تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     21-04-2016

ایک پائو گوشت کے لیے!

با بائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے آخری دنوں کی داستان کے بارے میں روزانہ پوچھا جاتا ہے۔ پاکستانیوںکے دل میں اپنے قائد کی عزت سب سے بڑھ کر تھی۔ قائد کا ہر قول اور فعل ان کی عظمت کا مظہر تھا۔ وہ بستر مرگ پر بھی نواب آف بہاولپورکو کراچی میں رہائش کے لئے فون کرنے کو تیار نہ تھے۔ ڈاکٹر چاہتے تھے کہ قائدکوئٹہ کی بجائے کراچی میں رہیں جہاں نواب صاحب کا ایک گھر تھا۔ قائدکے انکار کے بعد مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے لندن نواب صاحب کو فون کیا اورطے پایا کہ اس کی خبر قائد کو نہ ہونے دی جائے گی۔ کچھ احباب وزیراعظم نہرو، بیدی اور جوش کی کہانی کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ روزانہ ای میلز ملتی ہیں، ٹوئٹر پر بھی پوچھا جاتا ہے۔
یقین کریں دل بجھ سا گیا ہے۔ سوچ رہا ہوں، یہ سب پڑھنا بند کروں۔ برسوں پہلے شائع ہونے والی یہ کتابیں مجھے آج کے معاشرے سے توڑ رہی ہیں، اپنے اردگرد رہنے والے انسانوں سے دور کر رہی ہیں۔ شاید میں آئیڈیل ازم کا شکار ہو رہا ہوں۔ شاید دن میں خواب دیکھنے لگا ہوں۔ شاید میں قائداعظم اور نہرو جیسے لیڈروں کی تلاش میں ہوں جو اپنی اپنی قوم کو بحران سے نکالیں۔ کیا انسانوں کی طرح اخلاقی اقدار کی بھی ایک طبعی عمر ہوتی ہے؟ کیا ہمارے ہاں اقدار مرگئی ہیں؟ کیا ہمارے ہاں قائد اعظم اور نہروکے بعد اقدار کا جنازہ نکل گیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ انسان اپنی طبعی عمر پوری کرکے مرتا ہے تو نیا بچہ جنم لیتا ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں ایسی نئی اقدارجنم کیوں نہیں لے رہیں جو ماضی کی اقدار سے بھی زیادہ اچھی ہوں، جنہیں ہمارے آنے والی نسلیں اسی طرح یاد کریں جیسے آج ہم قائد اور نہروکو یاد کرتے ہیں؟
آپ سوچیں گے، میںکیا ماضی کی راگنی لے کر بیٹھ گیا ہوں۔ یہ ستر برس پہلے کی داستانیں ہیں، اس وقت کی اخلاقی اقدار یہی ہوتی ہوںگی جو آپ نے نہرو اور قائد اعظم کی پڑھیں یا جو ابھی پڑھنا باقی ہیں۔ آج کی اپنی اقدار ہیں، آج حکمران بھی ویسے ہوگئے جیسے عوام ہیں۔ لیکن کیا ماضی کے لیڈروں اور آج کے سیاستدانوں کا موازنہ کرنا زیادتی نہ ہوگی؟ کیا قائداعظم کا موازنہ نواز شریف سے کیا جائے؟ کہاں قائداعظم جو ڈاکٹر الہی بخش کے اصرار پر بھی ایک اور پاجامہ خریدنے کو تیار نہیں تھے؛ حالانکہ وہ اپنے وقت کے ایک امیر ترین انسان تھے۔ نواز شریف کے بچوں کے لندن میں کروڑوں پائونڈ مالیت کے فلیٹ ہیں، دنیا بھر میں آف شورکمپنیاں ہیں۔ وزیراعظم کا داماد علی ڈار اس وقت دبئی کا امیر ترین شخص ہے جبکہ صرف دو برس قبل اس کے والد اسحاق ڈار نے اسے کاروبار کرنے کے لئے اکتالیس کروڑ روپے بطور قرض حسنہ دیا تھا۔ صرف دو برس بعد علی ڈار آدھا دبئی خرید رہا ہے۔ 
نہرو کا موازنہ بھارتی وزیراعظم مودی سے کیسے کیا جائے؟ وہ نہرو جو دلی کی گلیوں میں دیوانہ وار بھاگ رہا تھا کہ مسلمانوں کو قتل مت کرو۔ جو سکھوں اور ہندوئوں کو پیشکش کر رہا تھا کہ مسلمانوں کو مارنا بند کرو، جو کہوگے مان لوں گا۔ آج ہندوستان کا وزیراعظم مودی ہے جس کی ریاست میں مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا۔ وہ آج تک مسلمانوں کے قتل عام کی مذمت کرنے سے انکاری ہے۔ کیا وزیراعظم مودی کا موازنہ گاندھی سے کیا جائے جو ہندوستان کی حکومت کو ان مسلمانوں کے گھر پاکستان سے جانے والے ہندوئوں کو الاٹ کرنے سے روک دیتے ہیں کہ وہ خود جا کر ان مسلمانوں کو منا کر واپس لائیں گے؟
بربادی ہندوستان اور پاکستان دونوں میں آئی۔ اخلاقیات و اقدار مر گئیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ ابھی ہندوستان میں کچھ ادارے کام کر رہے ہیں۔ وہاں بھی کرپشن ہوتی ہے لیکن یہ ادارے کسی کو آسانی سے جانے نہیں دیتے۔ پاکستان سے جانے والی ٹرین کو جلایا گیا تو سی بی آئی نے ڈھونڈ نکالا کہ یہ آگ ہندوستان کے لوگوں نے ہی لگائی تھی۔ چنانچہ گرفتاریاں کی گئیں۔ ہم نے ممبئی حملہ آوروں کے ماسٹر مائنڈ کو پکڑا اور خود ہی ضمانت کرا دی۔ صرف اسی پر بس نہ کی بلکہ برطرف آرمی چیف جنرل ضیاء الدین بٹ نے فرمایا کہ یہ جہادی تنظیمیں ہماری چھٹی دفاعی لائن ہیں۔ یہ ملک کی محسن ہیں۔
ہندوستان میں پارلیمانی نظام کے ہوتے ہوئے سیاستدان کرپشن پر جیل جاتے ہیں، انہیں سزائیں ملتی ہیں۔ وہاں کے ادارے مضبوط ہیں، ان میں اچھے لوگ بیٹھے ہیں جو قانون کو دیکھتے ہیں، سامنے بیٹھے شخص کو نہیں۔ ہماری حالت دیکھیں، دو ہفتے گزر گئے، کسی متعلقہ سرکاری ادارے کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ بیان جاری کرتا اور جن لوگوں کے نام پاناما لیکس میں سامنے آئے ہیں انہیں طلب کیا جاتا۔ کسی وزیر کوجرأت نہ ہو ئی جیسے کبھی مرحوم وفاقی وزیر ڈاکٹر شیر افگن نے کی تھی کہ وزیراعظم نواز شریف سے پوچھ لیتا کہ جناب! ہم یہ کیا سن رہے ہیں؟ شیر افگن مجھے اس لیے یاد آئے کہ بے نظیر بھٹو کے دور میں میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی میں سنڈے ٹائمزکی کاپی لہرائی جس میں بینظیر اور آصف زرداری کے خلاف سکینڈل چھپا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہوں نے سرے محل خریدا ہے۔ اگلے دن کابینہ کا اجلاس تھا۔ اجلاس شروع ہوا تو شیر افگن نے بینظیر بھٹو سے کہا، اپوزیشن قومی اسمبلی میں سکینڈل لائی ہے جس میں آپ اور زرداری کے خلاف سرے محل خریدنے کی بات کی گئی ہے۔ آپ ہمیں بتائیں سچ کیا ہے؟ بینظیر بھٹو نے اپنے وزیر کی طرف دیکھا اور کہا، یہ سب جھوٹ ہے،کوئی محل نہیں خریدا گیا۔ شیر افگن نے اپنی وزیراعظم کی بات پر اعتبار کر لیا۔ ان کا اعتبار2004 ء میں اس وقت ٹوٹا جب آصف زرداری نے سرے محل فروخت کیا۔ شیر افگن نے ہمت کر کے پوچھ لیا تھا، اس کا جواب جو بھی ملا۔ سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے بھی نواز شریف کے پچھلے دور حکومت میں ایک پارٹی اجلاس میں کھڑے ہوکر کہا تھا کہ میاں صاحب اسمبلی میں امیرالمومین بل مت لائیں۔ جواب ملا، آپ کو اعتراض ہے تواستعفیٰ دے دیں۔ قصوری نے کہا دے دیتا ہوں۔ ایک اور ایم این اے کھڑے ہوئے اور بولے میاں صاحب پھر میری طرف سے بھی استعفیٰ ہے۔ اس پر میاں صاحب گھبرائے کہ معاملہ کچھ اور ہو رہا ہے۔ 
جب شوگر ملزکا بحران شروع ہوا اورکسانوںکو پنجاب میں لوٹا جانے لگا تو یہ نواز شریف کی حکومت تھی۔گنے کا ریٹ پینتیس روپے کی بجائے پچیس روپے مل رہا تھا۔ بورے والا سے ایم این اے نسیم مہدی نے ہمت کی اور میاں نواز شریف سے تلخ ہوگئے اورکہا چونکہ آپ کی ملیں ہیں اس لیے کسانوں کا بھرکس نکالا جا رہا ہے۔ 
یہ سوال اٹھانے پر شیر افگن، خورشید قصوری اور نسیم مہدی پرکون سی قیامت ٹوٹ پڑی! کیا شیر افگن اس کے بعد وزیر نہ رہے یا دوبارہ نہ بنے؟ خورشید قصوری جسے نواز شریف نکالنا چاہتے تھے، بعد میں وزیرخارجہ بنے اور انہوں نے ہی نواز شریف کے خاندان کو جدہ میں پاسپورٹ جاری کیے۔ اسی طرح کیا نسیم مہدی کو روٹی پانی ملنا بند ہوگیا تھا؟ کیا نواز شریف کی پارٹی میں ایک بھی ایسا وزیر نہیں جو مطالبہ کرے کہ نواز شریف کو کابینہ کا اجلاس میں وضاحت کرنی چاہیے کہ ان پر یہ سب الزامات کیوں لگے؟ کیا پارلیمنٹ میں ایک بھی حکومتی پارٹی کا ایم این اے نہیں جو یہ کہہ سکے کہ میاں صاحب! آپ کو پارٹی کا پارلیمانی اجلاس بلانا چاہیے جہاں ارکان ان سے پوچھ سکیں کہ ان کے خاندان کے کاروبار پر سوالات اٹھ رہے ہیں، حکومت اور پارٹی کا نام خراب ہو رہا ہے، اس کی وضاحت کریں یا بہتر ہے اپنی جگہ کسی اور کو وزیراعظم بنا دیں۔
کوئی پوچھنے والا نہیں کہ آپ کے بچے راتوں رات کیسے ارب پتی بن گئے،کیسے لندن میں جائیدادیں خرید لیں؟ پاناما کی آف شور کمپنیاں1993ء میں بنانے کی ضرورت کیوں پڑگئی تھی؟ اگر پیسہ پاکستان سے کمایا تھا تو کیسے باہر بھیجا گیا اور کتنا ٹیکس دیا؟ اگر بیرون ملک کاروبار سے کمایا تھا تو وہ 1993ء میں کون سا کاروبار کر رہے تھے کہ اس کے ڈالرز چھپانے کے لئے آف شور کمپنیوں کی ضرورت پڑ گئی؟ 
تو کیا اس ملک کے دو سو ایم این ایزگونگے بہرے ہیں؟ یا یہ سوالات اس لیے نہیں پوچھ سکتے کہ انہیں ہر سال ترقیاتی فنڈ کے نام پر دوکروڑ روپے ملتے ہیں، دو درجن وزیر ہیں اور انہیں اپنے اپنے علاقے میں مرضی کا ایس ایچ او اور پٹواری چاہیے ہوتا ہے جو ان کی مرضی پر ان کے ہر مخالف کو چھتر مارے؟ دوکروڑ اور مرضی کے ایس ایچ او کی خاطر اس ملک کی دولت لٹتی رہے، ان کی بلا سے، ملک جائے بھاڑ میں! ان ایم این ایز اور وزراء کی خاطر صرف ایک پائو گوشت کے لیے پورا اونٹ ذبح ہوتا رہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved