کیا افسوس کا مقام ہے کہ جھوٹی الزام تراشیاں ہمارا طّرۂ امتیاز ہو کر رہ گیا ہے جبکہ یہ ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس کے لیے ہمارے قائدین دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ اب اسی غلط بیانی اور الزام تراشی ہی کو لے لیجیے کہ صوبے میں نوگو ایریاز موجود ہیں حالانکہ خاکسار یہ وضاحت کئی بار کر چکا ہے کہ صوبے میں نو گوایریا نام کی کوئی چیز نہیں ہے چنانچہ اب کچے کے علاقے میں چھوٹو گینگ کے حوالے سے مجھے جھٹلانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ حالانکہ وہ علاقہ بھی کبھی نو گوایریا نہیں رہا اور جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پولیس وہاں صبح و شام آتی جاتی اور ان کے ساتھ معاملات باقاعدگی کے ساتھ طے کیا کرتی تھی۔ جبکہ نوگو ایریا تو وہ ہوتا ہے جہاں پولیس بھی پر نہ مار سکے جیسا کہ کراچی کے بعض نوگوایریاز ہیں۔ لیکن پولیس جب چاہتی یہاں بے دھڑک چلی جاتی‘ ان سے تاوان کی رقم میں سے اپنا طے شدہ حصہ وصول کرتی جس پر ہم نے کبھی اس لیے اعتراض نہیں کیا کہ ان غریبوں کے لیے یہ بھی روزی کا ایک بہانہ ہے ورنہ کمر توڑ مہنگائی کے اس زمانے میں تنخواہوں سے کس طرح گزارہ ہو سکتا ہے۔ نیز‘جیسا کہ چھوٹو وغیرہ کے اپنے بیانات سے ظاہر ہے‘ انہیں جدید اسلحہ بھی پولیس فراہم کرتی تھی لیکن اس سے
یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ اسلحہ گینگ والوں کو مفت مہیا کیا جاتا تھا‘ بلکہ پولیس انہیں باقاعدہ فروخت کرتی تھی جو کہ بجائے خود ایک جائز تجارت ہے‘ نیز یہ اسلحہ انہیں خود حفاظتی کے نقطۂ نظر سے سپلائی کیا جاتا تھا کیونکہ وہاں اور بھی کئی گینگ کام کر رہے تھے جو ان کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرتے رہتے تھے اور یہ انتہائی جدید اسلحہ پولیس خود اس لیے استعمال نہیں کرتی تھی کیونکہ یہ تو انہیں چلانا ہی نہیں آتا تھا‘ نہ ہی اسے چلانے کی انہیں کوئی تربیت دی گئی تھی کیونکہ خود حکومت کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ کیسے چلایا جاتا ہے۔ نیز پولیس کے ساتھ یہ لوگ تعاون اس لیے کرتے تھے کہ اس علاقے میں پولیس اہلکاروں اور افسروں کی تعیناتیاں‘ تبادلے اور ترقیاں تنزّلیاں بھی چھوٹو صاحب ہی کی سفارش پر کی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ معزز ارکان اسمبلی بھی ان کے ساتھ پورا پورا تعاون کرتے اور انہیں تحفظ فراہم کرتے تھے کیونکہ تاوان وغیرہ میں ان شرفاء کا بھی حصہ ہوا کرتا ہے جبکہ ہماری پالیسی بھی یہی ہے کہ سارا کام مل جل کر کیا جائے۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ فوج نے
یہاں بھی بہت جلد بازی سے کام لیا ہے کیونکہ اُدھر ہمیں پانامہ لیکس کی مصیبت پڑی ہوئی تھی جس نے وزیر اعظم صاحب کی صحت پر بھی نہایت برا اثر ڈالا اور ادھر فوج نے یہ گل کھلا دیا حالانکہ پہلے وہ مسئلہ حل ہو لینے دیتی جس کے لیے کمیشن بنانے کی تیاری کی جارہی تھی اور جس نے چند ہی سال میں اس کی خفیہ رپورٹ بھی دے دینی تھی جبکہ اسے بھی عین ملکی مفاد میں خفیہ ہی رکھا جانا تھا جس طرح ماڈل ٹائون والی رپورٹ کو ظاہر نہیں کیا گیا کہ اس سے امن و امان کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا جبکہ امن و امان ہی حکومت کی ترجیحاتِ اوّل میں شامل ہے۔
دوسری غلطی یہ کی گئی ہے کہ چھوٹو جیسے شرپسند کو زندہ ہی پکڑ لیا گیا ہے حالانکہ بمباری ذرا تیز کر کے اس کا بھی کام تمام کیا جا سکتا تھا‘ بیشک اس میں اغوا شدہ اہلکاران بھی کام آ کر رتبۂ شہادت حاصل کرلیتے جس پر ان کے لواحقین قیامت تک فخر کرتے رہتے۔ لیکن اب یہ ہو گا کہ یہ بد لگام طرح طرح کی بکواس بھی کرے گا اور اس میں کئی اور معززین کو بھی لپیٹتا رہے گا۔ حتیٰ کہ خاکسار کے حوالے سے بھی بے سروپا باتیں کرنے سے باز نہیں آئے گا اور میں چونکہ ایسے آدمیوں سے نفرت کرتا ہوں اس لیے میں نے تو اس سے بول چال بھی بند کر رکھی ہے‘ اس لیے ایسے چغلخور آدمی کو زندہ رہنے دینا کسی طرح بھی مفاد عامہ کے حق میں نہیں ہے جبکہ حکومتی مفاد ہی کو مفاد عامہ سمجھنا چاہیے کیونکہ حکومت بھی عام لوگوں ہی کی ہے جسے عام لوگوں نے ہی منتخب بھی کیا ہے جس میں تھوڑا بہت حصہ کچھ خاص لوگوں کا بھی ہے کیونکہ سارے کام مل جل کر کرنا ہی ممکن ہوتا ہے۔ اس لیے یہ خبیث جو بھی بک بک کرے گا‘ اس پر ہرگز یقین نہ کیا جائے۔
علاوہ ازیں‘اِدھر اُدھر اگر کئی اور بھی نام نہاد نوگو ایریاز موجود ہیں تو انہیں بھی نو گوایریا ہرگز نہ سمجھا جائے کیونکہ وہاں بھی پولیس کی آمدو رفت باقاعدگی سے رہتی ہے اس لیے انہیں کسی لحاظ سے بھی نوگو ایریا نہیں کہا جا سکتا جبکہ چھوٹو گینگ والا علاقہ بھی کوئی خطرناک علاقہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ لوگ مقامی ارکان اسمبلی اور بڑے زمینداروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے تھے بلکہ پولیس والے خود ان شر پسندوں کی نشاندہی کیا کرتے تھے جنہیں تاوان کے لیے اغوا کرنا مقصود ہوتا ہو‘ چنانچہ یہ تالی دونوں ہاتھوں سے خوب بج رہی تھی جبکہ اپنے لوگوں پر بم وغیرہ چلانا ویسے بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
اب سُنا ہے کہ فوج کنگھی پھیرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کا کوئی جواز اس لیے بھی نہیں ہے کہ کنگھی تو اب پرانا فیشن ہو کر رہ گیا ہے جسے کوئی بھی استعمال نہیں کرتا اور ہیئر برش سے کام لیا جاتا ہے جبکہ کنگھی سے جوئیں بھی باقی رہ جاتی ہیں‘ فوج بیشک یہ بھی کر کے دیکھ لے۔ کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
خاکسار رانا ثناء اللہ
آج کا مقطع
ہم خود ہی درمیاں سے نکل جائیں گے‘ ظفر
تھوڑا سا اُس کو راہ پہ لانے کی دیر ہے