15 اپریل کو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان نے کور کمیٹی کے ایک اہم اجلاس کے فیصلوں کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ پارٹی کی تمام تنظیموں کو تحلیل کر دیا گیا ہے‘ اور اب بلاول نے عوام اور پارٹی کارکنان کے سامنے ایک چھ نکاتی سوالنامہ پیش کیا ہے‘ جس میں پارٹی کے احیا‘ اس کو دوبارہ فعال اور بڑی سیاسی قوت بنانے کے لیے تجاویز مانگی گئی ہیں۔ سوالات وہی پرانے ہیں، جواب میں کارکنان یا پارٹی کے ہمدردوں کی کتنی دلچسپی اور ولولہ ہے‘ اس کا اندازہ بھی طویل عرصے سے چلی آ رہی پارٹی قیادت کی مصالحانہ پالیسیوں اور نظریاتی انحراف سے پھیلنے والی وسیع بددلی سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان سوالات میں پیپلز پارٹی کے بنیادی مقاصد، عوام سے رابطوں کے لائحہ عمل، درپیش چیلنجوں کا سامنا کرنے، انتظامی ڈھانچوں کی ترتیب و طریقہ کار اور پارٹی کی اقتصادی، سماجی و سیاسی ترجیحات کے بارے میں آرا طلب کی گئی ہیں‘ لیکن سب سے اہم اور فیصلہ کن نکتہ اس سوالنامے میں نہیں ہے کہ پارٹی کی نظریاتی بنیاد کیا تھی‘ کیا ہے اور کیا ہونی چاہیے؟ لیکن اگر یہ سوال کر بھی دیا جاتا تو اس سے کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں تھا۔
سوالات اٹھانے کا پروپیگنڈا اور جمہوری بحث کی نعرے بازی وغیرہ یورپی سوشل ڈیموکریسی کے مخصوص پرانے ہتھکنڈے ہیں۔ وہ رائے تو سب کی لے لیتے ہیں، سب کچھ بولنے کے لیے پلیٹ فارم بھی مہیا کرتے ہیں‘ لیکن حتمی فیصلے انہی کے ہوتے ہیں جو قیادت پر براجمان ہوں۔ ایسے میں بولنے کی آزادی محض ڈھونگ ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی تمام تنظیمیں تو تحلیل کر دی گئی ہیں‘ لیکن اب بھی قیادت کی سرگرمیاں اور پارٹی کے اخراجات وہی افراد چلا رہے ہیں‘ جن کی دولت نے پارٹی کو اس نہج پر پہنچایا ہے۔ ایک انقلابی یا ریڈیکل سیاست میں پارٹی قیادت عوام اور کارکنان کی
حمایت جیت کر انہیں متحرک کرتی ہے‘ اور تحریکوں کو لائحہ عمل اور قیادت دینے کے قابل بناتی ہے۔ قیادت کی اہم ترین خصوصیات میں عاجزی، عوام کے شعور کی پرکھ اور وقت اور حالات کے ساتھ اس میں آنے والی تبدیلی کا ادراک، شامل ہوتے ہیں۔ روس میں اکتوبر انقلاب کے قائد ولادی میر لینن عوام کے شعوراوراس میں ہونے والی تبدیلیوں اور تناظر کی گہری پرکھ رکھتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ محنت کش طبقے کی ہراول اور پسپا یا پسماندہ پرتوں کو جوڑنے کے لیے لینن نے جو پروگرام ترتیب دیا تھا وہ تحریک کے اتار چڑھائو اور انقلابی پیش قدمی میں کامیاب رہا ۔ کسی حد تک یہ اہلیت پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو میں بھی موجود تھی اگرچہ وہ کوئی مارکسسٹ نہیں تھے ۔ انہوں نے دوسرے سیاسی رہنمائوں کے برعکس 1967ء میں جو انقلا بی سوشلزم کا پروگرام دیا وہ 1968-69 ء کی انقلابی تحریک کی اُمنگوں اور جستجو سے ہم آہنگ تھا ۔ اسی کی بنیاد پر بھٹواورپیپلز پارٹی اس تحریک کی قیادت میں آکر کئی نسلو ں کے لئے اس ملک کے محنت کشوں کی سیاسی روایت بن گئے، لیکن پیپلز پارٹی کا بنیادی پروگرام اس تحریک کے دھماکہ خیز انداز میں آغاز سے پہلے پیش کیا گیا تھا، اور یہی سب سے اہم عنصر ہوتا ہے کہ آپ واقعات کے جنم لینے سے پہلے ان کے لئے درست لائحہ عمل تشکیل دیں۔
پیپلز پارٹی چونکہ کیڈروں پر مشتمل کوئی لینن اسٹ یا بالشویک پارٹی نہیں تھی اس لیے تحریک کو سوشلسٹ انقلاب کی منزل سے ہمکنار نہیں کرسکتی تھی، تاہم انقلابی طوفان کے تھپیڑوں سے ریاست اور حکمران طبقات اتنے گھائل اور بے بس ہوچکے تھے کہ وہ اقتدار پیپلز پارٹی کودینے پر مجبورتھے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کی حدود و قیود میں حاصل کردہ اقتدار میں اصلاحات ہی کی جا سکتی تھیں، اگرچہ پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں ان کی گنجائش بھی انتہائی محدود ہوتی ہے۔ بھٹو اور پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے اپنے ابتدائی عرصے میں نہایت ہی ریڈیکل اصلاحات کرنے کی کوشش کی، اس سے عوام کو کچھ سہولیات بھی حاصل ہوئیں لیکن چونکہ نظام میں ان اصلاحات کو برقرار رکھنے کی اقتصادی گنجائش ہی نہیں تھی اس لیے یہ عمل جلد ہی ناکام ہونے لگا۔ اس دوران تحریک کا دبائو ماند پڑنے لگا تھا اور پارٹی قیادت کا جھکائو دائیں جانب ہونے لگا جس سے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے لئے دروازے کھلنے لگے۔ پارٹی میںسوشلزم کو''اسلامی سوشلزم‘‘ بنانے، سوشلسٹ معیشت کو ''مکسڈ اکانومی‘‘ اور محنت کشوں کو مسلح کرنے کی بجائے''اسلامی ایٹم بم‘‘ کی پالیسی جیسے رجحان حاوی ہونے لگے ۔اس نظریاتی انحراف سے بہتری ہوئی نہ ہو سکتی تھی، الٹاعوام میں پھیلنے والی بددلی سے بھٹو حکومت کمزور پڑ کے شدید بحران کا شکار ہو گئی۔ موقع ملنے پر ریاست، حکمران طبقات اور سامراج نے اپنے نظام پر ہونے والے وار کا انتقام لیا اور ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کر دیا گیا۔لیکن کم از کم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی آخری تحریر میں اس انحراف اور اس کے انجام کو تسلیم کرتے ہوئے تنبیہہ کی کہ ''میں اس آزمائش میں اس لئے مبتلا ہوا ہوں کہ میں نے دو متضاد طبقات کے درمیان مصالحت کروانے کی کوشش کی...طبقاتی جدوجہد نا قابل مصالحت ہے اور ایک طبقے کی دوسرے طبقے پر فتح پر ہی منتج ہو گی۔‘‘
جو ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل نہیں کرتے وہ ان کو دہرانے کے مرتکب ہوتے ہیں۔اگر بلاول صاحب نظریاتی انحراف، این جی اوز اور اصلاح پسندی کی سیاست سے پارٹی کا احیا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اسی سیاست نے ہی پارٹی کو اس نہج تک پہنچایا ہے ۔ ان کے مشیروں میں بھی زیادہ تر بائیں بازو کے اصلاح پسند اور دائیں بازو کے افراد شامل ہیں ۔ اصلاح پسندی آج دنیا بھر میں ناکام ہے۔ یورپ میں بہت سی ''سوشلسٹ‘‘ اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں کا اس اصلاح پسندانہ نظرئیے کی وجہ سے جو حشر ہو ا، وہ ہمارے سامنے ہے ۔ 1986ء میں ان بائیں بازو کی اصلاح پسند پارٹیوں کو 40 فیصد سے زیادہ ووٹ پڑے تھے، 1996 ء میں یہ کم ہو کر 40 سے30 فیصد ہوگئے۔ 2006ء میں یہ شرح 10 سے20 فیصد رہ گئی جو 2016ء میں 10 فیصد سے بھی کم ہوگئی ہے۔ اس تنزلی کی وجہ پھر بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی بحران کی وہ شدت ہے جس کے تحت یہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹیاں عوام کو حاصل ریاستی سہولیات کے خاتمے کی پالیسیوں پر گامزن ہیں۔
اگر آج پاکستان میں کوئی بڑی عوامی بغاوت یا انقلابی تحریک نہیں ہے تو یہ کل اتنی ہی شدت سے بھڑک بھی سکتی ہے۔ اگریورپ کی ترقی یافتہ سرمایہ داری عوام کو سہولیات دینے سے قاصر ہوچکی ہے تو پاکستان جیسی بوسیدہ سرمایہ داری سے کیا امید وابستہ کی جا سکتی ہے؟ پیپلز پارٹی کی قیادت اگر اپنی اسی ڈگر پر چلتی رہی تو کل ابھرنے والی تحریک ان کو مسترد کرکے آگے بڑھ جائے گی۔ آخری تجزیے میں پارٹیاں نظریات کی بنیاد پربنتی اور بکھرتی ہیں ۔ ہمارے جیسے ممالک میں عارضی طور پر نظریات کسی فرد کی صورت میں تشخص ضرور بناتے ہیں لیکن تشخص ایک وقت میںآکر مٹ جاتے ہیں۔ سچے سائنسی نظریات کبھی نہیں مرتے۔پیپلز پارٹی ایک تحریک کی پیداوار تھی اور اس کے انجام کا حتمی فیصلہ بھی ایک تحریک ہی کرے گی۔
پیپلز پارٹی سے ہٹ کر بھی کسی نئی شکل میں بائیں بازو کی ریڈیکل اصلاح پسندی شاید وقتی طور پر کچھ مقبولیت تو حاصل کر لے لیکن انجام وہی کیفیت ہے جس میں آج پیپلز پارٹی موجود ہے۔ اس کی مماثلت یونان کی حالیہ صورتحال سے قائم کی جا سکتی ہے۔ وہاں پیپلز پارٹی کی طرح عوام کی سیاسی روایت کا درجہ رکھنے والی پارٹی 'پاسوک‘اسی قسم کی وجوہ کے تحت پِٹ گئی تو اس کی جگہ زیادہ بائیں بازو کی 'سائریزا‘ ابھری۔ اس کے پہلے وزیر خزانہ یانس واروفاکس نے جب سرمایہ داری میں رہتے ہوئے اس کے خلاف اقدامات کرنے کی کوشش کی تو یورپ کے سامراجی ناخدائوں نے پارٹی لیڈر سپراس کے ذریعے اسے برطرف کروا دیا۔آج بائیں بازو کے ریڈیکل نعروں پر ابھرنے والی سائریزا اسی نظام کا زہریلا اوزار بن کر عوام پر پے درپے معاشی حملے کر رہی ہے۔وارو فاکس کے مطابق ''سائریزا اب محض نئی پاسوک ہی بن کر رہ گئی ہے۔‘‘
پچھلے 40 سال میں پیپلز پارٹی کی قیادتوں نے اس بحر کی موجوں سے اضطراب ختم کردیا ہے۔اس اضطراب سے آشنائی کوئی انقلابی طوفان ہی کروا سکتا ہے ، لیکن اس کا پہلا نشانہ پارٹی پر براجمان دھن دولت والے ہوں گے۔