''نکلو(اللہ کی راہ میں)، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ، یہ تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو ‘‘ (سورہ توبہ9:41)۔ اس موقع پر صحابیات نے جہاد کے لیے چندہ دینے میں ایسی مثالیں قائم کیں کہ جو تاقیامت یادگار رہیں گی۔ عورتوں نے اپنے زیورات اتار کے آنحضورؐ کی خدمت میں بھجوا دیے اور کئی خواتین یہ کہتی ہوئی سنی گئیں کہ ہمارا اصل زیور تو اسلام ہے۔ اگر اسلام کو کوئی گزند پہنچے اور ہم اپنے زیور سنبھال کر بیٹھی رہیں تو تف ہے ہمارے ایمان پر۔ مال دار صحابہ نے اپنا مال بے دریغ اللہ کے راستے میں پیش کیا مگر مفلس و غریب صحابہ بھی پیچھے نہ رہے۔ قبیلہ بنو اسلم سے تعلق رکھنے والی صحابیہ حضرت ام سنانؓ بیان فرماتی ہیں کہ جب آنحضورؐ نے غزوۂ تبوک کے لیے مالی امداد کی اپیل کی تو بہت سی عورتوں نے جن کے پاس کچھ نقدی تھی، ساری اللہ کے راستے میں لٹا دی۔ جن کے پاس اس وقت نقد رقم نہ تھی، انھوں نے اپنے زیورات پیش کر دیے۔ آنحضورؐ نے خواتین سے فرمایا کہ وہ عائشہ صدیقہؓ کے گھر میں آکر اپنی اعانتیں جمع کروائیں۔ سیدہ عائشہؓ کے گھر میں ایک چادر بچھا دی گئی تھی۔ حضرت ام سنانؓ کہتی ہیں کہ جب میں گھر میں داخل ہوئی تو میں نے دیکھا کہ اس چادر پر ہاتھی دانت اور سونے ، چاندی کے زیورات کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ان میں ہاتھوں کے کنگن اور بازو بند بھی تھے۔ پائوں کی پازیبیں، کانوں کی بالیاں اور انگلیوں کی انگوٹھیاں بھی تھیں۔ اگرچہ مدینہ منورہ میں معاشی حالات خاصے پریشان کن تھے مگر اہلِ ایمان کا جذبۂ انفاق پورے جوبن پر تھا۔ (مغازی للواقدی ج3، ص 992)
مال دار صحابہ کی شان تو یوں بیان کی گئی ہے کہ علامہ ابن کثیر کے بقول حضرت عثمان بن عفانؓ آنحضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اشرفیوں سے بھری ہوئی ایک تھیلی آنحضورؐ کے سامنے لا کر ڈھیر کر دی۔ یہ ایک ہزار اشرفی کی
رقم تھی، جو غزوۂ تبوک کے لیے ذوالنورینؓ نے پیش کی۔ آنحضورؐ اشرفیوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر خوشی سے الٹ پلٹ کر رہے تھے اور دعا فرما رہے تھے: ''اَللّٰھُمَّ ارْضِ عَنْ عُثْمَانَ فَاِنِّیْ عَنْہُ رَاضٍ‘‘ یعنی اے اللہ تو عثمان سے راضی اور خوش ہوجا بلاشبہ اس نے مجھے خوش کر دیا ہے۔ چونکہ حضرت عثمانؓ بہت مال دار تھے، اس لیے آنحضورؐ نے جب مزید ترغیب دی تو حضرت عثمانؓ نے عرض کیا: ''یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک سو اونٹ پورے سازوسامان کے ساتھ جہاد کے لیے پیش کرتا ہوں۔‘‘ آپؐ بہت خوش ہوئے اور فرمایا: ''اللہ تجھے برکت دے۔‘‘ آپؐ نے جب دو مرتبہ مزید ترغیب دی تو حضرت عثمانؓ نے عرض کیا: ''یا رسول اللہ مزید دو سو اونٹ۔‘‘ اس طرح آپؓ نے تین سو اونٹ سازوسامان کے ساتھ پیش کیے۔ بعض روایات میں اس سے زیادہ اونٹوں یعنی آٹھ سو تک کا تذکرہ بھی ہے مگر مسند احمد اور ترمذی میں یہی تعداد بیان ہوئی ہے۔ آنحضورؐ خطبے سے فارغ ہونے کے بعد مسجد سے باہر نکلے اور اونٹوں کی گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ آپؐ مسلسل کہے جارہے تھے کہ عثمان نے اتنا بڑا کارِ خیر کیا ہے کہ اللہ کی طرف سے اس کے لیے جنت کا وعدہ ہے۔ وہ جو عمل بھی کرے گا، اس کا کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیے البدایۃ والنھایۃ، المجلد الاول مطبوعہ موسسۃ المعارف دار ابن حزم بیروت، ص 904)
اسی طرح سے حضرت عمر فاروقؓ کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ انھوں نے اپنی ساری دولت و ثروت کا نصف اللہ کے راستے میں پیش کر دیا۔ یارِ غار حضرت ابوبکر صدیقؓ نے گھر کا سارا اثاثہ لا کر پیش کر دیا۔ جب پوچھا گیا کہ گھر میں کیا چھوڑا ہے تو عرض کیا: '' اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت۔‘‘ حضرت عبد الرحمان بن عوفؓ نے سونے چاندی اور درہم و دینار کی تھیلیاں لا کر پیش کیں۔ جب اللہ کے رسولؐ نے پوچھا کہ کتنے دینار اور کتنا سونا ہے تو عرض کیا: '' یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ مجھے بے حساب دیتا ہے، مجھے اس بات سے شرم آتی ہے کہ میں اس کے راستے میں گن گن کر دوں۔ میں نے تو بغیر گنے اور بغیر تولے اللہ کی راہ میں یہ حصہ پیش کر دیا ہے۔‘‘ آپؐ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے: ''بَارَکَ اللّٰہُ فِیْ مَا اَعْطَیْتَ وَبَارَکَ اللّٰہُ فِیْ مَا اَمْسَکْتَ۔ ‘‘یعنی اللہ تیرے دیے ہوئے کو بھی برکت عطا فرمائے اور جو تو نے پیچھے گھر میں چھوڑا ہے اللہ اس میں بھی برکت دے۔ (تفسیر ابن کثیر ،مطبوعہ دارالاندلس، ج 3، ص 430-431۔تفہیم القرآن ج2، دیباچہ سورۃ توبہ، ص 170 )
حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ، حضرت عباس بن عبد المطلبؓ ، حضرت سعد بن عبادہؓ اور حضرت محمد بن مسلمہؓ انصاری سبھی صحابہ نے دل کھول کر مال پیش کیا اور رسول اللہ نے ان سب کی تعریف بھی کی اور ان کی مغفرت کی دعائیں بھی کیں۔ (مغازی للواقدی ج3، ص991)۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا کارنامہ اتنا بلند ہے کہ خود آنحضورؐ نے بھی ان کی قربانی کی مثال دیکھی تو آپؐ عش عش کر اٹھے اور آپؐ نے جب حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ کچھ اہل و عیال کے لیے بھی چھوڑا ہوتا تو انھوں نے عرض کیا کہ اہل و عیال کے لیے اللہ اور رسول کی محبت چھوڑ آیا ہوں، جو ان کے لیے کافی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے بانگِ درا میں صدیقؓ کے عنوان کے تحت جو نظم لکھی ہے، اس میں حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ دونوں کا تذکرہ کیا ہے، نظم کے آخری اشعار میں انھوں نے آنحضورؐ اور یارِ غارؓ کا مکالمہ یوں منظوم کیا ہے:
بولے حضورؐ چاہیے فکرِ عیال بھی
کہنے لگا وہ عشق و محبت کا رازدار
اے تجھ سے دیدۂ مہ وانجم فروغ گیر
اے تیری ذات باعثِ تکوینِ روزگار
پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس
حضرت عمرؓ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے اس عظیم الشان کارنامے پر کہا ''بخدا نیکی و خیر کے کاموں میں جب بھی مسابقت ہوئی تو ابوبکرؓ سب سے سبقت لے گئے۔‘‘ سچی بات یہ ہے کہ صحابہ سبھی کے سبھی روشن ستارے تھے مگر یارِ غار کا مقام ومرتبہ تو اتنا عالی شان ہے کہ ان کی گرد کو پہنچنا بھی کارِ دارد ہے۔ کئی صحابہ کرام کی مثالیں مورخین نے بیان کی ہیں کہ وہ اپنے پاس سواریاں نہیں رکھتے تھے اور آنحضورؐ نے بھی ان جاں نثاروں سے فرمایا کہ آپ کے پاس ان کو جہاد تک لے جانے کے لیے سواری کا انتظام نہیںہے۔ ایک جانب تو یہ لوگ جہاد سے محرومی کے غم پر روتے تھے ا ور دوسری جانب ان کی یہ کیفیت تھی کہ جتنا کچھ بھی ان کے پاس زادِ سفر تھا، وہ لے کر آتے اور جنگ پر جانے والے مجاہدین میں سے کسی کے سپرد کر دیتے۔ پھر جن صحابہ کے پاس ایک سے زیادہ سواریاں تھیں، وہ ایک سواری اپنے لیے رکھ لیتے اور دوسری سواری اپنے بھائیوں میں سے دو تین کو منتخب کرکے ان کے سپرد کر دیتے کہ تم باری باری اس پر سوار ہوتے رہنا۔ جو لوگ اپنی سواریوں پر جا رہے تھے انھوں نے رضاکارانہ طور پر سواریوں سے محروم صحابہ کو باری باری اپنے ساتھ سوار ہونے میں شامل کر لیا تھا۔ (مغازی للواقدی ج3، ص 991)
جو لوگ جہاد پر جانے سے محرومی کی وجہ سے غم زدہ ہوئے، ان کا تذکرہ قرآن اور حدیث میں ملتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:''ان لوگوں پر کسی اعتراض کا موقع ہے نہ وہ مواخذے کے مستحق ہیں جنھوں نے خود آکر [اے نبی] تم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لیے سواریاں بہم پہنچائی جائیں اور جب تم نے کہا کہ میں تمھارے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کرسکتا تو وہ مجبوراً واپس گئے اور حال یہ تھا کہ اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور انھیں اس بات کا بڑا رنج تھا کہ وہ اپنے خرچ پر شریکِ جہاد ہونے کی مقدرت نہیں رکھتے‘‘ (توبہ9:92)۔ نبی اکرمؐ جب جہاد پر روانہ ہوگئے تو آپؐ نے کچھ منزلیں طے کرنے کے بعد ایک روز مدینہ کی جانب رخ پھیرا اور صحابہ کرام سے فرمایا : ''اِنَّ بِاالْمَدِیْنَۃِ اَقْوَامًا مَاسِرْتُمْ مَسِیْراً وَلَا قَطَعْتُمْ وَادِیاً اِلاَّ کَانُوْا مَعَکُم ‘‘ یعنی مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ تم نے جو وادی بھی طے کی اور جو قدم بھی اٹھائے، اس میں وہ تمھارے شانہ بشانہ رہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو اس مشکل سفر کی آزمائشیں برداشت کر رہے ہیں اور وہ مدینہ میں آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ پھر ہمارے ساتھ ان کی شمولیت کیسی؟ آپؐ نے فرمایا وہ پیچھے رہنے والے نہیں تھے مگر انھیں مجبوری نے روک لیا ہے، حَبَسَھُمُ الْعُذْرُ۔ (صحیح بخاری، کتاب الجہاد والسیر باب من حبسھم العذرحدیث نمبر 2684)۔ گویاان کے دل اہلِ ایمان کے ساتھ تھے اور ان کی مخلصانہ دعائیں بھی ان کے لیے مختص تھیں، اگر وہ مجبور نہ ہوتے تو کب اللہ کے رسول کا ساتھ چھوڑ کر پیچھے بیٹھ جاتے۔