کل ہمارے ایک دیرینہ نیاز مند عادل فاروق کا فون آ گیا کہ آپ لوگوں نے خواہ مخواہ ایک ہنگامہ کھڑا کر رکھا ہے‘ ساری دنیا کو معلوم ہے کہ تصویر بناآتی ہے والا شعر مومن خاں مومن کا ہے۔ میں نے کہا‘ کیا ثبوت ہے تو بولے کہ مجلس ترقی ادب والوں نے جو مومن کا دیوان چھاپا اس میں یہ شعر موجود ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کا کہہ دینا کافی نہیں ہے۔ آپ وہ غزل نکال کر مجھے سنائیں جس میں یہ شعر موجود ہے تو بولے کہ ابھی تھوڑی دیر تک کتاب دیکھ کر بتاتا ہوں کچھ دیر بعد موصوف کا فون آیا تو بولے‘ آپ ٹھیک کہتے تھے۔ وہ شعر یہاں موجود نہیں ہے! ویسے‘ کچھ اور دوست بھی یہ تنازعہ طے کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں‘ جو اس کا کوئی سراغ ملتے ہی مجھے اطلاع دیں گے۔ البتہ ہمارے ایک اور کرمفرما جناب ہمایوں ہما نے مردان سے میسج کیا ہے کہ معذرت کے ساتھ‘ ہم کن فضول کاموں میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اگر یہ شعر غالب کا نہیں‘ شیفتہ کا ہے‘ یا اگر دونوں کا نہیں تو کون سی قیامت آ جائے گی‘ یا پھر دنیا میں کوئی انقلاب برپا ہو جائے گا۔
آپ ٹھیک فرماتے ہیں‘ واقعی یہ ہم جیسوں کے چونچلے ہیں جن کے پاس وقت فالتو اورمفت کا ہے۔ مثلاً اگر اقبال کی نظم قرطبہ غالب کے کھاتے میں ڈال دی جائے۔ منٹو کا افسانہ ''کھول دو‘‘ کرشن چندر کا قرار دے دیا جائے یا کسی گمنام مصنف کے ماتھے مڑھ دیا جائے تو کون سی قیامت برپا ہو جائے گی‘ یا اگر میر‘ غالب‘ اقبال‘ منٹو‘ انتظار حسین اور فیض وغیرہ نہ ہوتے تو کون سا انقلاب آ جانا تھا۔ لہٰذا بہتر ہے کہ آپ اپنا قیمتی وقت بچا کر رکھیں اور ایسی بے معنی چیزوں کے حوالے سے میسج کر کرکے اسے ضائع نہ کریں۔ باقی ‘ جہاں تک قیامت کا تعلق ہے تو اسے اپنے وقت مقررہ پر آنا ہے‘ وہ ہم آپ سے پوچھ کر نہیں آئے گی۔
کسی مہربان نے ممتاز بھارتی شاعر بشیر بدر کے دو بہت مزیدار شعر بھجوائے ہیں۔ ان کا یہ شعر تو سالہا سال سے ضرب المثل چلا آ رہا ہے کہ ؎
اُجالے اپنی یادوںکے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
یا‘ ان کا ایک اور شعر میرے حافظے میں محفوظ ہے کہ ؎
محبتوں میں کوئی رنگِ دوستی نہ ملا
اگر گلے نہیں ملنا تو ہاتھ بھی نہ ملا
اور یہ ایک عجیب بات ہے اور مجھے اس کا افسوس بھی ہے کہ اس کے علاوہ میں موصوف کے پورے کلام سے محروم چلا آ رہا ہوں۔ پچھلے دنوں انتظار حسین جنہیں مرحوم لکھنے کو جی نہیں چاہتا‘ نے اپنے ایک کالم میں اطلاع دی تھی کہ بشیر بدر کا کہنا ہے کہ ان کے کلام میں غالب سے بھی کہیں زیادہ تعداد میں غالب ہی کے معیار کے اشعار موجود ہیں۔ تب سے ان کا کلام دیکھنے کا اشتیاق مزید بڑھ گیا ہے۔ اگر پاکستان میں کسی کے پاس ہو اور وہ عاریتاً عنایت کر سکتے ہوں تو میں بے حد شکر گزار ہوں گا۔ نہ ہی میرے پاس ان کا ایڈریس موجود ہے کہ خود ان سے درخواست کر سکوں۔ اور پھر ڈاک کی ترسیل بھی تو روز بروز مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ تقسیم ملک نے شعر و ادب کو بھی تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ اور اب ان کے یہ شعر دیکھیے:
تھا میرؔ جن کو شعر کا آزار مر گئے
غالبؔ تمہارے سارے طرفدار مر گئے
اب شعر میں جہاد ہے روزہ نماز ہے
جتنے بھی شاعری کے تھے کُفّار مر گئے
خدا کا شکر ہے کہ بھارت میں بھی مجھ سے محبت کرنے والے کم نہیں ہیں جن میں لیاقت جعفری (سری نگر) غالباً سب سے آگے ہیں۔ سو‘ ان کی یا کسی اور بھارتی دوست کی نظر سے یہ کالم گزرے تو وہ میری یہ مشکل آسان کر سکتے ہیں۔ حق تو یہ تھا کہ یہاں پاکستان میں بھی ان کے کلام کی اشاعت ممکن ہوتی جیسا کہ ماہنامہ ''فانوس‘‘ والے ہمارے دوست نچندا باقی ؔ کا کلیات شائع کر رہے ہیں اور شاید اب تک شائع ہو بھی چکا ہو۔
یاد آیا‘ رنگِ ادب پبلی کیشنز کراچی والے ہمارے دوست شاعر علی شاعر کم و بیش سبھی قابل ذکر بھارتی شعراء کا کلام شائع کرتے رہتے ہیں بلکہ یہاں یہ کام شاید ان کے علاوہ اس اہتمام سے کسی بھی اور نے نہیں کیا۔ حیرت ہے کہ انہوں نے بشیر بدر جیسے شاعر کو ہم سے ابھی تک متعارف نہیں کرایا۔ شاید اب وہ کچھ توجہ فرمائیں۔
جگہ بچ گئی ہے اور کالم تمام ہو چکا ہے‘ اس لیے آج واقعتاً خانہ پُری مطلوب ہے‘ سو اپنی یہ ناکارہ سی غزل حاضر ہے جبکہ اس پر تازہ ہونے کی تہمت بھی لگائی جا سکتی ہے۔
ابھی خاموش رہنا تھا مگر اظہار کر ڈالا
جو تھا دشوار اس کو اور بھی دشوار کر ڈالا
یہ کیسی نیند کی نیلم پری تھی جس نے کچھ کہہ کر
ابھی سویا ہی تھا میں اور مجھے بیدار کر ڈالا
جو دیکھا تو نہیں تھا کچھ بھی اس کی دوسری جانب
وہ دریا میں نے جانے کسی خوشی میں پار کر ڈالا
جہاں پر چھائوں تھی پھیلی ہوئی اشجار کی ہر سُو
وہیں میں نے بھی اپنا سایہ دیوار کر ڈالا
بالآخر شہر والوں نے ہماری عیب جوئی سے
چلو‘ اچھا ہے‘ کچھ تو آپ کو ہشیار کر ڈالا
ہمیں تھا اس قدر پرہیز دنیا دار ہونے سے
کہ اپنے ساتھ اسے بھی ہم نے دنیا دار کر ڈالا
تمہارے گلکدے میں چار دن کی سیر تھی ایسی
میں کیا بتلائوں‘ اس نے تو مجھے بیمار کر ڈالا
گزرتے بھی ہیں سب اس پر سے‘ باتیں بھی بناتے ہیں
مگر میں خوش ہوں کچھ تو راستا ہموار کر ڈالا
ظفرؔ‘اس عشق نے دکھلائے ہیں دونوں ہی رنگ اپنے
کبھی ہمت بندھائی اور کبھی لاچار کر ڈالا
آج کا مقطع
وہ ابر اب بھی گرجتا ہے میرے سر میں‘ ظفر
ابھی لہو میں وہ بجلی کہیں چمکتی ہے