تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     24-04-2016

اچھی چائے اور کتاب!

بات جانے کس نے کہی مگر ہے خوبصورت... ''اچھی کتاب اور اچھی چائے سے بڑھ کر کوئی عیاشی نہیں ہو سکتی‘‘۔ مگر اس بات کی سمجھ اس نسل کو کہاں آئے گی جو بُک سے زیادہ فیس بک میں غرق ہو چکی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اُس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو کتاب پڑھنے کے کلچر کو رفتہ رفتہ مرتے دیکھ رہی ہے۔ فتو بھائی اُردو ادب و صحافت کا اثاثہ ہیں۔ انہوں نے بہت خوبصورت بات کی کہ دن اُن کے منائے جاتے ہیں جن کی شامیں شروع ہو جائیں ۔یعنی جن پر بُرا وقت آ چکا ہو‘زوال شروع ہو گیا ہو ۔سو دوستو ‘اس بات کو ذہن میں رکھیں اور سوچیں کہ یہ کالم 23 اپریل کو لکھا گیا جو کتاب کا عالمی دن ہے۔ دنیا بھر میں کتاب کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس تاریخ کو بیشتر ملکوں میں کتب بینی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔اس کی ایک اور Relevance یہ ہے کہ 23 اپریل شہرہ آفاق ڈرامہ نگار شیکسپئر کا یوم وفات بھی ہے۔
جن ملکوں نے یہ دن کو منانے کا آغاز کیا ‘وہاں اب بھی ہم سے زیادہ کتاب سے محبت کی جاتی ہے۔ آج بھی وہاں بہت بڑی تعداد میں کتابیں فروخت ہوتیں اور لوگ ٹرینوں‘ انتظار گاہوں میں کتاب پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ کتاب پڑھنے والوں کی شرح میں کمی اس لیے آئی ہے کہ آج کی نسل اب کتابوں سے زیادہ بلاگ پڑھتی ہے۔ ٹھیک ہے ‘انٹرنیٹ کی جادونگری کی اہمیت سے انکار نہیں‘ ڈیجیٹل لائبریریاں بھی موجود ہیں۔ کتابیں ڈائون لوڈ کریں اور پڑھیں۔ دنیا کے مشہور میگزین بھی اپنا کچھ مواد انٹرنیٹ پر پڑھنے والوں کے لیے ڈال دیتے ہیں۔ دلچسپی کے ہر موضوع پر ان گنت بلاگز موجود ہیں۔ مگر کیا پھر بھی یہ سب کچھ کسی کتاب کا نعم البدل ہو سکتا ہے؟ میرے نزدیک تو بالکل نہیں کیونکہ جو لطف کتاب کو ہاتھ میں پکڑ کر‘ نیم دراز حالت میں پڑھنے کا ہے وہ کبھی ڈیجیٹل سکرین پر نظریں ٹکا کر حاصل نہیں ہو سکتا ۔ یہ فرق وہی جان سکتا ہے جو کتاب کی محبت کا اسیر ہو ۔ مجھے تو لگتا ہے کہ ایسے لوگ بھی رفتہ رفتہ کتاب کی محبت سے دستبردار ہو رہے ہیں ۔ فیس بک‘ سوشل میڈیا‘ ٹوئٹر اور واٹس ایپ نے بڑے بڑوں کومسمرائز کر دیا ہے۔ اب ایسے بڑے اپنے چھوٹوں کو کتب بینی کی طرف کیسے راغب کر سکتے ہیں جو خود کتاب پڑھنے کے عادی نہیں رہے۔
ایک نسل تو آئی فون پر انگلیاں پھیرتی ہوئی‘ سوشل میڈیا کو پیاری ہو چکی ہے ۔یہ تھری ڈی ایفکٹ کا دور ہے، یعنی نقل پر اصل کا گمان ہو۔ آج کی نسل کی پوری کی پوری شخصیت کو بس تھری ڈی ایفکٹ ہی سمجھ لیں ۔حقیقت یہ ہے کہ شخصیت سازی میں اچھی کتاب کا کردار بے حد اہم ہے اور یہ نسل صرف فیس بک کو مانتی ہے‘ بک سے واقف نہیں۔ بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ ڈگریاں لیتے ہوئے نوجوان سوچ اور فکر سے عاری ہیں کیونکہ کتاب سے دور ہیں ۔کتاب فکر کی راہیں کھولتی اور سوچ کی بند کھڑکیاں وا کرتی ہے۔ اس نسل کو ممتاز مفتی‘ بانو قدسیہ‘ قدرت اللہ شہاب کا پتا نہیں۔ کتاب اپنے کلچر‘ اپنے ماحول‘ اور اپنی ثقافت سے جوڑتی ہے۔ دراصل ہم احساس کمتری کے شکار لوگ ہیں ‘اپنی اصل سے جڑے ہوئے نہیں۔ اس لیے سوشل میڈیا کے گلیمر میں کتاب کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف انڈیا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی‘ سوشل میڈیا کے استعمال میں وہ ہم سے کہیں آگے‘ ان کی گھریلو خواتین بھی بلاگرز ہیں،اس کے باوجود کتاب پڑھنے والے ملکوں میں انڈیا پہلے نمبر پر ہے۔ ایک سروے کے مطابق بھارتی ایک ہفتے میں دس گھنٹے کتب بینی پر صرف کرتے ہیں۔ وہاں کتاب پڑھنا اور اس کا ذکر کرنا بھی گلیمر کا حصہ ہے۔ بالی وڈ کی تو اداکارائیں بھی سیٹ پر کتابیں ساتھ لاتی ہیں۔ اس طرح ان نوجوانوں کوبھی کتاب پڑھنے کی انسپریشن ملتی ہے جو ان کو آئیڈیل تصور کرتے ہیں۔
والدین ہزاروں روپے برانڈڈبرگرز اور پیزا کھلانے پر خوشی خوشی خرچ کر دیں گے مگر جب بچوں کو کتاب خرید کر دینا ہو تو یہی والدین کتابیں مہنگی ہونے کا رونا روتے ہیں ۔ اس کا بھی حل موجود ہے۔ اولڈ بکس شاپ پر اردو اور انگریزی کی شاہکار کتابیں مناسب داموں میں مل جاتی ہیں۔ پھر ان کتابوں کو ہم آپس میں ایکسچینج کر کے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ الکیمسٹ کے لکھاری پائلو کوئلو نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میری لائبریری صرف تین سو کتابوں پر مشتمل ہے ۔میں ایک کتاب پڑھ کر کسی اور کو پڑھنے کے لیے دے دیتا ہوں۔ کتاب کو شیلف میں نہیں سفر میں رہنا چاہیے۔ یہ کتنی خوبصورت بات ہے۔ ویسے میں بھی اپنی کتابیں انہیں ضرور دیتی ہوں جو کتاب پڑھ کر واپس کر دیں ۔میں خود بھی کتاب لے کر واپس کرنا نہیں بھولتی۔
برطانیہ میں کتاب سے محبت کرنے والوں نے ایک دلچسپ کام کرنا شروع کیا ۔یہ گروپ کتاب کے فروغ کے لیے کام کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کتاب جو آپ نے ایک دو بار پڑھ لی وہ دانستہ طور پر کسی پبلک پلیس پر چھوڑ آئیں۔ کسی پارک کے بنچ پر‘ ٹرین کی سیٹ پر‘ ریسٹورنٹ کی ٹیبل پر۔ اس کتاب کو کوئی کتاب بینی کا شوقین شخص اٹھالے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُسے اس کتاب کے اندر یہ نوٹ لکھا ہوا ملے گا کہ براہ کرم یہ کتاب پڑھ کر آپ ایسے ہی کسی پبلک بنچ پر دانستہ بھول جائیں تاکہ کتاب کا سفر جاری رہے ۔ آخر میں کتب بینی پر مشاہیر کے خوبصورت اقوال...
٭ کتاب وہ تحفہ ہے جسے آپ بار بار کھول کر لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
٭مجھ سے یہ سوال کرنا کہ کیا میں کتب بینی پسند کرتا ہوں ایسے ہے جیسے یہ سوال کرنا کہ کیا مجھے سانس لینا پسند ہے۔
٭کتابوں کے بغیر ایک گھر ایسے ہی ہے جیسے کوئی شجر پرندوں کے بغیر یا کوئی کمرہ کھڑکی کے بغیر۔
٭اس سے پہلے کہ یہ نسل دانش (وزڈم) سے بالکل عاری ہو جائے‘میں اسے ایک ہی نصیحت کروں گا :''کتاب پڑھو‘ کتاب پڑھو‘‘۔
٭وقت کے وسیع سمندر میں کتابیں لائٹ ہائوس کی طرح راستہ دکھائی دیتی ہیں۔
٭کتاب پڑھنے والا ہمیشہ سیکھنے کے عمل سے گزرتا رہتا ہے۔
٭میرے نزدیک جنت بھی کتابوں سے بھری لائبریری ہی ہو گی۔
٭کوٹ پرانا ہی پہن لیں ‘کتاب نئی خرید یں۔
اور ایک نابینا لکھاری اور قاری کا خوبصورت جملہ یہ ہے ''بریل کتاب پڑھنے میں ایک حیرت انگیز لطف ہے۔ پہلے ہم ابھرے ہوئے حروف کو چھوتے ہیں اور جواب میں وہی حروف اپنے معنی کھول کر ہماری روح کو چھوتے ہیں! 
سوشل میڈیا کے اس ہنگام میں چائے کے ایک کپ کے ساتھ اچھی کتاب کو انجوائے کرنے کا ہنر آپ بھی سیکھیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved