انسان کی مجبوریوں کا ذکر چھڑ جائے تو داستاں در داستاں جاری رہتا ہے۔ آپ سنتے سنتے اور لوگ بیان کرتے کرتے تھک جائیں گے مگر انسان کی مجبوریاں ختم نہیں ہوں گی۔ دنیا بھر میں ماہرین زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کے لیے مختلف مشینیں، آلات اور روبوٹس بنانے میں مصروف ہیں۔ صنعتی شعبے میں روبوٹس سے غیر معمولی حد تک کام لیا جانے لگا ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو ملازمت سے ہاتھ بھی دھونا پڑے ہیں۔ امریکہ، یورپ اور جاپان میں آٹومیشن پر بہت زور دیا جارہا ہے یعنی یہ کہ بیشتر کام خود کار نظام کے تحت ہونے چاہئیں تاکہ انسانوں کی ضرورت کم سے کم پڑے! یہ بھی خوب رہی۔ انسانوں کے لیے جو نظام اپنایا جارہا ہے اس سے انسانوں ہی کو دور رکھا جارہا ہے! صنعتی اداروں میں پروڈکشن لائن کی حد تک تو روبوٹس کا استعمال مستحسن ہے کیونکہ بہت سے کام انسانوں کے لیے انتہائی دشوار ہوتے ہیں جس کے باعث ان کی زندگی ہی خطرے میں نہیں پڑتی بلکہ مزاج بھی بگڑ جاتا ہے، طبیعت میں بھی کجی پیدا ہو جاتی ہے۔ مگر یہ کیا کہ انسانوں سے کام لینے ہی کو اب ترجیح نہ دی جائے؟
دنیا بھر میں ایسے روبوٹس تیار کیے گئے ہیں جو دفاتر میں چند مخصوص نوعیت کے کام کرتے ہیں۔ کہیں کوئی روبوٹ بکنگ کلرک کی حیثیت سے کام کرتا دکھائی دیتا ہے اور کہیں کسی روبوٹ کو استقبالیے پر بٹھادیا گیا ہے۔ بعض مقامات پر روبوٹس ویٹرز اور گھریلو ملازم کا کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔ روبوٹ چونکہ مشینیں ہیں اس لیے ان میں جذبات یا احساسات نہیں پائے جاتے۔ یعنی کہ نہ ان کا موڈ خراب ہوتا ہے اور نہ وہ غیر ضروری طور پر تھکن محسوس کرتے ہیں۔ جو کام دیا جائے اُسے بخوشی انجام دیتے ہیں اور اس بات کے منتظر بھی نہیں رہتے کہ کوئی ان کا شکریہ ادا کرے۔ روبوٹس کی یہ تمام خصوصیات ہی انہیں تیزی سے مقبول بنا رہی ہیں۔
انسان کی ایک بنیادی ضرورت صحتِ عامہ سے متعلق سہولتیں ہیں۔ جب کوئی شدید بیمار پڑتا ہے تو اُس کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے، لوگ خیال رکھیں اور کسی بھی مرحلے پر اُسے تنہا نہ چھوڑیں۔ مگر یہ بھی ایک دل خراش حقیقت ہے کہ لوگ کسی کی دِل جُوئی سے عام طور پر انتہائی گریز کرتے ہیں۔ فراغت کے لمحات میسر ہوں تب بھی کسی کی دِل جُوئی کی خاطر اُس تک پہنچنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں یا پھر یہ کہ ایسا کرنے کو بس ترجیح نہیں دیتے۔
دنیا بھر میں ایسے روبوٹس تیار کیے جارہے ہیں جو کسی بھی وقت آپ کے رفیق یا ساتھی کا کردار ادا کریں گے۔ سنگاپور کے ماہرین نے ایک ایسا روبوٹ تیار کیا ہے جو بالکل انسان نما ہے۔ انسان جیسا دکھائی دینے والا یہ روبوٹ آپ کے ساتھ ساتھ رہے گا، آپ کی دِل جُوئی کرے گا، بیمار پڑنے کی صورت میں آپ کی تیمار داری کرے گا اور جب آپ خوشگوار لمحات سے محظوظ ہو رہے ہوں گے تب یہ روبوٹ آپ کی خوشی میں شریک ہوکر ماحول کو زیادہ خوشگوار بنانے کی کوشش کرے گا۔ یہ روبوٹ جس میٹریل سے تیار کیا گیا ہے وہ انسانی جلد کی طرح ملائم ہے یعنی یہ روبوٹ آپ کو بالکل اپنے جیسا ہی محسوس ہوگا۔ ''ناڈین‘‘ نامی یہ روبوٹ خاتون کی شکل میں ہے۔ قدر ایک اعشاریہ سات میٹر ہے۔ یہ روبوٹ گانا بھی گائے گا، کہانیاں بھی سنائے گا اور طبیعت ناساز ہونے کی صورت میں عمومی نوعیت کے طِبّی مشوروں سے بھی نوازے گا۔
یہ سب کچھ بہت خوش کُن دکھائی دیتا ہے مگر زیادہ خوش کُن
ہے نہیں۔ انسان نُما روبوٹ کی ضرورت تو ہمیں تب پڑنی چاہیے جب دنیا میں انسان نہ پائے جاتے ہوں۔ چاروں طرف انسان ہیں اور دنیا کی انسانی آبادی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ایسے میں انسانوں جیسے روبوٹ تیار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ویسے تو خیر ہر دور کے انسان نے اپنے ماحول کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر پوری دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ زندگی کا سفر آسان ہوجائے مگر اس معاملے میں آج کا انسان واقعی پاگل پن کی حدود کو چُھو رہا ہے۔ زیادہ سے زیادہ آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش الجھنوں میں اضافہ کر رہی ہے۔ کسی معاملے کو انتہائی آسان بنانے کی کوشش ہی اُسے مزید پیچیدہ بنانے کی راہ پر گامزن ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ ترقی یافتہ معاشرے انسانوں ہی سے بیزاری محسوس کر رہے ہیں۔ رُوئے زمین پر انسان جو کچھ بھی کرتا ہے اُس کا بنیادی مقصد صرف یہ ہے کہ تمام انسانوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوں اور دُنیا زیادہ قابل قبول مقام میں تبدیل ہو۔ مگر کیا کیجیے کہ دنیا کو سنوارنے کی بیشتر کوششیں انسانوں کو ایک طرف ہٹا رہی ہیں۔ انسان ہی کو منظر سے غائب کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ جس کام کے لیے انسانوں کو
تربیت دی جاسکتی ہے اور پھر اُن کی خدمات سے بخوبی استفادہ کیا جاسکتا ہے اُسی کام کے لیے روبوٹ تیار کیے جارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سب کچھ روبوٹس کے حوالے کردیا جائے گا تو انسان کہاں جائیں گے؟
اِس دنیا کو بہتر بنانے کی ہر کوشش خود انسان کو بہت پیچھے دھکیل رہی ہے۔ بہت آگے نکلنے کی دُھن میں انسان بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں کی روش خطرناک حد تک سنگین اور انسان دُشمن ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ چند اعلیٰ و اشرف انسانوں کے لیے ایسا ماحول تیار کریں جس میں اُن کی ہر خدمت انجام دینے کے لیے روبوٹس موجود ہیں۔ باقی دنیا کے انسانوں کا کیا ہوگا یا کیا ہونا چاہیے اِس سے اُنہیں بظاہر کچھ غرض نہیں۔
ہر معاملے میں جدت طرازی کا جادو جگانے کی دُھن میں انسان اُس مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں اُسے خود اپنا وجود بہت بُرا لگنے لگا ہے۔ یہ جدید دور کا عالمگیر المیہ ہے۔ مشینوں کو اپنے جیسے دوسرے بہت سے انسانوں پر ترجیح دے کر اپنی ہی جڑ کاٹی جارہی ہے۔ گویا آج کے انسان نے طے کرلیا ہے کہ کچھ بھی محسوس نہ کرنے والی مشینوں اور آلات کی صحبت اختیار کرنا ہے۔ یہ کیفیت برقرار رہی تو رُوئے زمین کی دیگر مخلوق کل کو آپس میں سوال کرے گی کہ انسان دکھائی نہیں دے رہا، کہاں رہ گیا؟