تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     22-04-2016

ٹوٹے اور امجد طفیل

غیر سیاسی قوّتوں کا مفاد
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پانامہ لیکس پر ہرگز کسی احتجاج کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ٹیکس چوری‘ کرپشن اور منی لانڈرنگ وغیرہ ایسے معاملات نہیں ہیں کہ ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جائے اور خواہ مخواہ عوام کو بے آرام اور پریشان کیا جائے۔ ہو نہ ہو یہ ساری شرارت غیر سیاسی قوتوں ہی کی ہے؟ جبکہ مندرجہ بالا معاملات پر قوم کو بردباری اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور تیز رفتاری سے ترقی کرتے ہوئے ملک کی راہ میں روڑے اٹکانے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ‘ اسی لیے پیپلز پارٹی نہ تو وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے اور نہ ہی کسی دھرنے وغیرہ میں شریک ہونے جا رہی ہے اور ملک کے انتہائی مفاد میں دونوں پارٹیوں کی حسب معمول یکجا رہنے ہی میں عافیت ہے۔
والد کی طرف سے
پیپلز پارٹی کے رہنما قیوم سومرو نے کہا ہے کہ زرداری کو پیسہ والد سے ملا۔ اب تک کی رپورٹس اور جھوٹی سچی اطلاعات تو یہ ہیں کہ زرداری صاحب کے والد بزرگوار جناب حاکم علی زرداری صرف ایک برف خانے کے مالک تھے اور زرداری نوجوانی میں سینما کے ٹکٹ بلیک کیا کرتے تھے اور بینظیر بھٹو کی حکومت میں ایک شخص کی ٹانگ سے بم باندھ کر اسے بینک لے گئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ مصروفیات ہی اتنی نفع بخش ہیں تو حسین نواز وغیرہ پر بیرون ملک سٹیل مل بنانے اور پھر آف شور کمپنیاں بنانے کا بھوت کیوں سوار ہوا کیونکہ ان دھندوں ہی سے وہ اتنی دولت کما سکتے تھے کہ والد صاحب کو بھی بعد میں اتنے پاپڑ نہ بیلنا پڑتے۔ بلکہ دیگر ہر طرح کے سرمایہ کار بھی مختلف جوکھم اٹھانے کی بجائے اس کاروبار سے مالا مال ہو سکتے تھے۔ حالانکہ ان کی آنکھوں کے سامنے ایک برف خانہ ہی کشتوں کے پشتے لگا گیا جبکہ باقی ہنر مندی اس کے علاوہ ہے۔ 
مطلع صاف
جب جوڈیشل کمیشن کی سربراہی کے لیے جسٹس سرمد عثمانی کا نام حکومت کی طرف سے تجویز کیا گیا تو اپوزیشن نے یہ کہتے ہوئے ان کا نام مسترد کر دیا کہ ان کی اہلیہ کا تعلق نواز لیگ سے ہے جس کی نواز لیگ والوں نے باقاعدہ تردید کی کہ ان کی اہلیہ کا نواز لیگ سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اب ایک دم یہ خبر سامنے آئی ہے کہ صاحب موصوف کی اہلیہ نے ن لیگ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے جو کہ فوری طور پر منظور بھی ہو گیا ہو گا کیونکہ نواز لیگ اور اس کے روح و رواں میاں نواز شریف ضروری فیصلے جلدی اور عین وقت پر کرنے کے لیے بطور خاص مشہور ہیں۔ چنانچہ اب تو اپوزیشن والوں کو جسٹس صاحب کے نام پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اب تو آخری رکاوٹ بھی دور ہو گئی ہے۔ نیز اب تک اس طرح کے کمشنوں کی جو کارگزاری ہے اور ان کا جو جو انجام ہوا ہے‘ اس کے پیش نظر بھی اپوزیشن کو جسٹس صاحب کے علاوہ بھی کسی نام پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
حفظِ مراتب
خبر ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں جو زرداری صاحب کے ملکیتی چرچل ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں‘ وزیر اعظم خود ان سے ملنے کے لیے ہوٹل مذکور میں گئے اور اس بات کا بطور خاص خیال رکھا گیا کہ کہیں وزیر اعظم کی زرداری سے ملاقات نہ ہو جائے۔ البتہ اس اعتراض کی کوئی ایسی اہمیت نہیں کہ وزیر داخلہ انہیں ملنے کے لیے کیوں نہیں آئے اور وزیر اعظم کیوں ان کی ملاقات کے لیے چلے گئے کیونکہ وزیر اعظم سادہ مزاج ہیں اور اس طرح کے تکلفات اور غیر ضروری رکھ رکھائو کے قائل ہی نہیں ہیں بلکہ وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں بھی ان کے حصے کا سارا کام دختر اوّل مریم نواز کرتی ہیں تاکہ آئندہ کبھی وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں اپنے نازک کندھوں پر اٹھا سکیں اور وہ وقت کسی بھی لمحے آ سکتا ہے کیونکہ یہ جب آتا ہے تو کسی سے پوچھ کر نہیں آتا جبکہ اب تک موصوفہ کی ٹریننگ بھی مکمل ہو چکی ہو گی۔ جلنے والوں کا منہ کالا۔
طبیعت اچھی ہے!
وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ان کی طبیعت اچھی ہے اور وہ وطن واپس آگئے ہیں۔ یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ سب جانتے ہیں کہ لندن ایک ایسا صحت افزا مقام ہے کہ جہاں جا کر‘ بلکہ جاتے ہی تمام بیماریاں دور ہو جاتی ہیں اور آدمی جتنا بھی بیمار اور لاچار ہو‘ آن کی آن میں بھلا چنگا ہو جاتا ہے جیسا کہ قبلہ جنرل مشرف صاحب جو یہاں پر وصیت لکھوانے کی تیاریاں کر رہے تھے‘ وہاں پہنچتے ہی جاق و چوبند ہو گئے ہیں اور سنا ہے بہت جلد وہاں کسی نمائشی دنگل میں بھی حصہ لینے والے ہیں‘ اور اگر وہ چرچل ہوٹل میں جا قیام کرتے تو اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ہٹے کٹے ہو جاتے کہ وہاں کی فضا زیادہ خوشگوار ہے اور مشورے کے لیے بڑے سے بڑا حکیم بھی دستیاب ہے یعنی اگر لندن کا کرایہ پاس ہو تو مہلک سے مہلک بیماری بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی‘ صرف ایک بار وہاں پہنچنے کی دیر ہے بلکہ سنا ہے کہ وہاں تو موت کا فرشتہ بھی پر نہیں مار سکتا! ثابت ہوا کہ صحت افزا ہونے میں دبئی بھی لندن سے کسی طور کم نہیں ہے۔
کامیابی
ہمارے دوست امجد طفیل ایک بار پھر حلقہ ارباب ذوق کے سیکرٹری منتخب ہو گئے ہیں۔ اپنے حریف سے 107ووٹ زیادہ لے کر اور کسی قسم کی دھاندلی کی بھی کوئی شکایت یا اطلاع نہیں ہے جس کی وجہ شاید یہ ہو کہ یہ الیکشن ہمارے محبوب الیکشن کمیشن نے نہیں کروایا تھا۔ انہیں یہ فتح مبار ک ہو!
آج کا مقطع
میں نے اب تک تو بچایا ہے محبت کو ‘ ظفر
اور اب میں اسے محفوظ نہیں رکھ سکتا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved