشک کی جاتی‘ چکی پر پسوا کر موزوں تائو پر چپاتیاں پکتیں۔ میاں صاحب کے ولی اللہ ہونے میں کسی کو کلام نہ ہوگا۔ سراپا علم‘ سراپا مسلم‘ مجھ پر تو ایسا احسان ہے کہ کسی طرح چکا نہیں سکتا۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں‘ زمین کا وہ ٹکڑا بھی ان پر فخر کرتا ہوگا‘ جس پر چل کر وہ مسجد جایا کرتے ۔ خاندانی روایت کے علاوہ میاں عامر پر ان کے دوست اور مربی چوہدری منیر کا کچھ اثر بھی شاید ہو۔ لاہور میں کہ داتاؒ کی بستی ہے‘ ایک سے ایک عالی ظرف میزبان ہے مگر منیر صاحب جیسے کم کم۔ ڈرائیوروں تک کے کھانے میں صفائی اور معیار کا خیال رکھا جاتا ہے۔ کراچی میں عقیل کریم ڈھیڈی‘ نجیب بلگامی اور حاجی اقبال صاحب کے ہاں میزبانی بڑی خوشی سے ہوتی ہے۔ مگر ڈیفنس میں شفیق صاحب کے گھر میں طعام واقعی ایک ضیافت ہوا کرتی ہے۔ پروفیسراحمد رفیق اختر صاحب موجود ہوں تو سونے پر سہاگہ۔ عقیل کریم ڈھیڈی کے ہاں کنہ پائے منگوائے جاتے ہیں اور کبھی نہاری بھی‘ مہمانوں کو وہ مطلع کرتے ہیں: یہ زیرو نہاری ہے۔
حبیب اکرم کو میں نے زندگی کے سب سے لذیذ کھانے کی روداد سنائی۔ 1956ء‘ چک 42 جنوبی سرگودھا‘ چک 41 جنوبی میں ایک پیغام پہنچا کر ہم تین بھائی واپس جا رہے تھے۔ ماموں زاد محمد یٰسین جسے آج بھی مرحوم لکھتے دل دکھتا ہے‘ بعد میں سینیٹر ہو جانے والے طارق چوہدری اور ان سے ایک برس چھوٹا یہ خاکسار۔ راہ میں کالے کپڑوں میں ملبوس ایک خاتون نے روکا: چھوہرو! دوپہر کا کھانا تم نے کھایا ہے؟ آٹا گوندھا‘ تنور تپایا۔ روٹیاں پک چکیں تو ان پر گھی لگایا‘ چٹنی اور لسّی کے ساتھ کھانے کو دیں۔ ریا سے پاک ممتا کی نگاہ۔ زبان سے کچھ نہ کہا‘ محبت سے دیکھتی رہی۔ خدا کی قسم ایسا کھانا پھر کبھی نہ کھایا‘ آج اس کی یاد آئی تو آنکھ بھیگ گئی۔ دل سے دعا نکلتی رہی۔ کیسے کیسے عالی ظرف اور اجلے آدمی دیکھے۔ کاش ہم ان کی پیروی کر سکتے۔ میرے گائوں کا ایک آدمی مین بلیوارڈ گلبرگ میں کتابوں کی شاندار دکان رکھتا ہے‘ پبلشر بھی ہے۔ کبھی وہاں رک جاتا ہوں۔ شیشے کے درودیوار میں گائوں کی ہریالی دیکھتا ہوں اور نہرکی روانی۔ کھجور کے وہ اونچے درخت جو صحرا میں ہوں تو زمین کو آسمان بنا دیتے ہیں۔
طعام کبھی عبادت بھی ہو جاتا ہے۔ پروفیسر احمد رفیق اختر کے ہاں ہر شام مہمانوں کے لیے کھانا پکتا ہے۔ ان کی اہلیہ اورصاحبزادی پکاتی ہیں۔ ہر شام مہمان بھی وہی‘ ان کے عم زاد اور ایک آدھ شاگرد‘ عجیب بات ہے کہ سرشام وہی رونق‘ وہی برکت۔ ایک دن سوال کیا: اس میں کیا بھید ہے۔ یہ نہ کہا کہ اس میں کوئی ریا نہیں‘ خوش دلی ہی خوش دلی ہے۔ بولے: یہاں جھجھک کوئی نہیں۔
سرکارؐ کا قرینہ یہ تھا کہ مہمانوں کی مدارات میں اہتمام فرمایا کرتے۔ ارشاد کیا: جو وقت مہمان کے ساتھ گزرے زندگی میں اس کا شمار نہیں‘ جو روپیہ اس پر صرف ہو‘ اس کا حساب نہیں۔ خالق کس قدر مہربان ہے‘ فرمایا:کھائو جو کچھ بھی حلال اور پاکیزہ ہے۔ توجہ سے پکا کھانا کتنی بڑی نعمت ہے‘ اکثر خواتین اس پر غور نہیں کرتیں۔ لیکن پھرکس چیز پہ ہم غور کرتے ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved