رحمت مگر آسمان سے نازل ہوا کرتی ہے۔ فقط دعا نہیں، تدبیر اور کاوش سے۔ جستجو اور جدوجہد سے۔
امام غزالی ؒ یاد آئے۔ جب کوئی فقیر اٹھتا ہے تو دنیا میں تبدیلی کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔ غزالیؒ کے طفیل یورپ بدلا، سپین کو یوسف بن تاشفین ملا، یعنی مزید ایک صدی۔ غالباً یہ ڈیکارٹ تھا، جس نے امام کا ترجمہ کیا۔ مدتوں وہ آکسفرڈ یونیورسٹی میں پڑھائے جاتے رہے۔ امام کی کتاب احیاء العلوم کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے: اسلامی علوم کا تمام خزانہ دریا بُرد ہو جائے تو اس کی بنا پہ پھر تعمیر ہو سکتا ہے۔ زندگی ہی میں غزالیؒ کا پرچم لہرانے لگا۔ الپ ارسلان کے جانشین ملک شاہ نے انہیں خط لکھا تو سات القاب سے مخاطب کیا۔ امام، یگانہء جہاں اور انگشت نمائے عالم کہا؛ حالانکہ وہ اس کے ساتھ سختی سے پیش آئے تھے۔ عوام کا حال پوچھا تو یہ کہا: ان کی گردنیں ٹوٹ رہی ہیں، جیسے تیرے گھوڑوں کی گردنیں سنہری لگاموں کے بوجھ سے۔
امام کی تعلیمات کا مرکزی نکتہ کیا ہے؟ وہی، جس کا ذکر سورہ بقرہ کے آغاز میں ہے: شیطان نے کہ انسان کو جانتا تھا، اللہ سے یہ کہا کہ وہ اسے بہکا دے گا۔ ارشاد کیا: ''مگر میرے مخلص بندے گمراہ نہ ہوں گے‘‘۔ اخلاص یعنی دیانت، صداقت شعاری، جواب دہی کا احساس، توکل، رزقِ حلال، ریاکاری اور دنیا کی محبت سے گریز۔ مغرب نے صلیبی جنگوں سے سیکھا، سپین سے، مسلمان علما سے۔ اقبالؔ نے کہا تھا:
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلّم سے کوئی چارہ
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
کل مغرب نے مسلمانوں سے سیکھا۔ آج ہمیں ان سے سیکھنا ہے۔ ان کا عام آدمی زیادہ سچا اور زیادہ ایماندار ہے۔ اجتماعی نظام ایسا کہ حکمران احتساب سے بچ نہیں سکتا۔ آئس لینڈ کا وزیرِ اعظم مستعفی ہو گیا۔ برطانوی وزیرِ اعظم کو پارلیمنٹ میں رگیدا گیا۔ میاں محمد نواز شریف فقط تاویل فرماتے ہیں۔ ان کے حواری، ان کے صحافی عمران خان پہ چڑھ دوڑے۔ وہ دلائل تراش رہے ہیں۔ ارشاد عارف نے کل لکھا ''ڈھیٹ کہیں کے‘‘۔ ان سے عرض کیا، جی نہیں، بالکل ڈھیٹ۔ سرکار ؐ کا فرمان یاد دلایا کہ بے شرم اپنی مرضی کرے۔
دانشور کئی طرح کے ہیں۔ ایک آزاد، ایک کارندے۔ ایک نرم گوشہ رکھنے والے، جو یہ کہتے ہیں کہ احتساب سیاستدانوں کا ہی کیوں ہو (میڈیا کا کیوں نہیں کہ ایک ممتاز پبلشر امریکہ سے نقد داد پاتا اور بھارت نوازوں کی سرپرستی کرتا ہے) چوتھے ژولیدہ فکر جو یہ فرماتے ہیں کہ احتساب ممکن ہی نہیں۔ معاشرہ تباہ ہو چکا۔ نہیں، جناب معاشرہ خراب خربوزہ نہیں ہوتا کہ پھر سے تازہ نہ ہو سکے۔ اقوام خرابی کو جاتی ہیں تو بہتری کی طرف بھی۔ اخلاقی تحریک ہو تو احساس کی چنگاری شعلہ بھی بن جاتی ہے۔ عادل، نرم خو، غیر مسلموں سے حسنِ سلوک اور سوشل سکیورٹی نظام نافذ کرنے والے ٹیپو سلطان کی وجہ سے ہزاروں لوگ مسلمان ہوئے۔ تاوانِ جنگ ادا کرنا پڑا تو جلے ہوئے دیہات سے قافلے اٹھے اور باقی ماندہ سلطان کے قدموں میں ڈھیر کر دیا۔ قائدِ اعظمؒ کی امانت و دیانت کے اثرات تھے۔ قائد کے سیکرٹری کے ایچ خورشید آزاد کشمیر کے صدر بنے تو سادگی اور سچائی کا پیکر تھے۔ بعد ازاں گیراج میں وکالت کا دفتر تھا۔ ویگن پہ سفر کرتے ہوئے اللہ کے پاس چلے گئے۔ بات کرتے تو آدمی حیران رہ جاتا ؎
عمر ایست کہ آوازہئِ منصور کہن شد
من از سر نو جلوہ دہم وار و رسن را
منصور کی آواز پرانی ہو گئی۔ میں ایک بار پھر دار و رسن کو جلوہ عطا کروں گا۔ فارسی شاعر غضب ڈھاتے ہیں: ؎
منم عثمان ہارونی کہ یارے شیخے منصورے
ملامت می کند خلقے سرِ بازار می رقصم
تو آں قاتل کہ از بہر تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجر خونخوار می رقصم
میں عثمانِ ہارونی ہوں، شیخ منصور کا دوست۔ خلق ملامت کرتی رہے، سرِ بازار میں رقص کروں گا۔ تو وہ قاتل ہے کہ فقط تماشے کے لیے مجھے قتل کرتا ہے۔ میں وہ بسمل ہوں کہ خنجرِ خونخوار کے نیچے بھی رقص کرتا ہوں... زندگی یہی ہے، سچائی کے ساتھ ایک والہانہ پن:
موسم آیا تو نخلِ دار پہ میرؔ
سرِ منصور ہی کا بار آیا
اور اقبالؔ نے یہ کہا تھا: ؎
عاقبت منزل ما وادیئِ خاموشاں است
حالیہ غلغلہ درگنبدِ افلاک انداز
آخرکار قبروں میں جا سونا ہے۔ آج یوں اظہارِ حق کرو کہ صدا آسمان تک پہنچے۔ شاہ حسین نے یہ بات بالفاظِ دیگر کہی تھی۔ ''چل میلے نو چلئے اوڑک نوں مر جاناں‘‘۔ میلے کو چلو کہ آخر کو مر جانا ہے۔ اکبرِ اعظم کے شیخ الاسلام کو انہوں نے لکھا: ؎
اندر آلودہ‘ باہر پاکیزہ تے توں شیخ کہاویں
راہ عشق دا سوئی دا نکّا دھاگا ہوویں تے جاویں
باطن آلودہ اور ظاہر پاکیزہ، شیخ الاسلام بنے بیٹھے ہو۔ عشق کی راہ سوئی کا ناکہ ہے۔ دھاگہ بنو تو داخل ہو سکو۔ میر ؔپھر یاد آئے: ؎
دیکھا میں قصرِ فریدوں کے در اوپر اک شخص
حلقہ زن ہو کے پکارا کوئی یاں ہے کہ نہیں
نظام الدین اولیاؒ نے کہا تھا: کتنے بادشاہ ہو گزرے، نام بھی کسی کو یاد نہیں۔ جنید ؒ و بایزیدؒ یوں لگتا ہے کہ ابھی کل کی بات ہے۔ جنیدؒ نے کہا تھا: دنیا کو دل کے دروازے پر بٹھا رکھا ہے۔ جس چیز کی ضرورت ہو، ہاتھ بڑھا کے لے لیتے ہیں۔ دل میں داخل ہونے کی اسے اجازت نہیں۔ بایزیدؒ انکسار کی معراج کو پہنچے۔ فرمایا: چالیس برس میں نے اللہ کو تلاش کیا۔ جب پایا تو دیکھا کہ وہ میرے انتظار میں ہے۔ زندگی کی عظمت فقر سے ہے، علم سے ہے۔ اس کی متاع سکونِ قلب ہے۔ دولت اور اقتدار نہیں، نواز شریف جس میں جنتِ گم گشتہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
فرمایا کہ احتساب میں انتقام کی بو ہے۔ ماضی کی طرح وہ سرخرو ہوں گے اور ان کے منصوبے شفاف ہیں۔ نندی پور شفاف ہے؟ پہلے ہی وہ بہت وقت ضائع کر چکے۔ یہی حال رہا تو ان کے استعفے سے کم پر قوم راضی نہ ہو گی۔ ملک میں حقیقی احتساب اب کوئی نہیں روک سکتا۔ سالانہ 2 ہزار ارب روپے کی کرپشن کے خلاف فیصلہ کن اقدام کا وقت آ چکا اور اس کا سہرا جنرل کے سر ہے۔
فوج میں احتساب کا ایک نظام ہے۔ اعلان کل ہوا مگر تحقیقات پہلے سے تھیں۔ خفیہ ایجنسیاں رپورٹیں بھیجتی رہتی ہیں۔ شکایت درست دکھائی دے تو افسر سبکدوش۔ پھر وہ جی ایچ کیو پہنچتا ہے، جہاں ایجوٹنٹ جنرل عدالت تشکیل دیتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف سے کہا گیا کہ افسروں کو نکال دیں مگر اعلان نہ کریں۔ انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ قوم تک پیغام پہنچنا چاہیے۔ عدلیہ کو بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کا احتساب کرے۔ وہ متامّل کھڑی ہے۔ صاف دامن چیف جسٹس کو اقدام کرنا چاہیے۔
نواز شریف کی مرضی ہے کہ مستعفی ہوں یا معاملے کو اتنا گھسیٹیں، جہاں عوامی نفرت بے قابو ہو جاتی ہے۔ ملک کی تاریخ شاید ایک نئے موڑ پہ آ پہنچی۔ فقط مقبولیت کی تمنا میں نہیں، حکمت سے اقدامات کیے گئے تو کرپشن کے خلاف عوامی جذبہ اخلاقی تحریک میں ڈھل سکتا ہے۔ سول ادارے سنور سکتے ہیں۔ بالآخر وہ حکمران مل سکتے ہیں جو قائدِ اعظم کی راہ چلیں۔ صاحبِ عزم، صاحبِ دیانت، صداقت شعار، وعدے کے پاسدار، متوکّل اور خوددار۔ رحمت مگر آسمان سے نازل ہوا کرتی ہے۔ فقط دعا نہیں، تدبیر اور کاوش سے۔ جستجو اور جدوجہد سے۔