تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     22-04-2016

اب کیا ہوگا؟

میرا اسلام آباد میں بیس سالہ رپورٹنگ تجربہ کہتا ہے کہ رپورٹر کو بڑی خبر اچانک ہی ملتی ہے۔ تیرہ آرمی جرنیلوں کی برطرفی کی خبر بھی میرے ہاتھ ایسے لگی جو سکوپ بن گئی۔ اگرچہ یہ کریڈٹ عامر متین کو جاتا ہے کہ سوموار کے روز مجھے بتایا کہ دو آرمی جنرلز کے خلاف آرمی چیف نے کارروائی کی ہے۔ اس پر بہتر ہوگا کہ فوجی ترجمان سے رابطہ کر کے سٹوری پر کمنٹ لیں۔ میں نے جنرل سلیم عاصم باجوہ کو منگل کو ہی موبائل پر سوال لکھ کر بھیج دیا۔ تاہم تین دن تک رابطہ نہ ہوسکا۔ اس دوران میں نے مزید کام کیا تو پتہ چلا کہ دراصل یہ دو آرمی افسران نہیں ہیں بلکہ تیرہ ہیں ۔ 
اب جمعرات کے روز دو بجے کے قریب خبر کنفرم ہوئی تو میں نے بریک کر دی جو جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ 
سوال یہ نہیں ہے کہ یہ دو آرمی افسران ہیں یا تیرہ جنہوں نے ایف سی بلوچستان میں مال بنایا اور سمگلنگ کے زریعے پیسے کھائے گئے اور اپنے ذاتی اکائونٹس میں رقومات ٹرانسفر کی گئیں اور بڑے پیمانے پر مال بنایا گیا ۔ 
ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ بڑا مشکل فیصلہ تھا ۔ تاہم فوج کے لیے یہ زیادہ صدمہ تھا کہ اتنے بڑے افسران جن کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا کہ وہ بلوچستان جیسے صوبے میں جاری لڑائی کو کنٹرول میں لائیں گے لیکن پتہ چلا ایف سی کے سربراہ نہ صرف خود کرپشن میں ملوث ہوچکے تھے بلکہ انہوں نے نچلے لیول پر اپنے ماتحتوں کو بھی اس کرپشن میں شامل کر لیا تھا اور سمگلروں کے ساتھ مل کر مال بنایا جارہا تھا ۔سوال یہ ہے کہ کیا افسران کو یہ زیب دیتا تھا کہ جس صوبے میں تیس ہزار سے زائد ایف سی کے نوجوان ان کے نیچے اپنی جان کی بازی لگائے ہوئے ہوں وہ سمگروں سے مل کر مال بنا رہے ہوں؟کیا سو ل بیوروکریسی کے بعد اب ملٹری بیوروکریسی بھی اس ڈگر پر چل نکلی ہے کہ جس کے ہاتھ جو لگتا ہے کما لے۔ شاید ان افسران نے یہ سوچ لیا تھا کہ آرمی افسران پہلے بھی کرپشن کرتے چلے آئے ہیں۔ اگر انہوں نے اب کر لی تو کیا ہوجائے گا۔ پورا ملک ہی اس مزاج کا شکار ہوچکا ہے کہ کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں رہا۔ جس کا جہاں دائو لگ سکتا ہے وہ لگا لے۔ شاید ان افسران کو اس بات سے حوصلہ ملا ہو کہ جنرل کیانی نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عمل نہیں کیا تھا کہ جس میں کہا گیا تھا جی ایچ کیو آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی جنرل اسد درانی اور سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے خلاف کارروائی کرے کیونکہ ان پر یہ الزام ثابت ہوگیا تھا کہ انہوں نے انیس سو نوے میں بینظیربھٹو کو ہرانے کے لیے چودہ کروڑ روپے سیاستدانوں میں بانٹے تھے۔آئی ایس آئی سے پیسے لینے والوں میں نواز شریف بھی شامل تھے۔ تاہم جنرل کیانی وہ فائل دبا کر بیٹھ گئے۔ 
تاہم جنرل راحیل نے این ایل سی سکینڈل میں ایک جنرل کو برطرف کر کے یہ پیغام دے دیا تھا کہ شاید وہ کرپشن نہ برداشت کریں۔ تاہم دوسری طرف یہ بھی سوچ تھی کہ شاید وہ ریٹائرڈ افسران تھے لہٰذا ان کے خلاف کارروائی آسان کام تھا۔تاہم اب دیکھا گیا تھا ہے جن افسران کو برطرف کیا گیا ہے ‘وہ سرونگ تھے جن میں لیفٹیننٹ جنرل اور میجر جنرل تک شامل تھے۔ 
تاہم ابھی تک مجھے نیویارک کے دوست تبسم بٹ کی بات یاد آتی ہے جو ہر دفعہ مجھے پیغام بھیجتا ہے کہ ہونا کجھ وی نئیں۔اب یہ سوال اہم ہے کہ اب کیا ہوگا۔کیا واقعی کچھ نہیں ہوگا؟
شاید اس مایوسی کے پیچھے نیب ہے جس کے سربراہ اب تک وہ لوگ لگتے رہے ہیں جو عدالتوں میں بڑے لوگوں اور حکمرانوں کے وکیل بن کر پیش ہوتے رہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مقدمے میں چیف جسٹس افتخار چوہدری نے فصیح بخاری کو کہا تھا کہ آپ نیب کے چیئرمین ہیں یا آصف زرداری اور دیگر ملزمان کے وکیل بن کر پیش ہوئے ہیں۔ میں اس وقت عدالت میں موجود تھا۔ 
اسی نیب کو ہم نے دیکھا کہ اس نے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے دبائو پر میگا سکینڈلز کی ایک فہرست سپریم کورٹ میں پیش کی جس میں ایک سو ستر کے قریب میگا سکینڈلز تھے جن کی مالیت ایک اندازے کے مطابق تین ہزار ارب روپے تھی۔ نیب نے ایک بھی اہم ملزم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ باقی چھوڑیں اسحاق ڈار اور زرداری کے خلاف بعض مقدمات تو ایسے بھی ہیں جو دو ہزار سے چل رہے ہیں اور چودہ برس گزرنے کے بعد بھی جنہیں نیب مکمل نہ کر سکا۔ پچھلے دنوں قومی اسمبلی میں ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ نیب پنڈی میں صرف دو مقدمات کا فیصلہ ہوا تھا۔ باقی لٹک گئے تھے یا انہیں کچھ مال پانی لے کر چھوڑ دیا گیا تھا ۔
جب نیب ہی مال پانی پر لگ جائے تو کون ایکشن لیتا ۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ پورے پنڈی نیب میں دو مقدمات کا فیصلہ ہوا۔ نیب کا ایک اور معرکہ پڑھیں۔
ابھی پچھلے دنوں نیب نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں انہوں نے پیپلز پارٹی کے سابق وزیر سینیٹر وقار احمد علی خان کو پچاس کروڑ روپے سکینڈل پر کلین چٹ دی ہے۔ سکینڈل کچھ یوں تھا کہ دو ہزار دس میں سینیٹر وقار نے نج کاری کمشن کے پچاس کروڑ روپے جان بوجھ کر ایک سرکاری بنک سے نکلوا کر ایک پرائیوٹ بینک میں رکھوا دیے اور وہ ڈوب گئے۔ اس پر نیب کو مقدمے کے لیے خط لکھا گیا ۔ پھر ایف آئی اے نے مقدمہ درج کیا۔ سپریم کورٹ نے نوٹس لے لیا۔ اب پانچ سال بعد پتہ چلا ہے کہ نیب نے بالا بالا ڈیل کر لی ہے اور بینک کے سربراہ کو کہا گیا ہے کہ وہ چالیس کروڑ روپے واپس کر دے‘ وہ اسے دودھ سے دھو کر گھر بھیج دیں گے۔ حالانکہ پانچ سال قبل پچاس کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا۔ کوئی مارک اپ، جرمانہ کچھ نہیں مانگا گیا ۔ جب کہ سکینڈل کے مرکزی کردار سینیٹر وقار احمد نے لندن میں ڈیرھ ایکڑ کا ایک گھر خریدا جس میں ان کا پروگرام بائیس بیڈروم بنانے کا تھا۔ جہاں سینما ہائوس، شراب خانہ، جم، سوئمنگ پول، بلیئرڈ روم اور دیگر تعمیرات ہونی تھیں۔ یہ انہوں نے ایک کروڑ بیس لاکھ پونڈ میں خرید اور اس کے بدلے میں ڈوچے بینک سے پانچ کروڑ پونڈز کا قرضہ لے لیا۔ تاہم انہوں نے قرضہ واپس نہ کیا جس پر بینک نے عدالت میں کیس کر دیا اور اب اس گھر کی مالیت تین کروڑ پونڈزہوچکی تھی اور اندازہ تھا کہ اگر وہ اس پر کام مکمل کرلیتے تو یہ دس کروڑ پونڈمالیت کا گھر تھا ۔ عدالت نے ان سے وہ گھر چھین کر بینک کو دے دیا ۔ ایسے کمائے گئے پیسے پھر ایسے ہی چلے بھی جاتے ہیں۔ 
یوں جن صاحب نے نج کاری کمشن کو نقصان پہنچایا اور لندن جا کر پراپرٹی بنائی اسے نیب نے بڑے ارام سے کلین چٹ دے کر گھر بھیج دیا۔ کوئی پوچھنے و الا نہیں کہ سینیٹر وقار نے ایک کروڑ بیس لاکھ پونڈ کا گھر لندن میںکیسے خریدا، اس کے علاوہ نائٹس برج پر چھ فلیٹس خریدنے کے لیے پیسہ کہاں سے آیا۔یہ سب کچھ پاکستان سے کمایا ہوا مال تھا۔
اس کے علاوہ نیب ایک اور سکینڈل پر بیٹھا ہوا ہے۔ وہ گیلانی صاحب کی وزیر عاصمہ ارباب عالمگیر اور ان کے میاں کا سکینڈل ہے۔ ان کے میاں گیلانی کابینہ کے وزیرمواصلات تھے۔ ایک چینی کمپنی کو ٹھیکہ ملا۔ پچیس لاکھ ڈالرز کا کمشن لیا گیا جو کہ بنکاک کے ایک بینک میں ادا کیا گیا۔ وہ رقم اسی بینک کے ذریعے دوبئی ٹرانسفر ہوئی اور ان پیسوں میں سے ہی سولہ لاکھ ڈالرز کے چار فلیٹس عاصمہ ارباب نے اپنے نام پر لندن میں خریدے۔ میرے پاس عاصمہ عالمگیر کے اس سکینڈٖل کی پوری فائل موجود ہے۔ 
جو کرنا ہے کر لو۔ 
نیب اب تک ایک سو ستر سکینڈل پر کوئی کام نہیں کر سکا تو آگے کیا کرے گا۔ فوج نے احتساب کرنا تھا تو چند ماہ میں مکمل کر کے اپنے تیرہ اعلیٰ افسران کو برطرف کر دیا۔۔ نیب کے چیئرمین قمر الزمان کے بس کی بات نہیں ہے۔ وہ ساری عمر حکمرانوں کو یس باس کہہ کر پکارتے رہے ہیں وہ بھلا کب ان کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں۔ وہ بھی فصیح بخاری کی طرح بڑے بڑے ملزمان کے وکیل بن کر عدالت پیش ہوتے ہیں۔ 
اگر سب لوگ احتساب میں سنجیدہ ہیں تو پھر چیئرمین نیب شعیب سڈل یا پھر طارق کھوسہ کو لگا دیں تو آپ کو روزانہ اس طرح کی بریکنگ خبریں ملیں گی جیسے جنرل راحیل کے ہاتھوں تیرہ آرمی افسران کی کرپشن میں برطرفی پر ملی ہے اور پوری قوم میں ایک نئی جان پڑگئی ہے کہ مقدس گائے پر بھی ہاتھ ڈالا جاسکتا ہے۔ 
لیکن سوال یہ ہے کہ ایک مقدس گائے کا تو احتساب شروع ہے لیکن ہمیںجان سے پیارے سیاسی مقدس سانڈھوں کا احتساب کب اور کیسے ہوگا؟ 
جاتے جاتے نیویارک آئی لینڈ کے اپنے پیارے دوست تبسم بٹ صاحب کے نام۔ سر جی ہن کی کہندے او۔۔ہونا کجھ وی نئیں یا ہن کجھ ہوجائے گا ؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved