تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     24-04-2016

وہاڑی کا طاقتور ایس ایچ او

وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر سنتے ہوئے مجھے تھانہ سٹی وہاڑی کا ایس ایچ او عبدالستار گجر اور ایاز امیر بہت یاد آئے۔ مجھے ہنسی آئی، ہم ملک کے وزیر اعظم اور اس کے خاندان کا احتساب چاہتے ہیں‘ جبکہ یہاں ایک ایس ایچ او اتنا طاقتور اور شتر بے مہار ہو چکا ہے کہ وہ کسی سے سنبھالا نہیں جاتا۔ جب کسی ضلع کا ڈی پی او اپنے ایس ایچ او کے آگے اس قدر مجبور ہو جائے کہ ایس ایچ او اس کے احکامات سائل کے منہ پر دے مارے تو بہتر ہے ڈی پی او کوئی دوسری نوکری تلاش کر لے۔
جس ڈی پی او سے ایس ایچ او زیادہ طاقتور ہو جائے تو اس ڈی پی او کو ادراک ہو جانا چاہیے کہ وہ اس نوکری کے لیے فٹ نہیں تھا۔ جس ماہر نفسیات نے سی ایس ایس کا رزلٹ بنانے سے قبل امیدواروں کا رجحان چیک کرنے کے لیے اس کا انٹرویو کرکے اس کو پولیس گروپ میں بھیجنے کی سفارش کی تھی، وہ غلط تھا۔ کالم نگار ایاز امیر نے چند برس قبل ایک پولیس افسر پر کالم لکھا تھا کہ کیسے ایک ایس ایچ او پورے لاہور کے لیے دہشت بن گیا تھا۔ ایاز امیر سے بہتر شاید ہی کوئی انگریزی میںکالم لکھتا ہو۔ ضیاء الدین بھی کمال کالم لکھتے ہیں۔ شاہین صہبائی کے اندر کا رپورٹر ان میں سے نہیں نکلتا، لہٰذا ان کے کالم‘ جو وہ بہت کم لکھتے ہیں‘ خبریت سے بھرپور ہوتے ہیں۔
ایاز امیر کے کالم میں لاہور کے اس ایس ایچ او کی کہانی پڑھ کر مجھے مافیا پر ماریو پزو کے لکھے گئے ناول یاد آ گئے۔ ہر مافیا فیملی کو ایک ریٹائرڈ پولیس افسرکی تلاش ہوتی ہے‘ جسے انسانی لہو سونگھ کر ہی رات کو نیند آتی ہو۔ مافیا کی زبان میں ایسے بدمعاشوںکو Hammer کہا جاتا ہے‘ جو ڈان کے دشمنوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اردو میں اسے ہتھوڑا کہہ لیں۔ اس طرح کے خونخوار پولیس والے مافیا اور سیاستدانوں کا بہترین چوائس ہوتے ہیں۔ 
ہو سکتا ہے آپ ہنسیں کہ جب وزیر اعظم کے مستبقل پر بحث ہو رہی ہے، میں وہاڑی کے ایس ایچ او کی کہانی لے کر بیٹھ گیا ہوں۔ معلوم نہیں میرے ساتھ کیا مسئلہ ہے، میں اس طرح کے چھوٹے مسائل میں کچھ زیادہ ہی الجھ جاتا ہوں۔ لیّہ میں اپنے گائوں جائوں تو بھی یہی چھوٹے مسائل جنہوں نے عام انسانوں کی زندگیاں حرام کی ہوتی ہیں، میرا انتظارکر رہے ہوتے ہیں۔ 
خیر کہانی کچھ یوں شروع ہوئی کہ میرے قریبی عزیز وہاڑی میں رہتے ہیں۔ فون آیا، انکل کا شدید ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے‘ ایک ٹرالر کار سے ٹکرایا، گاڑی تباہ ہو گئی، شکر ہے جان بچ گئی ہے۔ میں نے فون کرکے خیریت پوچھی۔ واٹس ایپ پہ تباہ حال کار کی تصویریں دیکھیں‘ تو حیران ہوا کہ اتنی تباہی کے باوجود خدا کی مہربانی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ میں نے پوچھا: تھانے میں رپورٹ کرائی ہے۔ جواب ملا، جی کرا دی ہے۔ ڈرائیور گرفتار ہو گیا ہے اور ٹرالر تھانے میںکھڑا ہے۔ میں نے مطمئن ہو کر فون بند کر دیا کہ چلیں جان بچ گئی۔ تین دن بعد انکل کا فون آیا کہ تھانیدار عبدالستار گجر نے دوسرے دن ہی ڈرائیورکو چھوڑ دیا تھا۔ چلیں یہاں تک ٹھیک تھا، لیکن ساتھ ہی ٹرالر بھی دے دیا؛ حالانکہ رپورٹ لکھی جا چکی تھی۔ تھانیدار سے بات کی تو وہی سٹائل اور طوفان بدتمیزی جو پولیس کا کلچر ہے۔کہا، تم اگر کچھ کر سکتے ہو تو کرو۔ میں اپنے رشتہ داروں کے معاملات میں پڑنے سے گریز کرتا ہوں۔ پہلے ہی مجھے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ وزیر اعظم ہائوس کی اہم خاتون شخصیت نے ناراض ہو کر حکم دیا ہے کہ رئوف کا پتا کرو‘ اس کا کچھ نکالو تاکہ اسے فکس کریں۔ ایجنسی کی تحقیقات کے بعد کچھ نہ نکلا۔ انکم ٹیکس ریٹرنز جمع کراتا ہوں۔ نواز شریف اور اسحاق ڈار سے بھی زیادہ ٹیکس دیتا ہوں؛ حالانکہ میرے بچوںکی سٹیل ملز، شوگر ملز، لندن میں ایک ارب پائونڈ کی جائیداد یا آف شور کمپنیاں نہیں ہیں، نہ میرے بچے مجھے اکیس کروڑ روپے سالانہ لندن سے بھیجتے ہیں‘ اور نہ ہی میرے بچوں نے دبئی میں ہر دوسری عمارت خرید کر رکھی ہے۔ ہو سکتا ہے آنے والے برسوں میں، میں بھی ٹیکس چوری کرنا سیکھ جائوں اور کوئی آف شورکمپنی بنا لوں یا میرے بچے پارک لین میں قمیتی جائیدادیں خرید لیں۔ اگر ملک کے وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے پاس ٹیکس بچانے کے ہزاروں طریقے موجود ہیں‘ تو پھر ہمیں ان کی راہ پر چلنا چاہیے کیونکہ وہی ہمارے رول ماڈل ہیں۔ میرے بارے میں کچھ نہ نکلا تو اس خاتون شخصیت نے حکم دیا پھر رئوف کے رشتہ داروں کا پتا لگائو۔ اب دیکھیں میرے کتنے رشتہ دار پکڑے جاتے ہیں۔ 
خیر، میں نے پتا کیا تو معلوم ہوا کہ وہاڑی کے ڈی پی او غازی صلاح الدین ہیں‘ جو لیہ سے تبدیل ہو کر وہاں گئے ہیں۔ غازی صاحب کی لیہ میں اچھی ریپوٹیشن رہی، ان کا بہتر ریکارڈ رہا۔ یاد آیا، تین برس قبل میرے بھائی نعیم کی وفات پر تعزیت کرنے ہمارے گائوں والے گھر بھی آئے تھے۔ ان کی مہربانی کہ ہمارے دکھ میں شریک ہوئے۔ اچھے اور سادہ لگے۔ ایک دو بار فون پر بات ہوئی تو عزت دی۔ میں نے فون اٹھایا، پھر بندکر دیا۔ میں نے دل میں سرگوشی کی، کیا سوچیں گے کہ ایک بار گھر تعزیت کرنے کیا گیا کہ لیہ سے ٹرانسفر بھی ہو گیا، لیکن وہاڑی میں بھی ان کا کام نکل آیا۔ کچھ دیر سوچتا رہا،کس کو کہوں۔ پھر خیال آیا ایس ایچ او ستار گجر کو ہی کیوں نہ 
فون کیا جائے، وہ کوئی آسمان سے تو نہیں اترا، ہمارے ٹیکسوں پر ہی توند نکالے پھرتا ہو گا۔ میں نے ٹیلی فون نمبر لیا۔ بات ہوئی۔ بتایا: یہ معاملہ ہے۔ بولے: جی میرے علم میں ہے‘ میں نے ہی ڈرائیور کو چھوڑ دیا تھا۔ میں نے کہا: چلیں اچھا کیا‘ ٹرالرکیوں چھوڑ دیا؟ جواب ملا: تھانے کے آگے جگہ نہیں تھی اس لئے کہا‘ یہ بھی لے جائو۔ میں ہنس دیا کہ اتنا جلدی انصاف ملنا شروع ہو جائے تو یہ ملک جنت بن جائے۔ میں نے کہا: سرکار ایسے نہ کریں۔ بولے: آپ کہتے ہیں تو کچھ کرتے ہیں۔ میں نے کہا: کوئی یہ نہیں کہہ رہا آپ پھانسی لگا دیں، لیکن تحقیقات تو کر لیں‘ کچھ حق ان کا بھی بنتا ہے‘ جن کی گاڑی تباہ ہوئی ہے‘ مشکل سے جان بچی ہے۔ 
دو دن بعد پتا چلا کچھ نہیں ہوا۔ ایس ایچ او گجرکو پھر فون کیا۔ بیزار لہجے میں بولے: دیکھتا ہوں۔ اس دفعہ لہجہ کچھ بدلا ہوا تھا۔ میں نے بھی لہجہ بدلا اور کہا: آپ کوئی احسان نہیں کر رہے‘ آپ کو اوپر سے فون نہیں کرا رہے کہ سسٹم کو چیک کرنا چاہتا ہوں۔ آپ سے اتنا کہہ رہے ہیں، ملزم پارٹی کو کہیںکہ گاڑی مرمت کرا دیں۔ آپ نے ٹرالے کو کیسے چھوڑ دیا، ابھی کیس کا فیصلہ تو نہیں ہوا۔ اگلے دن میرے عزیز کو ایس ایچ او صاحب نے غصے سے کہا: میرے ساتھ رئوف صاحب نے الٹی بات کی ہے۔ میں نے سوچا سسٹم کو کافی چیک کر لیا، اب وہی کچھ کرو جو روم میں کیا جاتا ہے۔ پولیس افسران میں سے ایک دو ہیں جن کی میں عزت کرتا ہوں۔ ایک افسر کو بتایا۔ بولے: ابھی ڈی پی او وہاڑی کو فون کر دیتا ہوں۔ میں نے کہا: میں ڈی پی او کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ حیران ہوئے‘ کہا: پھر خود کہہ دیتے۔ میں نے کہا: نہیں چاہتا کہ وہ یہ سمجھیں میرے گھر بھائی کی تعزیت کے لئے آئے تھے، لہٰذا اس شناسائی کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں۔ خیر اس اعلیٰ پولیس افسر نے غازی صلاح الدین کو فون کیا۔ بولے، بھیج دیں۔ اگلے دن انکل ان کے دفتر دیگر سائلین کے ساتھ ملے۔ معاملہ بتایا۔ غازی صلاح الدین نے اسی ایس ایچ او کو فون کر دیا۔ میرا ذکر ہوا تو غازی صاحب نے عزت دی اور چائے پلانے کی پیشکش بھی کی۔ آج چار روز بعد پھر انہی عزیز کا فون آیا۔ کہا: ڈی پی او غازی صاحب نے آپ کے پولیس افسر دوست کے فون اور آپ کے نام پر عزت تو بہت دی تھی لیکن ایس ایچ او اپنے ڈی پی او سے بہت زیادہ طاقتور ہے۔ اب آپ آئی جی پنجاب کی سفارش ڈھونڈو‘ یہ غازی صلاح الدین کے بس کی بات نہیں رہی۔ میں نے پوچھا: کیا ہوا؟ بولے: آپ کے فون کے بعد ایس ایچ او عبدالستار گجر نے مل کر بات تو سن لی تھی، لیکن اپنے ڈی پی او کے فون کے بعد تو نہ وہ ملتا ہے اور نہ فون سنتے کو تیار ہے۔ غصہ کرگیا ہے۔ بولے، آپ کہیں تو دوبارہ ڈی پی آو سے آپ کے حوالے سے مل لیں؟ میں نے کہا: رہنے دیں۔ غازی صلاح الدین شریف پولیس افسر ہے‘ اس کے کندھوں پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔ 
فون بند ہوا تو میں ہنس پڑا، ہم اس ملک میں وزیر اعظم کا احتساب چاہتے ہیں‘ جہاں ایک ایس ایچ او اپنے ڈی پی او سے نہیں سنبھالا جاتا۔ آپ کالم پڑھیں، اتنی دیر میں مَیں آئی جی پنجاب جناب مشتاق سکھیرا کی سفارش تلاش کرتا ہوں۔ مجھے بھی آپ سب کی طرح اپنے عزیز پیارے ہیں۔ وزیر اعظم ہائوس کی خاتون شخصیت ایک ایجنسی کو حکم دے چکی ہے کہ ان کے خلاف کچھ نکالو تاکہ اسے فکس کریں۔ اس بادشاہی حکم کے بعد مجھے اپنے عزیزوں پر ترس بھی آتا ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ جس ملک میں ایس ایچ او اپنے ڈی پی او سے زیادہ طاقتور ہو جائے، اس ملک میں عام آدمی وزیر اعظم اور ان کے خاندان کا احتساب چاہتا ہے۔ کون کہتا ہے دن دہاڑے خواب دیکھنے والے شیخ چلی پیدا ہونے بند ہوگئے ہیں، آپ ڈھونڈنے تو نکلیں، میرے جیسے کئی مل جائیں گے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved