پانامہ لیکس۔۔۔۔ وزیر اعظم نے چیف جسٹس کی زیر قیادت جوڈیشل کمشن کا اعلان کر دیا۔ وہ یہ کام 5 اپریل کی شب قوم سے خطاب میں بھی کر سکتے تھے۔ وزیر اعظم سے خیر خواہی کی تہمت رکھنے والے ہم جیسے کالم نگار/ تجزیہ کار تو پہلے ہی یہ بات کہتے رہے تھے لیکن اس حوالے سے ایک دوسرا نقطۂ نظر بھی تھا۔ 4 اپریل کو پانامہ لیکس آئیں تو وزیر اعظم کے ذہن میں یہ آپشن موجود تھا لیکن وہ یہ کارڈ ابھی اپنے پاس ہی رکھنا چاہتے تھے۔ تب انہوں نے ریٹائرڈ جسٹس کی سربراہی میں کمشن کے قیام کا اعلان کیا۔ انہیں معلوم تھا کہ ''میں نہ مانوں‘‘ کی شہرت رکھنے والا ان کا سیاسی حریف اسے مسترد کرنے میں دیر نہیں کرے گا اور پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن کی دیگر جماعتیں بھی اسی لَے کو آگے بڑھائیں گی؛ چنانچہ یہی ہوا، یہ سب لوگ چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمشن کے غبارے میں ہوا بھرتے رہے اور غبارہ خوب بھر چکا تو وزیر اعظم نے 22 اپریل کی شام اس میں سے ہوا نکال دی۔ وہ 5 اپریل ہی کو یہ اعلان کر دیتے تو خان سے یہ اُمید بعید نہ تھی کہ وہ اسے مسترد کر کے اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمشن، عالمی عدالت یا (کم از کم ) اسکاٹ لینڈ یارڈ سے تحقیقات کرانے کا مطالبہ کر دیتا۔ خان کچھ بھی کر سکتا ہے!
وزیر اعظم کے خطاب کے ساتھ ہی قانونی تقاضوں کے مطابق پاکستان کمشن آف انکوائری ایکٹ 1956ء (سیکشن 4) کے تحت ایس آر او کے اجرا کے علاوہ عزت مآب چیف جسٹس کے نام خط بھی (رجسٹرار سپریم کورٹ کو) پہنچا دیا گیا۔ جناب چیف جسٹس اگلی صبح ترکی روانہ ہو رہے تھے‘ جہاں سے انہیں یکم مئی کو واپس آنا ہے۔ جیسا کہ توقع تھی اور بعض آئینی ماہرین بھی اس رائے کا اظہار کر رہے تھے، اگلے روز قائم مقام چیف جسٹس کا حلف اُٹھانے کے بعد جناب جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ اس خط پر فیصلہ خودجناب چیف جسٹس جمالی وطن واپس آکر کریں گے۔
چیف جسٹس کی زیرِ قیادت کمشن کے قیام کا تنازع اختتام کو پہنچا تو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے ایک نیا مسئلہ اُٹھا دیا۔۔۔۔ فرانزک آڈٹ کا مسئلہ۔ لیکن حکومتی ترجمان نے وضاحت میں دیر نہ کی، ٹرمز آف ریفرنس میں کمشن کا یہ اختیار شامل ہے کہ ملک کے اندر یا باہر کسی بھی فنی ماہر / آڈٹ کمپنی کی خدمات حاصل کر سکتا ہے۔ اس تک رسائی اور مالی اخراجات خود حکومت کے ذمے ہوں گے۔
یوں بھی نہیں کہ وزیر اعظم کی طرف سے ریٹائرڈ جسٹس والے کمشن کی بات محض ایک Feeler تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت نے اس کے لئے سنجیدہ کاوش بھی کی تھی۔ دو سابق چیف جسٹس صاحبان سمیت چھ ریٹائرڈ حضرات سے رابطہ کیا گیا۔ ایک سابق چیف نے آمادگی ظاہر کر دی تھی لیکن اگلے روز معذرت کر لی۔ باقی حضرات نے ابتدا ہی میں انکار کر دیا تھا۔ آدمی کی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے اور انہوں نے اپنا عدالتی کیریئر بڑی عزت اور نیک نامی کے ساتھ مکمل کیا تھا۔ خان پانامہ کیس میں ایک اہم ''فریق‘‘ ہے، فیصلہ اس کے خلاف آتا تو۔۔۔ بس یہی خیال، یہ ذمہ داری قبول کرنے میں رکاوٹ بن گیا تھا۔ پانامہ کمشن کے لئے ریٹائرڈ ججوں میں آخری نام جسٹس سرمد جلال عثمانی کا تھا، جج کے طور پر جن کی حیثیت اور شہرت متنازع نہیں رہی تھی؛ البتہ ان کی اہلیہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی تحریک کی سرگرم کارکن اور مسلم لیگ (ن) کی رکن تھیں۔ میاں کا نام پانامہ کمشن کے لئے آیا تو وہ مسلم لیگ(ن) کی رکنیت سے مستعفی ہو گئیں (سینیٹر نہال ہاشمی کی بے خبری کی داد دیجئے کہ وہ ان کی مسلم لیگ کی رکنیت ہی سے انکاری تھے)
22 اپریل کی شام یہ ایک نیا منظر تھا، وزیر اعظم نے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمشن کے قیام کا اعلان کر کے خان سمیت سیاسی حریفوں کے ہاتھ سے ایک اہم سیاسی کارڈ چھین لیا۔ وزیر اعظم کے اس اعلان کو ایک اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سیّد خورشید شاہ کمشن کے ٹرمز آف ریفرنس کے لئے اپوزیشن کے ساتھ اتفاق رائے پر زور دے رہے تھے۔ ہمارے خیال میں وزیر اعظم یہ بھی کر گزریں گے۔ جناب اسحاق ڈار کے ناخن تدبیر سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔
ارکان پارلیمنٹ ہر سال اپنے اثاثوں کے گوشوارے داخل کرنے کے پابند ہیں، الیکشن کمشن جنہیں اپنی ویب سائیٹ پر ڈال دیتا ہے۔گزشتہ دنوں یہ غائب پائے گئے تو وزیر اعظم کے بقول انہوں نے اسحاق ڈار سے بات کی، شفافیت کا تقاضا ہے کہ یہ اثاثے الیکشن کمشن کی ویب سائٹ پر موجود رہیں؛ چنانچہ یہ دوبارہ ویب سائٹ پر رکھ دیئے گئے اور ایک بار پھر میڈیا کی ہیڈ لائنز بن گئے۔ ہمیں خوشگوار حیرت عمران خان کے حوالے سے ہوئی۔ اس میں شک نہیں کہ خان نے ایک کھاتے پیتے گھرانے میں آنکھ کھولی، نہر کنارے زمان پارک جیسے پوش علاقے میں پرورش پائی، ایچی
سن کالج جیسے ادارے میں تعلیم حاصل کی، پھر اپنے خرچ پر مزید تعلیم کے لیے آکسفورڈ چلا گیا۔ کرکٹ اس کے لئے بے پنا ہ شہرت، مقبولیت اور دولت کمانے کا ذریعہ بن گئی۔ وہ اپنے وقت کے مقبول ترین اور مہنگے ترین کرکٹرز میں شمار ہونے لگا۔ قریب سے جاننے والے بتاتے ہیں کہ وہ خرچ کے بارے میں خاصا محتاط واقع ہوا ہے۔ مخالفین اس کی کفایت شعاری کو بخیلی کا نام دیتے ہیں۔ نواز شریف کی وزاتِ اعلیٰ کے دوران فیصل ٹائون میں ملنے والا ایک کنال کا پلاٹ اور ورلڈ کپ (1992) پر اسلام آباد میں ملنے والا پلاٹ اس نے شوکت خانم کی نذر کر دیا (ورلڈ کپ جیتنے پر یہ پلاٹ ساری ٹیم کو ملے تھے) کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد کمنٹری اس کا ذریعہ معاش بنی۔ یہ سلسلہ سیاست میں آنے کے بعد بھی جاری رہا جسے بعض خیر خواہوں کے توجہ دلانے پر (جن میں ہارون الرشید بھی ہوں گے) اس نے ترک کر دیا کہ یہ ایک بڑے سیاست دان کے طور پر اس کے امیج کے شایانِ شان نہ تھا۔ جہانگیر ترین کے جہاز کو مخالفین اس کے لئے طنز و طعن بنائے رکھتے ہیں۔ حالیہ دورۂ انگلستان میں جہانگیر ترین اور علیم خان اس کے دائیں بائیں موجود تھے، سوشل میڈیا پر بعض ستم ظریفوں نے اسے اے ٹی ایم مشینوں کا عنوان دے دیا۔ اب خان کے اثاثے منظر عام پر آئے ہیں تو ہمیں خوشگوار حیرت نے آ لیا ہے، ایک ارب 33 کروڑ کے اثاثے، جو جدی پشتی صنعتکار وزیر اعظم کے اثاثوں سے صرف 41 کروڑ کم ہیں ( بنی گالہ والے 300 کنال کے گھر کی قیمت 75 کروڑ روپے بتائی گئی ہے، یہ خان کو تحفے میں ملا تھا) ان گوشواروں کے مطابق خان تو اچھا خاصا ''ایلیٹ‘‘ ہے۔
ارکان سینیٹ کے گوشواروں کے مطابق جناب اعتزاز احسن ایک ارب 87 کروڑ روپے کے اثاثوں کے ساتھ امیر ترین ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ ان کا شمار ملک کے مہنگے ترین وکلا میں ہوتا ہے اور ان اثاثوں کا بیشتر حصہ یقیناًََ ان کی حق حلال کی کمائی کا نتیجہ ہے۔ جناب اعتزاز احسن کا ذکر چھڑا تو ہمیں چند ماہ قبل جناب الطاف حسن قریشی کے ماہنامہ اردو ڈائجسٹ میں شائع ہونے والا چوہدری احمد سعید کا انٹرویو یاد آیا۔ گجرات کے اس مشہور و معروف صنعت کار نے، جو گزشتہ زرداری +گیلانی حکومت کے وزیرِ دفاع احمد مختار کے بھائی ہوتے ہیں، اس انٹرویو میں کچھ دلچسپ انکشافات بھی کیے۔ ان کا کہنا تھا، کچھ عرصہ قبل چوہدری نثار علی خان نے بیان دیا کہ وہ ان وکلا کی پروا نہیں کرتے جو قبضہ مافیا، ایل پی جی مافیا یعنی کرپٹ لوگوں کے کیس لڑتے ہیں۔ اس بات سے اعتزاز احسن کو زک پہنچی۔ انہوں نے اسمبلی میں کہا: ''میں بہاول بخش کا پوتا اور احسن علیگ کا بیٹا ہوں‘‘۔ عام لوگ بہاول بخش کو نہیں جانتے۔ یہ شمس آباد کا تھانیدار تھا۔ موصوف نے قتل میں ملوث ایک شخص کو جیل سے فرار کرا دیا۔ اس پر انگریز حکومت نے اسے برطرف کر دیا۔ فرار ہونے والا شخص بہاول پور کا زمیندار تھا، اس نے بہاول بخش کو اپنی زمینوں پر ٹھہرایا۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے اس کی زمینوں پر قبضہ کر لیا، زمیندار فریاد لے کر نواب بہاول پورکے پاس پہنچا۔ نواب نے آدھی زمینیں اسے اور آدھی بہاول بخش کو دے ڈالیں۔ یوں وہ بھی زمیندار بن گئے۔ اعتزاز احسن کے والد نواب بہاول پور کی سفارش پر تحصیل دار لگے۔ وہ احسن علیگ کے نام سے مضامین لکھتے تھے مگر حقیقت میں یہ مضامین ان کی بیوی رشیدہ بیگم لکھتی تھیں۔ یہ ''علیگ‘‘ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے حوالے سے نہیں بلکہ مسلم لیگی ہونے کے ناتے سے لکھتے تھے۔