پاناما لیکس پر قوم سے وزیراعظم کا دوسرا خطاب حکومتی صفوں میں موجود اضطراب ‘پریشانی اور خوف کو ظاہر کرتا ہے‘ مانتا مگر کوئی نہیں۔ معاملات اتنے ہی صاف شفاف اور سادہ ہیں جتنے وزیراعظم اور اُن کے ساتھی بیان کرتے ہیں تو دوبارہ خطاب کی ضرورت تھی‘ نہ کمشن بنانے کی اور نہ اِن ٹی اوآرز کی جسے عمران خان تو درکنار خورشید شاہ اور اعتزاز احسن بھی ماننے پر تیار نہیں۔
متضاد انٹرویوز نے شریف خاندان کی بیرون ملک جائیدادوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کئے۔ پاناما لیکس تحریک انصاف کی ریاضت کا نتیجہ ہے نہ عمران خان کا پروپیگنڈا۔ مگر میاں صاحب قوم سے خطاب میں اس پر گرجے برسے‘ یہ تاثر پختہ کیا کہ عمران خان سے خائف ہیں‘ حالانکہ ڈیوڈ کیمرون کی طرح وہ اپنے ٹیکس گوشوارے‘ بیرون ملک جائیداد کی ملکیتی دستاویزات اور سرمائے کی قانونی طور پر منتقلی کے ثبوت پیش کر کے سرخرو ہو سکتے تھے مگر انہوں نے ایک نیا پنڈورا بکس کھول کر معاملہ مزید مشکوک اور متنازع کر دیا۔ لوگوں کو پہلے دال میں کالا نظر آ رہا تھا اب پوری دال ہی کالی لگتی ہے۔ اپنے خاندان پر اُٹھنے والے سوالات کا تسلی بخش جواب دینے کے بجائے قرض معافی‘ دنیا بھر میں قائم آف شور کمپنیوں کی چھان بین اور کرپشن کی دولت باہر بھیجنے کی تحقیقات‘ کمشن کے دائرہ کار میں لانے کا مقصد کیا ہے؟ تاخیر‘ طوالت اور بالآخر قوم کی کمزور یادداشت کا فائدہ اٹھانے کی سعی!
قرضوں کی معافی کوئی ڈھکا چھپا عمل نہیں۔ وزارت خزانہ کے علاوہ ہر بینک اور سٹیٹ بینک کے پاس ان افراد اور اداروں کی فہرستیں موجود ہیں جن کے قرضے بھٹو مرحوم سے لے کر پرویز مشرف اور زرداری کے دور تک سیاسی بنیادوں پر معاف ہوئے۔ میاں صاحب کے موجودہ دور میں ہوئے یا نہیں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے مگر سابقہ دونوں ادوار میں ہوتے رہے اور اُن کا کوئی نہ کوئی لولا لنگڑا‘ بھونڈا‘ من پسند جواز بھی پیش کیا جاتا رہا۔ یہ معاملہ کسی کمشن کے حوالے کرنے کے بجائے حکومت خود نمٹا سکتی ہے ۔فہرستیں منظرعام پر لا کر معافی کے عمل کو کالعدم کر دیا جائے اور قرض خور سیاستدانوں کی جائیدادیں قرق کر کے وصولی کو یقینی بنایا جائے۔ اس طاقتور سیاسی مافیا کے سوا کوئی رکاوٹ ڈال سکتا ہے نہ اعتراض کی گنجائش ہے۔ قرض معاف کرنے والوں کے لیے پارلیمنٹ سزا تجویز کرے اور حکومت عملدرآمد کو یقینی بنائے‘ نو نقد نہ تیرہ اُدھار‘ مگر میاں صاحب کبھی بھی یہ کام نہیں کریں گے۔ ویسے بھی قرضہ معافی کیس سپریم کورٹ میں زیرالتواہے‘ کمشن کے دائرہ اختیار میں یہ معاملہ شامل نہیں کیا جا سکتا۔
تین سال سے برسراقتدار مسلم لیگ کو کرپشن یاد آئی نہ قرض خوری اور نہ بیرون ملک آف شور کمپنیاں۔ جونہی شریف خاندان کی جائیداد کا ذکر پاناما پیپرز میں ہوا ‘ملک کی محبت اور کرپشن سے نفرت کا جذبہ جاگ اٹھا اور اب میاں صاحب ہر قرضہ خور اور کرپٹ کے خلاف کمشن کا ڈنڈا لے کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ جانتے ہیں کہ صرف اسی طرح اپنے اور اپنے خاندان پر لگنے والے الزامات کی پردہ پوشی ہو سکتی ہے ۔ قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا اس کے سوا کوئی اور طریقہ نہیں۔ہم ذاتی طور پر اس کے حق میں ہیں مگر اس مقصد کے لیے کمشن کی کیا ضرورت ہے۔ شریف خاندان کا معاملہ مختلف ہے ‘وہ حکمران ہیں اور نیب ‘ ایف بی آر یا کوئی دوسرا ادارہ احتساب کرنے کی سکت نہیں رکھتا جبکہ دیگر تمام افراد اور اداروں کا احتساب حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ''باشعور عوام‘‘ خاصے سادہ لوح بلکہ بے وقوف ہیں‘ مگر یہ اندازہ کسی کو نہیں تھا کہ میاں صاحب انہیں بالکل ہی عقل و شعور سے بیگانہ اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری سمجھتے ہیں‘ ورنہ وہ کمشن کا دائرہ کار اس قدر وسیع کرتے نہ ٹی وی پر بیٹھ کر مظلومیت کا رونا روتے۔ کسی فوجی آمر کے آگے یا پیچھے کون ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوا اور کس نے ایک فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کا مشن پورا کرنے کا عہد ایک بار نہیں بار بار‘ کئی سال تک دہرایا۔ مجھے یاد سب ہے ذرا ذرا‘ تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ محمد دین تاثیر مرحوم نے بارگاہ الٰہی میں التجا کی تھی کہ ؎
داورِ حشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
مگر قوم کی خواہش ہے کہ میاں صاحب ایک بار اپنا اور مخالفین کا نامہ اعمال عوام کے سامنے لائیں‘کسی پردہ نشین کی پروا نہ کریں۔میاں صاحب اتنے دانا ضرور ہیں کہ وہ جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کے دور میں ایجنسیوں سے رقوم کی وصولی‘ کوآپریٹو کارپوریشنوں کے چھوٹے چھوٹے کھاتہ داروں کی بچتوں پر ڈاکے اور سوئس کیسز کا ذکر گول کر گئے۔ صرف اپنی پاکدامنی کا ورد کیا‘ کسی مہذب جمہوری ملک میں اگر عوام کو پتا چلے کہ ان کا سربراہ حکومت بیرون ملک اثاثے چھپانے کے علاوہ اپنی خود ساختہ جلاوطنی کے ضمن میں غلط بیانی کا مرتکب ہوا ہے تو طوفان آ جائے مگر یہ پاکستان ہے جہاں تحریری معاہدوں کی خلاف ورزی جرم‘ نہ تھر میں موت کے رقص کے دوران سندھ فیسٹیول کے نام پر رقص و سرود کی محافل معیوب اور نہ پاناما پیپرز کو مخالفین کا پروپیگنڈا قرار دینا ممنوع۔ قوم حکمرانوں سے حساب مانگتی ہے ‘وہ جواباً خطاب فرماتے اور حواری داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے ہیں‘ یہ نہیں بتاتے کہ 1992ء سے 2016ء تک بیرونی میڈیا‘ اندرونی سیاستدانوں اور آئی سی آئی جے کی طرف سے پوچھے جانے والے سوالات کا درست جواب کیا ہے؟خاندان کے چار افراد کی طرف سے دیئے گئے بیانات میں سے کون سا صحیح صورتحال کی عکاسی کرتا ہے اور کون سا گمراہ کن؟ حکمرانوں کے احتساب سے توجہ ہٹانے کے لیے کبھی پرویز مشرف کی دولت اور آف شور کمپنیوں پر تنقید ہوتی ہے اور کبھی ریٹائرڈ جرنیلوں کی مراعات کا پروپیگنڈا؛ حالانکہ پرویز مشرف کے احتساب کا موقع میاں صاحب نے ضائع کیا اور آرمی ایکٹ میں ترمیم بھی پارلیمنٹ کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تحقیقاتی کمشن کا قیام اپوزیشن بالخصوص عمران خان کا مطالبہ تھا۔ میاں صاحب اپنی 5 اپریل والی تقریر سے پیچھے ہٹے اور ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمشن کی تشکیل سے گریز کیا مگر ٹی او آرز میں ڈنڈی مار دی۔ ظاہر ہے ان ٹی او آرز کے ساتھ کمشن کو اپوزیشن قبول نہیں کر سکتی۔ پسپا ہوتی حکومت کا گھیرائو آسان ہے مگر یہ کام عوام کے تعاون اور بھرپور احتجاجی تحریک سے ممکن ہے ورنہ کمشن سے کوئی توقع عبث ہے۔ ماضی کے کمشنوں کی طرح یہ بھی وزیراعظم ہائوس کی فائلوں اور حکمرانوں کے حیلوں بہانوں میں دب کر رہ جائیگا۔ گزشتہ چھبیس‘ ستائیس دنوں میں واضح ہو گیا ہے کہ حکومت بلاتفریق احتساب پر تیار نہیں اور میاں صاحب کی بطور وزیراعظم موجودگی میں کوئی کمشن آزادی و خودمختاری سے کام نہیں کر سکتا‘ ٹی او آرز اور تاخیری حربے ثبوت ہیں۔ البتہ وزیراعظم نیک نیتی کا ثبوت دیتے ہوئے منصب سے استعفیٰ دیں۔ پارلیمنٹ میں سے ایک ایسا مسلم لیگی لیڈر جس کا اپنا دامن صاف ہو‘ شریف خاندان کی بجائے وہ ملک و قوم کا وفادار اور کمشن سے غیر مشروط تعاون پر آمادہ ہو تو کارروائی خوش اسلوبی سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ ملک کو قرض خوروں‘ معاشی چوروں اور عادی لٹیروں سے ہمیشہ کے لیے نجات مل سکتی ہے۔ یہ کام مُک مکا کی پیداوار پارلیمنٹ ازخود کر سکتی ہے نہ مسلم لیگ میں سکت ہے اور نہ موجودہ کرپٹ نظام کی یہ ضرورت ہے۔ نام نہاد جمہوریت پسندوں سے پیشگی معذرت ‘ بھرپور فوجی آپریشن ہی اس موذی مرض کا علاج ہے۔ اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ وزیراعظم نے راستہ چھوڑا ‘ یہ سرطان خاکم بدہن جمہوریت کے علاوہ ملک کو بھی لے ڈوبے گا۔ پرویز مشرف کی حماقتوں کی وجہ سے ملک میں دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کو فروغ ملا۔ موجودہ فوجی سربراہ نے یہ گند بڑی حد تک صاف کیا۔ جنرل راحیل شریف بلاامتیاز احتساب کے حق میں ہیں تو انہیں آگے بڑھ کر یہ فرض نبھانا بھی چاہیے ۔محض بیان بازی سے قوم کا مورال ڈائون اور اشتعال میں اضافہ ہوتا ہے۔ گزشتہ ستائیس روز میں سول حکومت کا رویہ انہوں نے دیکھ لیا ۔ ممکن ہے تاخیری حربوں کا مقصد بھی یہی ہوتا کہ لٹیروں کو ایک بار پھر مظلومیت کی سفید چادر اوڑھنے کا موقع ملے۔ مگر کیا اس بار بھی مظلوم قوم نہیں ‘ظالم اشرافیہ کی سُنی اور مانی جائیگی؟ ویسے آپس کی بات ہے‘ اگر کمشن بن گیا‘ اپوزیشن مان گئی اور یہ طویل عرصے تک کام کرتا رہا تو کیا روزانہ وزیراعظم اور اُن کے خاندان پر کپچڑ نہیں اچھلے گا؟ ہر روز الزام تراشی نہیں ہو گی؟ کیا یہ بھی کسی نادان دوست کی کارستانی ہے؟