تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     21-04-2016

’’آدمی غنیمت ہے‘‘: از سید انیس شاہ جیلانی

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے (رئیس احمد جعفری)
انڈا ٹھیک سے نہیں تلا گیا‘ سالن میں نمک کم ہے‘ مرچیں زیادہ کیوں ہیں‘ روٹیاں ادھ جلی اور کچی پکی ہیں‘ پُھلکے کہاں ہیں‘ شوربا گاڑھا کیوں ہے۔ یہ خوان نعمت چینی کے برتنوں پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو‘ بے تکلف اٹھا کر پھینک دیتے۔ برتنوں کے گرنے اور ٹوٹنے کی جھنکار سے گھر بھر کے کان ہو گئے‘ آج پاپا کا مزاج برہم ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے کونے کھدرے میں دبک گیا‘ مگر ممّی ہیں کہ خاموش سامنے ڈٹی ہوئی ہیں اور حضرت قرآن لے کر بیٹھ گئے۔ پڑھتے جاتے ہیں۔ کبھی کبھار اس عالم میں نماز کی نیت بھی باندھ لیتے‘ باوضو ہوں نہ ہوں‘ اس کی کوئی قید نہیں۔اماں جی پھر چولہا گرم کرنے میں منہمک ہو گئیں‘ باورچی عبدل منہ چڑھا بھی ہے پٹھان بھی‘ مگر سب کچھ سینی میں سجا کر اصرار کر رہا ہے‘ اب کھا کے دیکھیے‘ مزہ نہ آئے تو جو چور کی سزا وہ میری۔ خوف اور وحشت کے بادل چھٹ گئے‘ صاحب خانہ نے خاموشی اور ایک متکلّم وقار کے ساتھ خوش سیر ہو کر ہاتھ بڑھایا اور ذرا سستا کر گھر سے نکل گئے۔ یہ معمول ہر ہفتے کا تھا۔
کھانا وہ بھی کھا رہے ہیں‘ ان کے ایک عزیز‘ عزیز کرمانی بھی۔ گفتگو بعض مذہبی مسائل سے نکلتی ہوئی حضورؐ کی ذات پر آ جاتی ہے۔ غسل خانے میں ہاتھ دھونے گئے۔ عزیز بھائی پیچھے پیچھے اپنے دلائل کا طومار پیش کئے جاتے ہیں۔ اب دونوں آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ تڑاخ سے ایک تھپڑ عزیز بھائی کے منہ پر پڑتا ہے۔ حضورؐ کی ذات پر زبان درازی برداشت کیونکر کرتے۔ نو بجے ہی سب بستروں میں چلے گئے۔
شاہ جعفر شاہ پھلواری ندوی‘ شاہ سلیمان کے بیٹے ادارہ ثقافت اسلامیہ کے رفیق۔جعفری صاحب بھی اسی ادارے سے منسلک‘ دونوں ندوۃ العلمائے لکھنؤ کے سند یافتہ اور شناسا۔ لاہور میں یکجا ہوئے تو ربط ضبط بڑھ گیا۔ پھلواری کبھی چائے پر آ جاتے‘ گاہے قیلولہ بھی جعفری صاحب کے ہاں برگنزا ہوٹل میں ہوتا۔ انہوں نے ایک کتاب ''اسلام اور موسیقی‘‘ لکھی ہے۔ذکر آیا تو جعفری صاحب نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی مشہور ادیب ‘حالیؔ کی آنکھیں اور کتب خانہ دیکھے ہوئے ‘مرنجاں مرنج منحنی سے بزرگ تھے۔ ظاہراً بے ضرر اور صلح کل انسان نظر آتے تھے‘ مگر تھے مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکار‘ اور نہایت خلوص نیت سے اپنے عقائد پر قائم۔ جعفری صاحب کے ہاں آرجار بہت بڑھ گئی تھی۔ غالباً پانی پتی کے کتب خانہ سے استفادہ بھی ہوتا رہتا تھا۔ روز کی ملاقاتیں‘ 
کھانے پر موجود‘ چہل قدمی میں ساتھ‘ بازار کے پھیرے میں شریک‘ ادبی و شعری نشستوں میں شانہ بشانہ ۔ شامت اعمال مرزا کو حضورؐ کا ہمسر بتانے لگے۔ جوش غضب کو دیکھ کر دُم دبائے دروازے تک بھی نہ پہنچے تھے کہ پُشت پر جُوتا رسید ہوا۔ کسی کو بیچ میں ڈال کر پھر آنے جانے لگے۔
''انور‘‘ اور ''شمیم‘‘ دو ناول اردو میں بہت چلے۔ طویل‘ ضخیم‘ پھر بھی ہاتھوں ہاتھ بکے اور پڑھے گئے۔ مصنف تھے فیاض علی‘ اوسط درجے کے تو کیا بس معمولی وکیل تھے مگر کسی کی نظر کرم نے پاکستان میں اٹارنی جنرل بنا دیا۔ سرکاری وکلاء کو جو آسانیاں بلکہ تن آسانیاں میسر ہیں‘ ان کو بھی تھیں۔ سرکاری بنگلہ‘ سرکاری موٹر‘ خوبصورت اور نازک اندام بیوی اور دیگر سازوسامان۔ نئے ملاقاتیوں میں یہ بھی تھے‘ خصوصاً ان کی بیوی بیگم جعفری پر بے طرح فریفتہ تھیں‘ چمبہ ہائوس میں قیام تھا‘ حاشیہ برداروں میں میں بھی وہاں پہنچا۔ فیاض علی کے صاحبزادے فوج میں کپتان‘ نئی روشنی کا فوجی دماغ۔ جعفری صاحب مرحوم نے ایک ڈیڑھ گھنٹے تک نہایت نرم ‘رواں دواں اور دلنشین گفتگو میں اسلامی تعلیمات کی اہمیت اور صداقت ان پر واضح کرنے کی کوشش کر ڈالی۔ 
آہنی الماریوں میں کپڑوں اور دیگر سازوساماں کے ساتھ ساتھ چیدہ کتابیں بھی سربمہر رہا کرتیں۔ بعض گھریلو تصویریں قرآن مجید کے مطبوعہ نسخوں کے بیچوں بیچ یا تو کسی نے جان بوجھ کر دبا رکھی تھیں یا انجانے میں وہاں رہ گئیں۔ مرحوم کی نظر پڑی‘ فوراً اٹھا کر پھینک دیں اور سب کو تنبیہ کی گئی ایسا آئندہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ نماز کے وہ عید کے عید بھی روادار نہیں تھے۔ گھر بھر کے نئے کپڑے خریدے جاتے مگر وہ خود اپنے معمول کے مطابق عام دھلا ہوا جوڑا بدل کر بیٹھ جاتے اور حسب مراتب عیدی بانٹتے۔
ندوہ اور جامعہ سے نکلے تو مولایانہ تن و توش کے ساتھ داڑھی سمیت بمبئی پہنچے‘ مولانا شوکت علی گھسیٹ لائے تھے۔ مگر جب اپنی پسند کی شادی کا مرحلہ آیا تو داڑھی مونچھ صاف کرانا پڑی‘ وزن 
گھٹانا پڑا۔ خاصے جامہ زیب تھے۔ علی گڑھ کاٹ کا پاجامہ‘ بغیر کالر کی قمیض‘ اچکن‘ ناگرا اور پمپ۔ جاڑوں میں بہت کم نہاتے مگر جوڑا ضرور بدل لیا کرتے تھے۔ کھچیڑا نامی دھوبی اس کا فائدہ یوں اٹھاتا تھا کہ ذرا سی سلوٹیں جو پڑ جایا کرتی تھیں ‘ تازہ دم استری سے صاف کر لاتا۔ اگر کبھی کوئی داغ دھبہ ہوا بھی تو دوچار روز خود پہنتا تب دھوتا۔ جوڑے بیسیوں تھے‘ خود نکال کر پہنتے۔ اب اگر ٹھنڈی شیروانیوں کے جگہ جگہ سے دانت نکلے ہوئے ہیں اور انہیں کسی منتخب مجمع میں جانا اور شریک طعام ہونا ہوتا ہے‘ کسی کی مجال نہیں کہ بدلوا سکے۔ وہی پہن کر ٹھاٹھ سے چلے جائیں گے۔ یہی حال جوتوں کا تھا۔ دو دو چار چار ہفتے ان کی خبر ہی نہ لی جاتی۔ بے نیازی سی بے نیازی تھی۔ ہندوستان میں دو پلی اور یہاں جناح ٹوپی سر پر رہی جو تیس چالیس روپے سے زیادہ کی کبھی نہیں خریدی گئی اور عمر طبعی تک پہنچنے سے پہلے اس سے نجات بھی ممکن نہ تھی۔ بتیسیاں دو تھیں اور وہ باقاعدہ ہوش سے صاف کرتے۔ کسی ماہر نے بناکر دی تھیں‘ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ دانت مصنوعی ہیں...
آج کا مطلع
آن چڑھائی کرے گا
پھر پسپائی کرے گا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved