تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     19-04-2016

سعودی عرب دوستوں کی تلاش میں

مڈل ایسٹ کی سٹریٹیجک صورت حال پچھلے چار سال میں تیزی سے تبدیل ہوئی ہے۔ عرب سپرنگ نے خطے کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ اب امریکہ کی اس خطے میں دلچسپی کم ہو رہی ہے۔ ایران آنے والے دنوں کی ریجنل پاور ہو گا۔ شام میں صدر بشارالاسد کی ڈوبتی کشتی کو بچا لیا گیا ہے۔ سعودی عرب یمن میں الجھا ہوا ہے۔ خطے میں طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔ آئیے اس خطے میں طاقت کے توازن یعنی سٹریٹیجک بیلنس کو مارڈن ہسٹری کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
1978ء تک مصر مشرقِ وسطیٰ کا اہم ترین ملک تھا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد مصر کو اقتصادی اور مالی فوائد تو ہوئے لیکن وہ عرب دنیا کی قیادت کا اخلاقی جواز کھو بیٹھا‘ اب فوجی اعتبار سے عراق سب سے طاقت ور عرب ملک تھا‘ اور مالی لحاظ سے سعودی عرب امیر ترین۔ مزید طاقت کے حصول نے صدام حسین کو مہم جوئی کی طرف راغب کیا۔ صدام کی قوت کا بھانڈا 1991ء میں کویت میں پھوٹ گیا۔ اب سعودی عرب مشرقِ وسطیٰ کا مالی اور فوجی اعتبار سے اہم ترین ملک تھا۔ مشرقِ وسطیٰ میں پاور کا مرکز ثقل قاہرہ سے اب ریاض منتقل ہو چکا تھا۔ خطے کی دوسری بڑی پاور یعنی ایران مغرب کے زیرِ عتاب تھا۔ افغانستان اور اعراق پر امریکہ نے جنگیں مسلط کیں تو سب سے زیادہ فائدہ ایران کو ہوا۔ اس کے دو بڑے دشمن یعنی طالبان اور صدام حسین شکست سے دوچار ہوئے۔
اور اب آتے ہیں حال کی طرف۔ عرب ممالک کو اندرونی خلفشار نے کمزور کیا ہے۔ اس وقت بلاشبہ اسرائیل خطے کا طاقت ور ترین ملک ہے۔ داعش اور القاعدہ نے عدم استحکام میں اضافہ کیا ہے۔ آپ کو شاید یاد ہو‘ شاہ کے زمانے میں سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے حلیف تھے‘ مگر اب حریف بن چکے ہیں۔ یہ دو طرفہ رقابت اب عراق سے ہوتی ہوئی سیریا‘ لبنان‘ بحرین اور یمن تک پھیل چکی ہے۔ یہ صورت حال کسی طرح بھی امید افزا نہیں۔ پچھلے سال جب خلیجی ممالک اور ان کے حُلفا نے یمن میں مداخلت کی تو پاکستان اور مصر‘ دونوں سے شامل ہونے کو کہا گیا۔ پاکستان نے یمن فوج بھیجنے سے معذرت کر لی کہ ہماری پالیسی ہے کہ عرب بھائیوں کے باہمی تنازعات میں فریق نہ بنا جائے۔ مصر نے فوجیں بھیجنے کا وعدہ کیا‘ لیکن اسے وفا نہیں کیا۔
خطے میں امریکہ کی کمی ہوتی ہوئی دلچسپی کو دیکھ کر انڈیا کے ذہن میں یہ سودا سما رہا ہے کہ وہ مڈل ایسٹ میں اہم رول کا حق دار ہے۔ خطے میں انڈیا کے علاوہ روس اور چین کی دلچسپی ضرور ہے‘ مگر روس نے سوریا (شام) میں بشارالاسد کی عسکری مدد کر کے کئی عرب ممالک کو ناراض کر لیا ہے۔ چین اس خطے میں اپنا رول اقتصادی تعاون پر مرکوز کئے ہوئے ہے۔ پچھلے دنوں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ آئیے اس دورے کی اہمیت اور ممکنہ اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔
انڈیا کے لیے عرب ممالک عمومی طور پر اور خلیجی ممالک خاص طور پر بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ انڈیا کا ساٹھ فیصد تیل اور نوے فیصد قدرتی گیس مڈل ایسٹ سے آتے ہیں۔ سعودی عرب میں اٹھائیس (28) لاکھ انڈین کام کر رہے ہیں۔ دو طرفہ تجارت چالیس ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔ انڈیا سعودی عرب کے تیل کا بڑا خریدار ہے۔ انڈیا سعودی عرب سے سرمایہ کاری حاصل کرنے کا بھی خواہش مند ہے۔ انڈیا کے عالمی قوت بننے کے خواب میں سکیورٹی کونسل کی دائمی نشست بہت بڑا قدم ہو گا؛ چنانچہ انڈیا عرب ممالک میں ہمیشہ یہ کہتا چلا آیا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد وہاں پاکستان سے زیادہ ہے۔ مسلمان مکمل سیاسی اور اقتصادی آزادی رکھتے ہیں‘ ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے ہیں‘ اور آج بھی حمید انصاری ہندوستان کے نائب صدر ہیں۔ سعودی عرب میں انڈین سفیر عمومی طور پر مسلمان ہوتا ہے۔ پچھلے چند سالوں سے سعودی عرف اور انڈیا دہشت گردی کے مقابلے کے حوالے سے قریب تر ہو چکے ہیں۔ 2012ء میں سعودی عرب نے ایک انڈین باشندے سید ذبیح الدین کو ہندوستانی حکومت کے حوالے کر دیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ ممبئی کے حملوں میں ملوث ہے۔
وزیر اعظم مودی کا سعودی عرب میں شاندار استقبال ہوا۔ چھ مختلف معاہدوں پر دستخط ہوئے شاہ سلمان نے انہیں کنگ عبدالعزیز آرڈر آف میرٹ سے نوازا۔ یہ سعودی عرب کا اعلیٰ ترین ایوارڈ ہے‘ جو آج تک کسی سویلین پاکستانی لیڈر کو نہیں ملا۔ مگر میرے نزدیک اس دورے کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ بیان کا ایک پیرا سب سے اہم ہے۔ اس کا متن کچھ یوں ہے: ''دونوں ملک دنیا کے تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔ جہاں جہاں دہشت گردوں کے ٹھکانے ہیں‘ انہیں ختم کریں۔ دہشت گردی کے لیے دی جانے والی ہر قسم کی امداد کو روکیں اور وہ دہشت گرد جو دوسرے ممالک میں کارروائیاں کرتے ہیں انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائیں‘‘۔
یہ مشترکہ اعلامیہ ڈرافٹ کرتے وقت انڈیا کا ہدف سخن ظاہر ہے کہ پاکستان تھا جبکہ سعودی عرب ایران سے کہہ رہا تھا کہ عرب دنیا میں مداخلت بند کرو۔ انڈیا کا خیال تھا کہ اس نے پاکستان کو عرب دنیا میں بھی تنہا کر دیا ہے لیکن یہ اس کی خام خیالی تھی۔ حال ہی میں استنبول میں ہونے والی او آئی سی سمٹ میں کشمیر رابطہ گروپ نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور انڈین میڈیا کہہ رہا ہے کہ مودی کے سعودی عرب کے دورے کے بعد جو دعوے کیے گئے تھے‘ وہ غلط نکلے۔
انڈیا سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ اب سکیورٹی اور عسکری شعبوں میں تعلقات بڑھا رہا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب کو خطے میں ایسے دوستوں کی ضرورت ہے جو ایرانی توسیع پسندی کے تناظر میں اس کی مدد کر سکیں‘ لیکن اس سلسلہ میں سعودی عرب کو دو باتیں ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہئیں۔ اول یہ کہ مڈل ایسٹ میں اگر انڈیا کا کوئی نزدیک ترین سٹریٹیجک پارٹنر ہے‘ تو وہ اسرائیل ہے۔ انڈیا اسرائیلی ہتھیاروں کا بڑا خریدار ہے۔ میزائل ٹیکنالوجی میں دونوں ممالک کا قریبی تعاون ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں صورت حال کو کنٹرول کرنے کے گُر انڈیا نے اسرائیل سے سیکھے کیونکہ اسرائیل فلسطینی انتفاضہ کو قابو میں لا چکا تھا۔
دوسری اہم بات جو سعودی لیڈرشپ کو ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے‘ یہ ہے کہ انڈیا ایران کا ساتھ کسی صورت نہیں چھوڑے گا۔ جب تک پاکستان انڈیا کو افغانستان اور سنٹرل ایشیا کے لیے راہداری نہیں دیتا‘ ان ممالک سے تجارت کے لیے انڈیا کے پاس چاہ بہار اور بندر عباس کا روٹ ہی نزدیک ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں انڈیا اور ایران کی پالیسی میں خاصی مماثلت نظر آتی ہے اس صورت حال میں عرب ممالک کو انڈیا سے یہ امید نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ ان کی خاطر ایران کو چھوڑ دے گا۔
تیسری قابل غور بات یہ ہے کہ حجاز مقدس میں کسی ہنگامی صورت حال میں انڈیا سعودی عرب کی معاونت نہیں کر سکتا۔ ایسی صورت حال 1979ء میں پیش آ چکی ہے۔ حجاز مقدس میں غیر مسلم افواج نہیں جا سکتیں۔
ہندوستان تین کشتیوں کا سوار ہے۔ ایک کشتی ایرانی ہے۔ دوسری اسرائیلی اور تیسری عربی۔ ان حالات میں انڈیا سے بڑی توقعات وابستہ رکھنا سعودی عرب کی خام خیالی ہو گی اور یہ بات بھی محل خاطر رہے کہ انڈیا کے ساتھ حساس معلومات کا تبادلہ ہو گا تو وہی معلومات فوراً اسرائیل اور ایران کے ساتھ بھی شیر کی جا سکتی ہیں۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved