جس معاشرے میں عدمِ تحفظ کا اتنا شدید احساس، اس قدر احساسِ کمتری اور دولت کی ایسی ہوس ہو، اسے اگر نواز شریف اور زرداری نہ ملیں گے، ڈاکٹر عاصم اور خواجہ سعد رفیق نہ ملیں گے تو اور کیا نصیب ہو گا؟ جیسا دودھ، ویسا مکھن۔
شاذ و نادر صوفی میں جلال بھی جھلک اٹھتا ہے۔ شب و روز وگرنہ جمال ہی جمال۔ میرے ایک گلہ مند دوست سے فون پر استادِ گرامی بات کر رہے تھے۔ کہا: ہارون الرشید روپیہ تمہیں بھیج دے گا۔ اپنے دوستوں کے ساتھ بہرحال وہ پیسے سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ ازراہ مزاح پھر یہ کہا: مجھے کبھی پیسے نہ دے گا۔ ان کی بات درست تھی‘ حالانکہ جو روپیہ ان کے ہاتھ لگے وہ سب کا سب اللہ کی مخلوق پہ صرف ہوتا ہے اور بہترین انداز میں۔ مہمانوں کی مدارات، غریبوں اور بے نوائوں کی دیکھ بھال۔ وہ بھی انس اور الفت کے ساتھ۔ زندگی میں اگر کسی کو دولت کے بارے میں بے نیاز پایا تو عارف کو پایا۔ روپیہ بہت ہو، کم یا جیب خالی ہو، ایک دریا سا بہتا ہے۔ سرکارؐ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ہمیشہ فیاض ہوتے۔ رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو ایثار میں ہوا کی سی روانی آ جاتی۔ مسلمانوں کی تاریخ یہ کہتی ہے کہ یہ وصف بکمال و تمام اگر کسی میں جلوہ گر ہوا تو صوفیوں ہی میں۔
میرے دوست سے میرے بارے میں انہوں نے یہ بھی کہا: کسی کو کیا معلوم کہ اس شخص نے زندگی میں کتنی ریاضت کی ہے۔ یہ جملہ دہرایا تو تعجب ہوا۔ ایک زمانہ ایسا ضرور گزرا ہے کہ جی جان سے کام کیا۔ بعض اوقات اتنی دیر تک کہ جسم دکھنے لگتا۔ دو اسباب تھے۔ اول خوف تھا، شہر لاہور میں اپنا کوئی شناسا نہ تھا۔ بھوک اور بے روزگاری کا اندیشہ۔ ثانیاً طبیعت حسّاس پائی تھی۔ طعنہ کیا‘ تنقید کی تاب نہ تھی۔ رفتہ رفتہ ریاضت میں لطف محسوس ہونے لگا۔ اللہ کی رحمت سے ایسے دن بھی آئے کہ کلیجہ نکال کر کاغذ پر رکھ دیا۔ اس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو ایک ایک جملے، ایک ایک لفظ کو جانچا اور پرکھا۔ پروردگار کی بے پایاں عنایات کا شکر ادا کرنا ممکن ہی نہیں۔ گاہے ایسا لکھنے کی توفیق بھی بخشی کہ خود وجد میں آئے اور دوسرے بھی۔ خود روئے اور دوسروں کو رلایا۔ خود عَلَم لے کے اٹھے اور دوسروں کو لہراتے دیکھا۔ اس آدمی کی زندگی میں یہ ایک معجزہ تھا، میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد جو صرف چند ہفتے کالج گیا۔ جس کی انگریزی آج بھی واجبی ہے، عربی اور فارسی اس سے بھی کم۔ فقط اردو میں جی لگایا مگر اللہ نے صحبتِ سعید عطا کی۔ آدمی کی بھی‘ کتاب کی بھی۔ طبع کو روانی بخشی۔ شعر اور کہانی کی محبت عطا کی۔ لفظ کے در و بام پر دستک دینا سکھایا اور الفاظ کے باہمی رشتوں سے آشنا کیا۔ چاند ستاروں، پھولوں، جنگلوں، ریگ زاروں اور نیلے آسمان میں انہماک عطا کیا۔ پرندوں کی پرواز اور بادلوں میں، بارشوں کے برسنے، صبحوں کے طلوع اور شاموں کے بجھنے میں جمال ہوتا ہے۔ بچوں کی کلکاریوں میں، ان سے اگر شغف نہ ہو تو تحریر میں نہیں ہو گا، موسیقی اور مصوری میں بھی نہیں۔
پروفیسر صاحب کا شکریہ تو کیا ادا کرتا کہ اس رسم کے وہ قائل ہیں اور نہ یہ گنوار عادی۔ ایک بات مگر ان سے کہی: اللہ نے بخل سے نجات دی تو ہن برسنے لگا۔ سب سے بڑی نعمت یہی ہے کہ کنجوسی سے آدمی بچا رہے۔ توکّل نہ ہو تو فیاضی کیسی۔ رشتے ناتے اگر روپے پیسے سے زیادہ عزیز نہ ہوئے تو برکت کہاں؟ وہ ایّام یاد آئے، گاہے جب سینت سینت کر رکھنے کا خیال آتا۔ عارف کی صحبت کے طفیل جب بخل میں کمی آئی تو ضرورت کیا، اللہ نے لٹانے کے لیے مال دیا؛ اگرچہ بخل سے مکمل نجات صرف درویش کو نصیب ہوتی ہے، عالموں کو نہیں اور مولوی تو پرلے درجے کے حریص ہوتے ہیں۔ صرف دولت کے نہیں، مقبولیت کے بھی، ریا کار، ریا کار۔
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینے میں بنا لیتی ہے تصویریں
1995ء میں پروفیسر احمد رفیق اختر سے جب ملاقات ہوئی تو میری تنخواہ اچھی تھی۔ اس وقت بھی اِس ناچیز کا شمار قابلِ ذکر اخبار نویسوں میں ہوتا تھا مگر اس کے بعد ابر برسنے لگا اور برستا ہی رہا۔ خاص طور پر 2000ء کے بعد جب میرے چھوٹے بھائی محمد امین نے ایک مسنون دعا مجھے سکھائی۔ اللھم اغفرلی ذنبی و وسع لی فی داری و بارک لی فی رزقی۔ اے اللہ میرے گناہ بخش دے اور میرے گھر میں وسعت دے اور میرے رزق میں برکت عطا فرما۔ وضو کے لیے بازوئوں پر پانی ڈالتے ہوئے یہ دعا پڑھی جاتی ہے۔ اس کے بعد تنگ دستی کا کوئی سوال ہی نہیں رہتا۔ ایک اور دعا حرام سے بچنے کے لیے: اللھم اکفنی بحلالک عن حرامک و اغننی بفضلک عن من سواک۔ اے اللہ حلال کو میرے لیے کافی کر دے۔ حرام سے محفوظ رکھ، اپنے فضل سے غنی کر دے۔
ایک بار ایک چینل کے سربراہ ملے۔ حج میں ملاقات ہوئی تھی۔ 9 بجے کے خبرنامے میں چند جملوں کے تبصرے کی فرمائش کی۔ بخوشی میں نے قبول کر لی۔ بولے: زیادہ خدمت تو نہیں کر سکتا، پانچ لاکھ ماہوار بھجوا دیا کروں گا۔
لاہور میں عسرت کے ایام دیکھے، جب سونے کے لیے جگہ میسر نہ ہوتی۔ کئی بار گول باغ میں سوئے، دوستوں کے ہاں بارہا۔ ایک بار بس سٹاپ کے بنچ پر بھی۔ پھر فراوانی کے وہ دن بھی دیکھے کہ دوسروں نے رشک کیا اور خود نے حیرت۔ خلاصہ یہ ہے: ضرورتیں پوری کرنے کے سوا روپیہ کسی کام نہیں آتا۔ روپے سے کرامت ہو سکتی ہے، اگر اللہ دوسروں پر خرچ کرنے کی توفیق دے۔ ایسے لوگوں کو قرآنِ کریم ولی اللہ کہتا ہے اور یہ کہتا ہے: لا خوف علیہم ولا ھم یحزنون۔ وہ خوف اور غم سے آزاد کر دیے جائیں گے۔ صرف دوسری دنیا میں نہیں، مشاہدہ کہتا ہے کہ اس دنیا میں بھی۔ روپیہ کمانے کی خواہش اور جسمانی لذتوں کی آرزو گناہ نہیں۔ فقط حرام اور حلال کا امتیاز چاہیے۔ ایک یہ ہے کہ آدمی اپنی خواہشوں کی پیروی کرے۔ دوسری یہ کہ قدرت کے قوانین کو ملحوظ رکھے۔ بڑی نعمت علم ہے، شکر گزاری ہے، انکسار ہے، عفو و درگزر ہے، صحت مندی۔ فرمایا: ذکر کرنے والی زبان، شکر کرنے والا دل، مشقت کرنے والا بدن اور باوفا شریکِ حیات جسے حاصل ہے، کسی اور چیز کی اسے ضرورت نہیں۔ خود ترحمی سے اگر آدمی بچ جائے اور ایک بات سمجھ لے تو پرندے کی طرح آزاد ہو گیا۔ Simplicity is the ultimate sophistication آخری اعجاز سادگی ہے۔
تحریکِ انصاف کے لیڈر علیم خان کی بھی سمندر پار ایک کمپنی نکل آئی۔ شاید وہ بچ نکلیں۔ صرف اس لیے نہیں کہ ٹیکس بچانے کے لیے چھپائی نہیں بلکہ اس لیے بھی کہ طبعاً وہ فیاض ہیں۔ میرا خیال ہے کہ شریف خاندان کی تاریخ کا آخری باب لکھا جا رہا ہے۔ دوسری وجوہ کے علاوہ اس لیے کہ دولت سے انہیں محبت ہے۔ اقتدار سے بھی۔ غریبوں پہ انہیں رحم نہیں آتا۔ میاں صاحب کے کم از کم دو ملازموں کو میں نے روتے پایا۔ دخترِ دوست کی شادی پر جانے سے پہلے میاں صاحب نماز پڑھ رہے تھے۔ دو ماتحتوں میں بحث تھی کہ تحفے کا قالین سرکاری ہو گا یا ذاتی۔ سلام پھیرا اور فرمایا: ذاتی کا کیا سوال؟ لندن کے جن ہوٹلوں سے مہمانوں کے لیے کھانا آیا، اگر تکلفاً کسی نے بل وصول کرنے سے انکار کر دیا تو بعد میں بار بار اسے پچھتانا پڑا۔ جنرل آغا محمد یحییٰ خاں کے سوا آصف علی زرداری اور نواز شریف کی حکومتیں شاید پاکستانی تاریخ کی بدترین حکومتیں تھیں۔ عمران خان سے بھی کچھ زیادہ امید نہیں۔ ان کے ارد گرد بھی عیار بہت ہیں۔ تاریخ کے چوراہے پر یہ قوم سوئی پڑی ہے۔ دانشور بھی، جو نہیں جانتے کہ معاشرے کی بہتری کے بغیر اچھے حکمران کبھی نصیب نہیں ہوا کرتے۔
جس معاشرے میں عدمِ تحفظ کا اتنا شدید احساس، اس قدر احساسِ کمتری اور دولت کی ایسی ہوس ہو، اسے اگر نواز شریف اور زرداری نہ ملیں گے، ڈاکٹر عاصم اور خواجہ سعد رفیق نہ ملیں گے تو اور کیا نصیب ہو گا؟ جیسا دودھ، ویسا مکھّن۔