تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     23-04-2016

یہ بہار کیسی ہو گی؟

پاک فوج اور منتخب حکومت کے درمیان روایتی کشمکش‘ لفظوں میں کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ لیکن الفاظ میں ڈھلے بغیر ‘یہ لڑائی یا کش مکش‘ ایک نئے اندازکے ساتھ جاری ہے۔ پاکستانی میڈیا اس سلسلے میں احتیاط سے کام لے رہا ہے۔ لیکن حقائق عوام کے سامنے رکھنے میں بے احتیاطی بھی نہیں کی جا رہی۔ یوں لگتا ہے کہ دونوں فریقوں کے مابین‘ سابقہ تجربوں کی بنا پر کھیل کے اصول بڑی حد تک بن چکے ہیں۔ فی الحال میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ حتمی ہیں۔ کسی بھی وقت کوئی فریق‘ جوش یا جذبات میں آ کرلائن پار کر سکتا ہے۔ایسے معرکے زیادہ تر فوج اور نوازشریف کے مابین ہوئے اور دونوں معرکوں میں جنرل وحید کاکڑ درپردہ اور پرویزمشرف دھڑلے سے ‘ کامیاب رہے۔ دونوں مرتبہ نوازشریف کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ ایک مرتبہ سافٹ ایگزٹ تھا اور دوسری مرتبہ انتہائی تکلیف دہ۔موجودہ کشمکش میں تادم تحریر باہمی احترام اور سلیقہ برقرار ہیں‘ مگر جیسے جیسے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں‘ ان میں دانتوں کا باہر نکلنا بعید از قیاس نہیں۔ بی بی سی نے نئی اور سافٹ کشمکش کو یوں بیان کیا ہے۔ 
''پاکستان میں بدعنوانی کے خلاف جاری میچ کو سیاست دان تو یقیناً پانچ روزہ ٹیسٹ میچ سمجھ کر کئی دہائیوں سے کھیل رہے تھے لیکن فوج کی جانب سے اپنے چھ اعلیٰ اہلکاروں کے خلاف کارروائی نے اسے ٹی 20 کا کھیل بنا دیا ہے۔سوشل میڈیا پر اس سنسنی خیز چھکے نے جنرل راحیل شریف کو ایک مرتبہ پھر سب سے بڑا ٹرینڈ بنا دیا ہے۔پاکستانی فوج کی تاریخ رہی ہے کہ کبھی کوئی کام بغیر سوچے سمجھے نہیں ہوتا اور وہاں اندرونی سوچ بچار کے میکینزم، بڑے جاندار اور جامع رہے ہیں۔پچ جیسی بھی ہو، فوج اس کا استعمال انتہائی مہارت سے کرتی ہے۔ چھ اعلیٰ اہلکاروں کی برطرفی یقیناً کوئی ایسا فیصلہ نہیں تھا جو یک لخت سامنے آگیا ہو۔ اس کے لیے جنرل راحیل شریف نے گزشتہ دنوں، اپنے دورہ شمالی وزیرستان کے دوران ہی پچ ہموار کر دی تھی۔شوال کے گھنے جنگلات میں سپاہیوں سے خطاب کے دوران، پورے ملک میں بلا امتیاز مالی احتساب کے بیان پر حیرت واجب تھی۔ ہر کوئی اسے پاناما لیکس کے ساتھ جوڑ رہا تھا۔ دراصل جنرل راحیل کے ذہن میں، ان افسران کی سمری تھی، جس پر وہ شاید ہیلی کاپٹر پر سوار ہونے سے پہلے دستخط کر آئے تھے۔اس بیان نے حسب معمول پاکستانی میڈیا کو طوفان کی صورت نرغے میں لے لیا۔ پاناما لیکس کے موضوع کو نئی زندگی مل گئی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میڈیائی زبان کے مطابق 'پرانا‘ ہوتا جا رہا تھا۔انہوں نے اس موضوع پر ملک کے سب سے طاقتور ادارے کی رائے دو ٹوک انداز میں واضح کر دی تھی۔ اس وقت فوج بولنگ کروا رہی تھی اور فوجی سربراہ نے ایسی گگلی کروائی کہ کچھ نہ کہتے ہوئے بھی، سب کچھ کہہ دیا۔بیان میں نہ پاناما کا ذکر تھا اور نہ کسی کے خاندان کے بیرون ملک اثاثوں کا حوالہ۔ مختصر الفاظ میں مطلب تھا کہ بس بہت کرپشن ہو گئی۔اکثر لوگوں کی رائے میں فوج نے اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ سب کے سامنے کھل کر غیرمعمولی قدم اٹھایا ہے۔اس سے قبل جب بھی فوج کے اندر احتساب کے بارے میں سوال ہوتے تھے تو کہا جاتا تھا کہ یہ مسلسل عمل ہے‘ جو ہر وقت جاری رہتا ہے۔ اسے سرعام محض اس لیے نہیں کیا جاتا کہ اس سے فوج کے وقار اور مورال پر انتہائی منفی اثر پڑے گا۔لیکن فوج نے کھل کر برطرفیوں کا اعلان کر کے، ماضی کی تاریخ تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مورال پر اثر انداز ہونے کا بیانیہ بھی تبدیل کر دیا ہے۔ وہ بھی ایک ایسے وقت جب جنرل راحیل نے ایک اور بیان میں دہشت گردی کے خلاف جاری کارروائیوں کے دائرے کو قبائلی علاقوں کے علاوہ دیگر علاقوں تک پھیلانے کا حکم دیا تھا۔
جنرل راحیل کی کئی چیلنجوں سے بیک وقت نمٹنے کی ان کوششوں کو نیک نیتی سے دیکھا جا رہا ہے لیکن ساتھ میں امید کی جا سکتی ہے کہ مختلف علاقوں میں اراضی کا مبینہ غلط استعمال جیسے کیسوں کا بھی کچا چٹھا سامنے لایا جائے گا۔ شفافیت کے فوائد سے شاید ہی کسی کو انکار ہو۔جنرل صاحب کی واہ واہ ہو رہی ہے لیکن اب گیند سیاست دانوں کے کورٹ میں ہے۔تحریک انصاف کے رہنما عمران خان تو لندن بڑا چرچا کر کے گئے تھے کہ آف شور کمپنیوں کے کھاتوں کے ماہرین سے مشورہ کرنے جا رہے ہیں لیکن واپسی پر کوئی زیادہ پرعزم دکھائی نہیں دے رہے۔اس تمام بحث میں اس پر بات ،اب بھی نہیں ہو رہی ہے کہ ٹیکس بچانے اور ملکی سرمایہ باہر لے جانے والوں سے کیسے نمٹا جائے؟اب دیکھنا ہے کہ نواز شریف کے مسلم لیگی ٹائیگرز کی ٹیم کس طرح کھیلتی ہے؟ کیونکہ میچ ابھی جاری ہے۔‘‘
ایک اور تبصرے میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی فوج نے اپنے چھ افسروں کو ان کے عہدوں سے برطرف کر دیا ہے۔ کرپشن کی نوعیت اور تفتیشی عمل کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ فی الحال برطرف کئے جانے والے افسروں کی تعداد کے بارے میں بھی ابہام پایا جاتا ہے۔ 
''فوج پر کرپشن کے الزامات کوئی نئی بات نہیں۔ بات اراضی کی ہو، ہاؤسنگ سکیم کی یا سرمایہ کاری کی یا پھر اختیارات کے استعمال اور فنڈز میں خرد برد کی، یہ الزامات ماضی میں بھی سامنے آتے رہے ہیں۔لیکن فوج کی صفوں میں ایک ہی بار اتنی بڑی تعداد میں کرپشن کے الزامات پر نہ صرف اپنے افسروں کو برطرف کرنا اور اس خبر کو عام کیا جانا ایک ایسا عمل ہے جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔فوج کا ہمیشہ یہ دعویٰ رہا ہے کہ اس کے اندر خود احتسابی کا ایک نظام موجود ہے اور یہ عمل جاری رہتا ہے۔ لیکن فوج کے اندر کی جانے والی خود احتسابی کو کبھی منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ماضی قریب پر نظر دوڑائیں تو نیشنل لوجسٹک سیل یعنی این ایل سی کا کیس ان چند کرپشن کیسز میں سے ایک ہے جو سامنے آئے اور جن میں فوجی افسروں کو سزا ہوئی تاہم اس کرپشن کیس کے لیے اہم کوشش پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی تھی جو 2009ء میں بنی۔اس عرصے میں یہ الزام سامنے آیا تھا کہ تین جرنیلوں نے 2004 ء سے 2007ء تک سٹاک مارکیٹ سمیت مختلف شعبوں میں جو سرمایہ کاری کی‘ اس سے این ایل سی کو ایک ارب 80 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔لیکن پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور فوج کے درمیان یہ کیس ایک تنازع بن کر طوالت اختیار کر گیا تھا اوربالآخر اس میں جیت فوج کی ہی ہوئی تھی۔اس کمیٹی کی سابقہ رکن یاسمین رحمٰن بتاتی ہیں کہ 'فوج چاہتی تھی کہ وہ خود انکوائری کرے لیکن ایک سال تک انتظار کرتے رہے مگر فوج کی جانب سے کوئی احتسابی رپورٹ نہیں ملی۔‘اگست 2015ء میں فوجی حکام نے بتایا کہ این ایل سی میں، مالی بے ضابطگیوں کے الزامات کی تحقیقات کی روشنی میں دو فوجی جرنیلوں کو فوج سے برخاست کر کے ان کی تمام مراعات واپس لے لی گئی ہیں۔فوج کی ہاؤسنگ سوسائٹیز پر بھی سوالات کئی بار اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ 2011 ء میں سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کے تحت چلنے والا ریلوے لینڈ کیس ،اس کی ایک مثال ہے جس میں تین سابقہ جرنیلوں سے جواب طلبی کی گئی تھی۔یہ کیس اب بھی زیرِ التوا ہے۔دفاعی امور کے ماہر پروفیسر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ اسی سے نوے کی دہائی تک، فوج پارلیمانی کمیٹیوں کے سامنے جانے سے ہچکچاتی تھی تاہم جنرل کیانی کے دور میں تبدیلی نظر آئی۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ اب بھی فوج اپنے قواعد کے تحت محکمانہ کارروائی کرنا چاہتی ہے اور اپنے سسٹم کو ہی صحیح مانتی ہے تاہم حالات اب پہلے سے کچھ مختلف ضرور ہوئے ہیں۔‘‘
وزیراعظم نوازشریف کے لئے پاناما سکینڈل اوچھا وار ثابت ہوا۔ ابھی تک وہ روایتی انداز میں سنبھل کر جواب نہیں دے پا رہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے ردعمل میں توازن آتا جا رہا ہے۔ تادم تحریر وہ دفاعی پوزیشن سے کھیل رہے ہیں۔ اس طرح کے معاملات میں اچانک کسی تبدیلی کا آ جانا باعث حیرت نہیں ہوتا۔ اگر پاناما کے آف شور اکائونٹس میں سے ایک بھی وزیراعظم کے اپنے نام پر نکل آتا ہے‘ تو ان کی پوزیشن کمزور ہو جائے گی۔ البتہ اگر ان کے نام پر کوئی اکائونٹ نہیں نکلتا‘ تو انہیںاپنے بچوں کی جنگ لڑنا پڑے گی۔ اس جنگ میں بھی وزیراعظم کی پوزیشن زیادہ مضبوط نہیں۔ 
نوٹ:- گزشتہ ایک کالم میں لکھ چکا ہوں کہ اسحق ڈار نے شایدکبھی غربت نہیں دیکھی۔ ایک نوجوان صحافی سلمان بٹ نے ٹیلیفون کر کے بتایا کہ'' اسحق ڈار نے انتہا کی غربت دیکھی ہے اور وہ اپنی نانی کے ہاں بہت برے حالات میں پروان چڑھے ہیں۔‘‘ یہ بات درست ہے‘ تو وہ غربت کو مٹانے کے بجائے‘ غریبوں کو مٹانے پر تلے ہیں۔ اپنا اپنا انداز ہوتا ہے۔اسحق ڈار نے اپنے مشہور و معروف بیان حلفی کے بارے میں کہا کہ انہیں انتہائی مجبوری کے عالم میں‘ لکھنا پڑا۔ لیکن معروف اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود نے گزشتہ رات حلفیہ بیان کیا کہ ڈار صاحب کو پرویزمشرف نے وزیراعظم بننے کا جھانسہ دیا تھا اور وزارت عظمیٰ کی خاطر یہ بیان حلفی انہوں نے بہ رضا و رغبت اور بصدشوق لکھ کر دیا تھا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved