تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     21-04-2016

پاناما پیپرز‘ اتفاقات اور اتفاق

پاناما پیپرز کا پھڈا ابھی چلے گا اور آسانی سے ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا؛ البتہ میاں نوازشریف لندن سے واپس آ گئے ہیں۔ وزیراعظم کی صحت ڈاکٹروں نے تسلی بخش قرار دی ہے۔ تمام ٹیسٹ کلیئر آئے ہیں تاہم سب سے مستند ٹیسٹ خود وزیراعظم نے اپنی ہمت سے کلیئر کیا ہے۔ انہوں نے ایک سٹور سے رولیکس گھڑی خریدتے ہوئے اپنی تصویر بنوا کر اور اسے جاری کر کے تمام بدخواہوں کے منہ بند کر دیئے ہیں جو ان کی صحت کے بارے منفی قسم کا پروپیگنڈہ کر رہے تھے‘ یہ ایک ایسا ٹیسٹ اور ایسا کلیئرنس بھرا ثبوت تھا جس کے بعد ان کے بدخواہوں کے پاس اور کوئی منفی بات نہیں بچی تھی۔ اس خریداری سے جہاں انہوں نے اپنی صحت بارے ساری افواہوں کا دھڑن تختہ کر دیا وہیں انہوں نے حاسدین کو یہ پیغام بھی دیا کہ الحمدللہ ثم الحمدللہ !ان کا دل ابھی اتنا مضبوط ہے کہ وہ کروڑوں روپے کی گھڑی سرعام خرید کر اس کی تصویر جاری کروا سکتے ہیں۔ اس تصویر سے انہوں نے تین مقاصد حاصل کئے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ بازار میں گھوم پھر سکتے ہیں اور صحت مند ہیں۔ دوسرا یہ کہ ان کا دل گردہ ابھی مضبوط ہے اور وہ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے ابھی بھی کروڑوں روپے خرچ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور تیسرا یہ کہ انہوں نے اپنے مخالفین کو اس تصویر کے ذریعے پیغام دیا ہے کہ میں تو موج کر رہا ہوں آپ نے جو کرناہے کر لو۔
ہر بندے کے صحت مند ہونے کی نشانیاں ہوتی ہیں۔ صحت مند ہونے کے بعد یا صحت مندی کے دوران وہ اپنی کچھ خاص عادات کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ناسازیٔ طبع کے دوران اپنی ان مخصوص عادات سے مجبوراً دستکش ہو جاتے ہیں۔ امجد اسلام امجد نے ایک واقعہ سنایا : کراچی کے ایک شاعر بیمار ہو گئے ان کے تمام دوست ان کی صحت بارے بڑے فکرمند تھے۔ وہ کراچی اور دوسرے شہروں سے ان کے گھر فون کر کے ان کی صحت کے بارے میں دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ نیک تمنائوں اور دعائوں کا اظہار بھی کرتے تھے۔ ایک صاحب نے چند دن بعد فون کیا جو ان کی اہلیہ نے اٹھایا۔ دوست نے حال پوچھا، بیگم بولیں : بھائی! اب طبعیت کافی ٹھیک ہے۔ صبح انہوں نے خود اپنے ہاتھ سے چائے پی‘ پان کی گلوری کا تقاضا بھی کیا اور گالیاں بھی بکیں۔
جہاں وزیر اعظم کے ناقدین اور مخالفین افواہیں اڑا رہے تھے وہیں ان کے اپنے وزراء بھی ان افواہوں کو تقویت پہنچانے میں اپنا کردار بخوبی نبھا رہے تھے۔ ایک رشتہ دار وزیر مملکت کا فرمانا تھا کہ میاں صاحب ڈیڑھ ہفتے بعد آ رہے ہیں۔ باورچی خانہ کابینہ یعنی کچن کیبنٹ کا وزیر کہہ رہا تھا کہ وہ ڈیڑھ مہینے بعد واپس آئیں گے اور ہوا یہ کہ ابھی اس خبروالا اخبار ردی میں بھی فروخت نہیں ہوا تھا کہ وزیراعظم نے واپسی کا اعلان کر دیا۔
پاناما پیپرز کے لیک ہونے کے فوراً ہی بعد وزیراعظم کی صحت کے مشکوک ہونے والے واقعے نے مجھے بھی تھوڑا شکوک میں مبتلا کر دیا تھا۔ میں نے ایک دو لوگوں سے اس اتفاق بارے دریافت کیا تو دوستوں نے مختلف جوابات دیئے مگر ایمانداری کی بات ہے کہ کسی سے دل مطمئن نہیں ہوا تھا۔ صرف چودھری بھکن ہے جو بعض اوقات غلطی سے ہی سہی مگر معقول بات کر دیتا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وزیراعظم واقعی بیمار ہیں؟ چودھری کہنے لگا تمہیں اس بارے شک کیوں ہے؟ میں نے کہا کہ آخراس طرح ایک دم پیپرز کا معاملہ اور صحت کی خرابی دونوں اکٹھے کیسے ہو گئے؟ اس طرح کے اتفاقات تو صرف فلموں یا ڈراموں میں ہوتے ہیں۔ کیسے ہو گیا؟ چودھری بھکن کہنے لگا۔ دیکھو پیپرز کے لیک ہونے سے اور خاص طور پر جب اس کی تردید کرنا ممکن نہ رہے بندے کا دل بیٹھ ہی جاتا ہے۔ دل کا بیٹھ جانا‘ اعصاب کا متاثر ہو جانا‘ بندے کا ٹینشن لینا اور ٹھنڈے پسینے وغیرہ کا آنا یہ ناسازی طبع کی علامات ہیں۔ ظاہر ہے جو افورڈ کر سکتا ہے وہ باہر جائے گا۔ یہاں تو وہ علاج کرواتا ہے جس کے پاس باہر جانے کی توفیق نہیں۔ پھر خود ہی اپنی بات کی تردید کرتے ہوئے کہنے لگا۔ تم نے دیکھا ہو گا ملازم پیشہ لوگوں کی جب ساری چھٹیاں ختم ہو جاتی ہیں تو وہ بیماری کی رخصت پر چلے جاتے ہیں۔ میں نے کہا چودھری تم اپنی بات کی خود ہی تردید کر رہے ہو۔ ایک طرف تم کہتے ہو کہ میاںصاحب کی طبیعت واقعی خراب ہے ،دوسری طرف کہتے ہو کہ وہ بہانے والی چھٹی لے کر باہر گئے ہیں۔ چودھری کہنے لگا میرا مطلب خدانخواستہ یہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو، میرا مطلب ہے کہ طبیعت میں گھبراہٹ تو تھی، اعصاب پر دبائو بھی تھا لیکن یہ دونوں چیزیں خمیرہ مروا رید عنبری جواہر والا کھانے سے بھی ٹھیک ہو سکتی تھیں مگر انہوں نے مناسب سمجھا کہ باہر چلے جائیں۔ اگر بیماری کے لیے آب و ہوا کی تبدیلی ضروری ہو تو پھر Sick Leave یعنی بیماری کی چھٹی لینا جائز بھی ہے اور سچائی بھی۔
کل شاہ جی ملے تو کہنے لگے آپ اتفاقات پر غور کر رہے ہیں؟ میں نے پوچھا کون سے اتفاقات؟ کہنے لگے یہی پانامہ پیپرز کا اخبار میں آنا اور میاں صاحب کا صاحب فراش ہو جانا۔ باقی اتفاقات کا تو چھوڑو پرسوں اور اترسوں کے اتفاقات کا پتہ چلا ہے؟۔ میں نے کہا شاہ جی! بھلا کوئی الہام آتا ہے کہ پتہ ہو پرسوں اور اترسوں کیا اتفاقات ہوئے ہیں۔ شاہ جی کہنے لگے دو چار دن پہلے مولانا فضل الرحمن نے حکومت کی پاناما پیپرز پرکھل کر حمایت کا اعلان کیا اور پانامہ پیپرز کو عالمی سازش قرار دیا اور اترسوں محض اتفاق سے مولانا فضل الرحمن کے چھوٹے بھائی ضیاء الرحمن کو کمشنر افغان مہاجرین لگا دیا گیا۔ ویسے تو سنا ہے یہ بیسویں گریڈ کی پوسٹ ہے مگر پیدا گیری کے حساب سے دوسو چوہتر (274) گریڈ کی پوسٹ سمجھیں۔ اب بھلا آپ بتائیں یہ محض اتفاق نہیں کہ آٹھ دس دن پہلے مولانا حکومت کی ''غیر مشروط‘‘ حمایت کا اعلان کرتے ہیں اور چار دن پہلے ان کے چھوٹے بھائی کی نوکری کی لاٹری نکل آئی ہے۔ اپنے فضل الرحمن صاحب ماشا اللہ دنیا کے دو چار خوش قسمت ترین لوگوں میں سے ہیں، جس طرح ہر چوتھے دن اپنے خواجہ سعد رفیق کا انعامی بانڈ نکلتا تھا اسی طرح ہر چوتھے دن مولانا کی کوئی نہ کوئی لاٹری نکل آتی ہے۔ یہی بھائی پہلے خوشاب میں ڈی سی او تھے۔ اب پورا قصہ سنو: موصوف 7 ستمبر 2012ء تک پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ ڈویژنل انجینئر تھے۔ پھر وہاں سے مولانا نے انہیں اپنی کرامات سے صوبائی حکومت خیبر پختونخوا کی سول سروس میں ضم کروا دیا۔ پھر ان کی خدمات صوبائی حکومت خیبر پختونخوا سے پنجاب میں تبدیل کروا لیں۔ غالباً اس وقت سکیورٹی کو جواز بنایا گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ موصوف اٹھارہویں گریڈ کے افسر ہیں اور بیسیویں گریڈ کی پوسٹ پر تعینات کر دیئے گئے ہیں۔ موصوف جب سترہویں گریڈ میں تھے تو انہیں خیبر پختوخوا میں جان کا خطرہ تھا لہٰذا پنجاب میں ڈی سی او لگا دیئے گئے اب پشاور میں کمشنر افغان مہاجرین کی بیسیویں گریڈ کی پوسٹ پر تعیناتی کروائی ہے تو جان کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ جب بھی حکومت پر مشکل وقت آتا ہے مولانا فضل الرحمن اس بحران کی ٹوپی کے نیچے سے اپنے مفاد کا کبوتر برآمد کر لیتے ہیں۔
دوسرا اتفاق سنو! پاکستان سے چودھری نثار‘ عمران خان‘ جہانگیر ترین اور علیم خان وغیرہ ایک ہی جہاز سے لندن گئے ہیں مگر تیسرا اتفاق زیادہ مزیدار ہے کہ چودھری نثار لندن میں موجود درجنوں فائیو سٹار ہوٹلوں کی موجودگی کے باوجود اتفاقاً حیات ریجنسی (دی چرچل) پورٹ مین سکوائر میں ٹھہرے ہیں۔ یہ ہوٹل اپنے زرداری صاحب کا ہے اور اسی ہوٹل میں میاں نوازشریف اتفاقاً ہی چودھری نثارعلی خان کو ملنے پہنچ گئے تھے۔ اتفاق کی بات ہے کہ لوگ کہتے ہیں یہاں زرداری صاحب اور رحمن ملک بھی موجود تھے۔ایک اور اتفاق یہ بھی ہے کہ ادھر پاناما پیپرز کا رولا پڑا اور ادھر ہمارے سیکرٹری خزانہ وقار مسعود کی اچانک ہی پاناما کے نائب وزیر خزانہ سے ملاقات ہو گئی۔ اس سے پہلے شاید پاکستان کی انہتر سالہ تاریخ میں پاکستان کے سیکرٹری خزانہ اور پاناما کے نائب وزیر خزانہ کی ملاقات کبھی نہیں ہوئی لیکن ابھی اتفاقاً ہو گئی ہے۔
اللہ خیر کرے! آج کل پانامہ پیپرز کے حوالے سے بہت سے اتفاقات جنم لے رہے ہیں۔ اتفاق سے انہی پیپرز کی وجہ سے آئس لینڈ‘ یوکرائن اور کرغیزستان کے وزرائے اعظم مستعفی ہو چکے ہیں۔ کیا خبر ادھر بھی اتفاق سے کچھ ہو جائے۔ واضح رہے کہ ان تمام اتفاقات سے، جو اتفاق کی جمع ہے، مراد اتفاق گروپ آف انڈسٹریز ہرگز نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved