تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     21-04-2016

گورے آخر چاہتے کیا ہیں؟

سُنا ہے اس دنیا میں گورے اور کالے کا جھگڑا ازل سے چلا آرہا ہے۔ اوروں کا تو کچھ علم نہیں، ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی دیکھا ہے کہ گوروں کو سَر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے، ہر معاملے میں اُنہی کی جے جے کار ہوتی ہے۔ اگر وہ کسی معاملے میں غلط رائے دیں تب بھی اُنہی کی رائے کو درست سمجھتے ہوئے قبول کرلیا جاتا ہے۔ یہ مرعوبیت ہماری سمجھ میں اب تک نہیں آئی۔ 
ایک زمانہ تھا جب ایک طرف گورے تھے اور دوسری طرف کالے۔ یعنی جو گورا نہیں تھا وہ کالا تھا۔ اب خیر سے اِتنی ''وسیع النظری‘‘ پیدا ہوچکی ہے (یا ایجاد کرلی گئی ہے) کہ جو گورے نہیں وہ لازمی طور پر کالے نہیں کہلاتے۔ یعنی جو گورا بھی نہ ہو اور کالا بھی نہ ہو وہ ''کلرڈ‘‘ کہلاتا ہے! گوروں کی عنایت ہے، مہربانی ہے کہ وہ ہم جیسے گندمی یا ذرا سی سانولی رنگ رکھنے والوں کو کالوں میں نہیں گِنتے۔ 
ایک زمانہ تھا کہ گورے ہم پر راج کرتے تھے۔ اور یہ راج بھی اُنہوں نے ہم ہی سے چھینا تھا۔ ہم اِس اعتبار سے خوش نصیب ہے کہ گوروں کے راج میں زندگی بسر کرنے سے قبل اپنے راج میں جیتے تھے۔ ہندو اب تک احساسِ محرومی کا شکار ہیں۔ پہلے وہ مسلمانوں کی غلامی میں رہے اور پھر انگریز غالب آگئے۔ یعنی ہندوؤں کو مسلمانوں پر راج کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ یہی سبب ہے کہ 1971ء میں مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرکے بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے کے بعد اُس وقت کی بھارتی وزیر اعظم آں جہانی مسز اندرا گاندھی نے بہت فخر سے کہا تھا کہ آج مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا! کسی کو ہماری بدولت یوں خوشی ملتی ہے تو یوں ہی سہی! 
جب گورے اِس خطے پر حکمرانی کرتے تھے تب ہمیں یہ فکر لاحق تھی کہ اُن سے پنڈ چُھڑایا جائے۔ اور پھر کسی نہ کسی طور اُن سے جان چُھڑالی گئی۔ گوروں نے بوریا بستر لپیٹا اور چل دیئے۔ مگر یہ محض خام خیالی تھی، کُھلی آنکھوں کا دھوکا تھا۔ گورے یہاں سے جانے کے بعد بھی یہیں ہیں۔ اُنہوں نے جن مرعوب ذہنوں کو یہاں چھوڑا تھا وہ ہم پر حکمران ہو بیٹھے۔ زندگی کے ہر معاملے میں آج بھی گوروں ہی کی مثال دی جاتی ہے۔ جنہوں نے گوروں یعنی انگریزوں کا دور دیکھا تھا وہ بات بات پر کہتے ہیں کہ انگریزوں کے راج میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا! پتا نہیں انگریزوں کے راج میں ایسا کیا تھا کہ آج بھی وہ بُھوت کی طرح ہمارے ہاں بہت سے ذہنوں پر سوار ہیں۔ 
خیر، یہ رونا تو زندگی بھر کا ہے۔ انگریز ہمیں اِس لیے یاد آئے کہ اُن کا مرکز یعنی لندن ہماری زندگی سے نکلنے کا نام نہیں لے رہا۔ گئے وقتوں میں جو ایک بار لندن ہو آتا تھا وہ زندگی بھر ''ولایت پلٹ‘‘ کہلاتا تھا اور اِس ''ٹیگ‘‘ کو وہ اپنے لیے دونوں جہانوں میں کامیابی کی ضمانت سی گردانتا تھا۔ اب حال یہ ہے کہ لندن جانا کوئی انوکھا معاملہ نہیں رہا۔ ہمارے بڑوں کی زندگی میں جیسے ہی کوئی بڑی الجھن پیدا ہوتی ہے اُن کے ذہن کے پردے پر صرف ایک لفاظ ابھرتا ہے... لندن! حد یہ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کو بھی اپنا کوئی معاملہ درست کرنا ہو تو لندن ہی دکھائی اور سُجھائی دیتا ہے۔ آصف زرداری صدر تھے تو انہوں نے دبئی کو پاکستان کے متبادل دارالحکومت کا درجہ دے دیا تھا اور لندن تو خیر سے مستقل متبادل دارالحکومت ہے ہی! کسی کو وطن میں احتساب کے شکنجے سے گردن بچانا ہو تو لندن کی راہ لیتا ہے۔ کسی کو جلا وطنی اختیار کرنا ہو تو لندن سے اچھا مقام نہیں سُوجھتا۔ اور یہ سب کچھ علاج کے نام پر ہوتا ہے۔ یعنی ہمارے ہاں سے ''بیماریاں‘‘ خود سفر کرکے لندن پہنچتی ہیں۔ پتا نہیں گوروں کے پاس کون سا چُورن ہے کہ ہمارے بڑوں کا ہاضمہ لندن پہنچنے ہی پر درست ہو پاتا ہے! 
میاں صاحب پاناما لیکس کے جھنجھٹ سے جان چُھڑاکر کچھ دنوں کے لیے گزشتہ ہفتے لندن گئے تو رسمی کارروائی یا دیرینہ روایت کے طور پر چیک اپ بھی کرایا۔ واہ ری گوروں کی مہارت کہ ہم جیسوں کا وزیر اعظم بھی معمولی سے چیک کے لیے اُن کا رخ کرتا ہے! اور ذرا پاکستانی ڈاکٹرز کی ''نا اہلی‘‘ ملاحظہ فرمائیے کہ بچے کے جگر کی پیوند کاری جیسا ''آسان‘‘ کام تو کرلیتے ہیں، وزیر اعظم کا عمومی سا چیک اپ کرنے کی صلاحیت اُن میں نہیں پائی جاتی! 
ابھی یہ سب کچھ چل ہی رہا تھا کہ ایک اور گورے نے ہمارے لیے مزید پریشانی کا سامان کردیا۔ ہم اپنے حال میں مست ہیں اور باقی دنیا کو پتا نہیں کیا ہوا ہے کہ کچھ نہ کچھ کرنے پر تُلی رہتی ہے۔ برطانیہ کے گراہم شارٹ نے اپنے فن سے ہمارا دماغ شارٹ کردیا! موصوف مائکرو پینٹنگ کے ماہر ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں برطانیہ کی ملکہ کی ایک ایسی تصویر تیار کی ہے جو سُوئی کے ناکے سے گزر سکتی ہے! لو، کرلو بات۔ کبھی جس سلطنت کی حدود میں سورج نہیں ڈوبتا تھا اُس کی ملکہ کو سُوئی کے ناکے سے گزار دیا! 
ایک ہندو مصوّر کا چیلنج قبول کرتے ہوئے گراہم شارٹ نے ہندوؤں کی دیوی دُرگا کا صرف ایک ملی میٹر کا پورٹریٹ بنایا ہے! گویا گراہم شارٹ ہندو دیو مالا کے تمام کرداروں کو ایک آدھ سینٹی میٹر میں سمونا چاہتے ہیں! 
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ گراہم شارٹ نے کچھ عرصہ قبل بلیڈ کی دھار پر انگریزی میں ''کچھ بھی ناممکن نہیں‘‘ لکھا تھا۔ اُن کا یہ شاہکار 50 ہزار یورو میں فروخت ہوا تھا۔ بلیڈ کی دھار پر ''کچھ بھی ناممکن نہیں‘‘ لکھنے کو ممکن بنانے کے لیے گراہم شارٹ کو 180 مرتبہ کوشش کرنا پڑی تھی! 
دوسری طرف ایک اور گورے یعنی برطانیہ کے اسٹوارٹ ہیوز نے 30 میٹر لمبی کشتی تیار کی ہے جو ساڑھے چار ارب ڈالر کی ہے۔ ''ہسٹری سپریم یاٹ‘‘ پر سونے اور پلاٹینم کی ایک لاکھ کلو گرام کی پرتیں ہیں! اس کشتی پر میز، کرسی، پلنگ سبھی کچھ سونے کا ہے۔ صرف پلنگ کی تیاری پر 68 کلو سونا صرف ہوا ہے۔ 
یہ دونوں خبریں پڑھ کر ہمارا یہ یقین مزید پختہ ہوگیا کہ گورے کبھی چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ اُنہیں کچھ نہ کچھ ایسا کرتے رہنا ہے جو ہمیں شرمندہ اور پریشان کرتا رہے۔ 
مرزا تنقید بیگ بھی گوروں سیمت تمام ترقی یافتہ اقوام کی اِس ''خصلتِ بد‘‘ سے سخت پریشان ہیں کہ وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ جب پوچھیے کہ سب کچھ کیا اور کیوں ہے تو خاصا معصومانہ جواب ملتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مسرّت کا حصول یقینی بنانے کی خاطر۔ یہ بھی خوب رہی۔ اگر زندگی سے بھرپور مسرّت کشید کرنی ہے تو دنیا ہماری طرف دیکھے۔ ہم ایک زمانے سے کچھ نہیں کر رہے اور بھرپور مسرّت سے مزیّن زندگی بسر کر رہے ہیں! برطانوی گورے ہوں یا کہیں اور کے ترقی یافتہ گورے، سبھی کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ پُرسکون زندگی کا جو نمونہ ہم نے پیش کیا ہے اُسے اپنانے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔ اِسے کہتے ہیں قدر ناشناسی! 
مرزا نے کل ایک خبر پڑھی کہ برطانیہ میں ذہن کی مختلف پیچیدگیوں کا سُراغ لگانے کے لیے ایک لاکھ افراد کے دماغ کو سکین کیا جائے گا۔ یہ خبر پڑھ کر وہ مزید پریشان ہوگئے اور ہم سے کہنے لگے کہ دماغ سکین کرکے اب گورے ایک خطرناک ٹرینڈ کو جنم دے رہے ہیں۔ 
ہم نے عرض کیا کہ دماغ کی سکیننگ میں قباحت کیا ہے۔ اچھا ہے چند ایک بیماریوں کو سمجھنا اور پھر ان کا علاج سوچنا یا ڈھونڈنا آسان ہوجائے گا۔ 
مرزا نے کہا : ''اگر دماغ سکین کرنے کی بیماری کہیں ہمارے جیسے ممالک میں بھی عام ہوگئی تو ہمارے ذہن دنیا پر 'بے نقاب‘ ہوجائیں گے! ہم نے اب تک اپنے دماغ بہت احتیاط سے یعنی کم کم استعمال کیے ہیں۔ یہی تو ہمارا 'ٹریڈ سیکریٹ‘ ہے۔ اگر دماغ سکین ہوگئے تو گورے جان جائیں گے کہ ہم کچھ کیے بغیر اِتنی پُرسکون زندگی کیسے بسر کر رہے ہیں!‘‘ 
مرزا کی نکتہ نوازی نے ہماری آنکھیں کھول دیں۔ ہم نے سوچا بھی نہیں تھا کہ گورے بیماریوں کو سمجھنے کے نام پر دراصل ہمارا ''ٹریڈ سیکریٹ‘‘ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں! یہ گورے آخر چاہتے کیا ہیں؟ کبھی انوکھے کارنامے انجام دے کر ہمیں شرمندہ کرتے ہیں اور کبھی بیماریوں کی تحقیق کے نام پر دماغ کی سکیننگ کے ذریعے ہمارے ڈراتے ہیں۔ اِن کا کچھ علاج ہے کہ نہیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved