تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     23-04-2016

اعتراض کیوں؟

'بھارت ماتا کی جے‘ کو لے کر چھیڑی گئی بحث بالکل بے تکی اورغیر ضروری ہے۔ نہ تو اس کا مذہب سے کچھ لینا دینا ہے نہ یہ آر ایس ایس کی ملکیت ہے۔کیا 'بھارت ماتا کی جے‘ کانعرہ سنگھ کا دیا ہوا ہے؟ سنگھ کی پیدائش 1925ء میں ناگپور میں ہوئی۔
'بھارت ماتا کی جے‘ کا نعرہ کیا 1925ء میں شروع ہوا؟ اس سے پہلے بھارت کے آزادی کے متوالے کون سا نعرہ لگاتے تھے؟ بال گنگا دھر تلک ‘بدرالدین طیبہ‘ لالا لاجپت رائے‘ دادا بھائی نورا جی ‘ مہاتما گاندھی‘ جواہر لعل نہرو‘ سبھاش بوس‘ مولانا ابوالکلام آزاد اور حکیم اجمل خان کون سا نعرہ لگاتے تھے؟ کیا یہ سب عظیم لیڈر سنگھ کے کارکن تھے؟
کیا چندر شیکھر آزاد ‘ بھگت سنگھ سکھدیو‘ راجگرو‘ رام پرساد بسمل‘ اشفاق اللہ خان بھی سنگھ کے حکم پر 'بھارت ماتا کی جے‘ بول کر پھانسی کے پھندے پر چڑھے تھے؟ کیا یہ نعرہ صرف ناگپور میں ہی لگایا جاتا تھا؟ کیا یہ نعرہ کشمیر سے کنیا کماری اور اٹک سے کٹک تک سارے بھارت میں نہیں گونجتا تھا؟
تو پھر اس نعرے کی مخالفت کس لیے ہو رہی ہے؟ کیا صرف اس لئے کہ سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے اس نعرے کی تعریف کر دی ہے؟ انہوں نے صرف یہ کہا کہ بھارت کے نوجوانوں کو یہ نعرہ ذرا زور سے گونجانا چاہیے۔ اگر آپ نے یہی ضد پال رکھی ہے کہ سنگھ جو بھی کہے اس کی مخالفت کرنی ہے تو آپ کسی دن اپنے آپ کو مسخرہ بنا لیں گے۔ اگر سنگھ اعلان کر دے کہ شراب پینا غلط ہے تو کیا آپ شراب نوشی کو صحیح ٹھہرانے پر اڑ جائیں گے؟ اسد الدین اویسی نے کہا کہ ہم موہن بھاگوت کا حکم کیوں مانیں؟ بالکل ٹھیک ہے۔ بھارت کا ہر باشندہ آزاد ہے کسی بھی بات کو ماننے‘ نہ ماننے یا کچھ اور ماننے کے لیے، اسے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے پہلے ہی دن کہا تھا کہ اگر کوئی 'بھارت ماتا کی جے‘ نہیں بولنا چاہتا تو نہ بولے۔ یہی بات کچھ دن بعد موہن بھاگوت جی نے بھی کہہ دی۔ اب تو کوئی بحث نہیں رہنی چاہیے تھی، لیکن دو فتوے حیدرآباد سے جاری ہوگئے اور ایگ دیو بند سے۔
اس نعرے کی مخالفت کرتے ہوئے اویسی نے پوچھا تھا کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ 'بھارت ماتا کی جے‘ بولو؟ کیا ہر بات آئین میں لکھی جا سکتی ہے؟ یہ بات ایسی ہی ہے جیسے انا ہزارے نے ایک بار مجھ سے پوچھا کہ ہم لوگ ایسی تحریک کیوں نہ چلائیں جو ملک کی سبھی پارٹیوںکو بھی برخاست کرنے کی مانگ کرے؟ میں نے پوچھا کیوں چلائیں تو انہوں نے کہا کہ یہ سب پارٹیاں غیر قانونی ہیںکیونکہ آئین میں ان کا ذکر تک نہیں ہے۔ فلمی شاعر جاوید اختر نے خوب کہا کہ آئین میں یہ کہاں لکھا ہے کہ سب لوگ کپڑے پہن کر ہی گھر سے باہر نکلیں۔
موہن بھاگوت کی وجہ سے جو فتوے جاری کر رہے ہیں اور جو لیڈر اس نعرے کی مخالفت کر رہے ہیں‘ وہ اپنے آپ کو سنگھ کے ہاتھ کا کھلونا بنا رہے ہیں۔
وہ بلا وجہ اپنے آپ کو بھارت کے ہندوئوں‘ سکھوں‘ عیسائیوں‘ پارسیوں اور یہودیوں سے الگ کر رہے ہیں۔ ان کے سبب مسلمان لوگ ‘چاہے وہ کتنے ہی کم ہوں‘ گمراہ ہو سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم 'بھارت ماتا کی جے‘ کی جگہ 'جے ہند‘ کہیں گے۔ میری نظر میں دونوں ایک ہی ہیں، لیکن 'ہند کی جے‘ پر بہت زور دینے والوں کو بتا دوںکہ ہندو لفظ اسی 'ہند‘ سے نکلا ہے اور 'ہندو ملک‘ بھی۔ فتوے باز لیڈر انجانے میں ہی اپنا نقصان کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایک سادہ نعرے پر ضد بازی کسی دن علیحدگی پسندی کی جڑ ثابت ہو سکتی ہے۔
جہاں تک 'بھارت ماتا کی جے‘ کو اسلام کے خلاف کہنے کی بات ہے‘ وہ بھی صحیح نہیں ہے۔ بھارت ماتا کوئی بت نہیں ہے، کوئی بے جان چیز نہیں ہے، وہ کوئی دیوی بھی نہیں ہے۔ اس کی عبادت کوئی بت پرستی نہیں ہوگی۔ بت پرستی یا مورتی پُوجا تو آریہ سماجی‘ سکھ اور عیسائی بھی نہیں کرتے۔ جب انہیں 'بھارت ماتا کی جے‘ کہنے میں کوئی اعتراض نہیں تو مسلمان کو اعتراض کیوں ہونا چاہیے؟جیسا کہ جواہر لعل نہرو نے لکھا کہ بھارت ماتا کا مطلب صرف بھارت ماتا کی زمین ہی نہیں ہے، اس کا مطلب بھارت کی ندیاں‘ تالاب‘ سمندر‘ آسمان اور سب سے زیادہ اس کے لوگ باگ ہیں۔ لوگ ہی بھارت ماتا ہیں۔ ماتا کیونکہ پیدا کرتی ہے‘ زندگی دینے والی ہوتی ہے‘ اس لئے اسے سب سے اعلیٰ مقام ملتا ہے۔ 
کمیونسٹ تاریخ دان عرفان حبیب نے یہ کہہ کر فرقہ واریت کے نظریے کو مضبوط کیا ہے کہ 'بھارت ماتا‘ یا ماتر بھومی (مادروطن) جیسے لفظ بھارتی نہیں ہیں۔ یہ ابھی ڈیڑھ سو سال پہلے یورپ سے ادھار لیے گئے ہیں۔ وہ درمیانی دور (Middle Ages) کے ہسٹری کے پروفیسر ہیں۔ اگر انہیں بھارت کے قدیم ادب کا تھوڑا سا بھی اندازہ ہوتا تو وہ ایسی بات کبھی نہیں کرتے۔ رگ وید میں کہا گیا ہے کہ 'پرتھوی ماتا دیورمے پتا‘ یعنی زمین میری ماں اور آسمان میرا باپ ہے۔ اتھرو ویدکہتا ہے: ''ماتا بھومی پترو ہم پرتھویا‘‘۔ راجا رام کہتے ہیں: سونے کی لنکا مجھے پسند نہیں، جنم دینے والی اور جنم بھومی ہی جنت سے بھی زیادہ پیاری ہے۔ بھارت کے ہندو ہی نہیں‘ پٹھان بھی 'مادر وطن‘ لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ 
اس نعرے کے مدعے پر بھاجپا اور کانگریس کی رائے ایک ہی رہی، فرق اتنا تھا کہ بھاجپا ذرا زیادہ بے صبر تھی، لیکن کمیونسٹ پارٹیوں کی رائے الگ تھی۔ مہا راشٹر اسمبلی سے وارث پٹھان کی معطلی میں کانگریسی ایم ایل ایز نے بڑھ چڑھ کر رول ادا کیا اور ایم پی کے کانگریسی ایم ایل اے جیتو پٹواری نے اویسی کے خلاف کارروائی کی پیشکش رکھ دی۔ اتنا تل کا تاڑکیوں بنا؟ کیونکہ ہمارے ذمے دار لیڈر زیادہ سوچتے نہیں۔کسی کے منہ سے کوئی فالتو بات نکلی نہیںکہ وہ اسے لے اڑتے ہیں۔ ٹی وی چینل تو اسی کے بھوکے ہوتے ہیں۔ گھانس کا بانس بنا دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ لیڈر حضرات یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ نظریات میں جوہری توانائی سے بھی زیادی طاقت ہوتی ہے۔ صرف پرچار پانے کے لیے نظریات سے کھلواڑ کرنا بہت ہی خطرناک ہے۔ 
ہیلی کاپٹروںکی رشوت کا کیا ہوا؟
اٹلی کی فرم آگسٹا ویسٹ لینڈ کے سابق سربراہ گیوسیپ آرسی اور ان کے ساتھی افسر برونو سپاگنولینی کو میلان کی عدالت نے بالترتیب ساڑھے چار اور چار سال کی سزا دی ہے۔ اس فرم نے2013 ء میں بھارت سرکارکو بارہ ہیلی کاپٹر بیچنے کا سودا کیا تھا۔ ان ہیلی کاپٹروں کا استعمال صدر‘ وزیراعظم وغیرہ کو کرنا تھا، لیکن 2014ء میں یہ خبر پھوٹ نکلی کہ اس 3600 کروڑکے سودے میں 423 کروڑ روپیہ رشوت کھائی گئی ہے۔ رشوت کھانے والوں میں ہماری کانگریس پارٹی کے بڑے لیڈروں اور ان کے مدد گاروںکے نام اچھلے۔ بھارتی فضائی فوج کے سربراہ کا نام بھی آیا۔ من موہن سرکار کی بڑی بدنامی ہوئی۔ اٹلی کی کورٹ میں مقدمہ چلا۔ مقدمہ میں آرسی اور برونو بری ہوگئے اور بھارتی دلالوں کو بھی بے داغ اعلان کر دیا گیا۔ پھر بھی ہماری سرکار اتنی ڈرگئی کہ اس نے سودا رد کر دیا۔ بھارت سرکارکے دو ڈھائی ہزارکروڑ روپے بھی واپس آگئے۔
لیکن میلان کی عدالت نے اورسی اور برونوکو مجرم پایا اور انہیں جیل میں ڈال دیا۔ یہ تو ٹھیک ہی ہوا، لیکن میں پوچھتا ہوں کہ جو جانچ پڑتال بھارت میں چل رہی تھی‘ اس کا کیا ہوا؟ من موہن سرکارکی ڈھیل تو سمجھ میں آتی تھی لیکن مودی سرکارکیوں سوئی ہوئی ہے؟ اس نے ابھی تک یہ پتا کیوں نہیں لگایا کہ کس کس نے کتنی رشوت لی تھی؟ کانگریس کے دفاعی وزیر اے کے انطونی نے قبول کیا تھا کہ اس سودے میں رشوت لی گئی تھی؟ کیا وہ رشوت بھی ہمارے لوگوں نے اطالویوںکو واپس کر دی ہے؟ نہیں کی تو ان سے چھین کر اسے خزانے میں جمع کیوں نہیںکروایا جاتا؟ ان سب لیڈروں‘ افسروں اور دلالوںکو جیل میں کیوں نہیں ڈالا جاتا؟ ان کی ساری دولت ضبط کیوں نہیں کی جاتی؟ بوفورس سودے میں سرف 62 کروڑ روپیہ کھایا گیا تھا،لیکن اس سودے میں اس سے چھ گنا زیادہ روپیہ کھایا گیا ہے۔ بوفورس سکینڈل میں راجیو گاندھی کی سرکار چلی گئی تھی، لیکن پیسے کہاں گئے‘ اس کا پتا آج تک نہیں چلا۔ اورسی تو پکڑا گیا لیکن کواترو چی مزے کرتا رہا۔ اٹلی کی عدالتیں قابل تعریف ہیں جنہوں نے خود پر کوئی دبائو نہیں آنے دیا اوراپنے مجرموں کو سزادی، لیکن ہمارا لچر پچر عدالتی نظام ابھی تک کچھ نہیں کر پایا۔ اگر میلان کی عدالت اورسی اور برونو سے ہمارے شوت خوروں کے نام اگلوا لیتی توکیا بات تھی! جس ملک میں لوگ بھوک مرتے ہیں‘ ان کے خون پسینے کی کمائی ہمارے لیڈراورافسر رشوت میں کھا جائیں ‘ اس سے بڑی ڈاکہ زنی اور کیا ہو سکتی ہے؟ ڈاکہ مارنے والے لوگ ہی ڈاکہ زنی پر روک لگائیں‘ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved