تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     25-04-2016

اور چوتھی تقریر کی تیاری!

دھاندلی کمیشن اور پاناما کمیشن میںکئی بنیادی فرق ہیں۔ سب سے بڑا یہ کہ دھاندلی کمیشن کو اپوزیشن، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا نے پہلے دن ہی درست تسلیم کر لیا تھا۔ موجودہ کمیشن کا اعلان تینوں جگہ مسترد ہوگیا ہے۔
دوسرا فرق یہ کہ 2013ء کے الیکشن میں بھرپور دھاندلی کے خلاف بنایا گیا کمیشن قانونی تھا۔ اس کمیشن کے فیصلوں کو مؤثر بہ ماضی بنانے کے لئے قانون سازی ہوئی۔ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے دھاندلی کمیشن کو قانونی تخفظ دیا گیا۔ اس طرح اس کمیشن کا قیام اور فیصلہ اپوزیشن نے مان لیا۔ یہ دوسری بات کہ یہ فیصلہ ملک میں نظریۂ ضرورت کو پھر سے زندہ کرنے کا باعث بنا۔
دھاندلی کمیشن اور نون سرکارکے تشکیل کردہ حالیہ کمیشن میں تیسرا فرق یہ ہے کہ کمیشن کے قیام سے قبل حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات ہوئے۔ وزیراعظم نواز شریف اور ان کے سمدھی اسحاق ڈار نے دھاندلی کمیشن مذاکرات کے عمل میں''لیڈ رول‘‘ ادا کیا۔ مذاکرات کے دوران دونوں فریقوں نے ملک میں چوٹی کے وکلاء سے مشورے کیے، قانونی ڈرافٹ تیار کروائے جن کی معاونت اور روشنی میں آخر کار ایک بڑا بحران ٹالا جا سکا۔ دھاندلی اور پاناما کمیشن میں چوتھا فرق وزیر اعظم کے رویے کا ہے۔ تب یہ رویہ معقول تھا اور دھیما بھی۔ تیسری بار وزیراعظم بننے والے تجربہ کار نواز شریف کی تیسری تقریر میں تکبر کا عنصر غالب رہا۔ ان کا لہجہ انتہائی مایوس کن مگر فوج اور عمران خان کے لئے انتہائی جارحانہ۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں طعنہ اور کوسنے کے انبار لگا دیئے۔ اپنے مخالفین کو فاشسٹ تک کا خطاب دے ڈالا۔
دھاندلی کمیشن کے قیام اور پاناما کمیشن تجویز میں پانچواں فرق یہ ہے کہ دھاندلی کمیشن کا دائرہ کار بامقصد اور مخصوص تھا۔ طے شدہ وقت کے اندر کمیشن نے فیصلہ دیا اور قوم میں پایا جانے والا ہیجان ختم ہو گیا۔ دوسری جانب پاناما کمیشن 1947ء سے شروع ہوتا ہے۔ ستر سال بعد ہماری جو نسلیں مر کھپ کر قبرستانوں میں چلی گئیں، اس پاناما کمیشن تجویز کے ذریعے ان کے مردے خراب کرنے کا پروگرام بنا۔ ساتھ ساتھ کمیشن عملی طور پر ہومیو پیتھک حکیم کی دکان کی مانند ہوگا جس میں ہر مرض کے لئے ایک ہی رنگ کی سفید گولیاں تجویزکی جاتی ہیں۔کون نہیں جانتا نون لیگ کی موجودہ سرکار کے پاس صرف 2 سال ہیں۔ اس تجویز کے ذریعے حکومت 2 سال پورے کرنا چا ہتی ہے۔ وفاقی سرکار کا خیال ہے اس دوران بین الاقوامی برادری، قوم اور میڈیا کا فوکس پاناما لیکس سے ہٹ جائے گا۔ اس طرح کھایا پیا معاف اور حساب صاف ہو جائے گا۔
پاناما لیکس کی تحقیقات اور دھاندلی کمیشن میں چھٹا فرق بھی بہت اہم ہے۔ دھاندلی کمیشن آئین میں درج آرٹیکل225 کے مطابق بننے والے الیکشن ٹربیونل کا متبادل تھا۔ یہ ایک خالص سِول یا دیوانی معاملہ تھا جس کا دائرہ اختیار سِول کورٹ جیسا ہوتا ہے،اسی لئے اس دھاندلی کمیشن کی کارروائی بھی سِول عدالت کے ضابطے کے تحت چلائی گئی۔ پاناما لیکس کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ پاناما لیکس میں لگائے گئے الزامات خالص فوجداری نوعیت کے ہیں، جیسا کہ منی لانڈرنگ جو ساری دنیا میں فوجداری جرم تصور کیا جاتا ہے۔ ڈرگ سے متعلقہ رقوم بھی فوجداری جرم ، انٹرنیشنل فراڈ فوجداری جرم،کِک بیکس،کمیشن اور کرپشن کے ذریعے بنایا گیا مال بھی فوجداری جرم کے ہی زمرے میں آتا ہے جبکہ انکوائری کمیشن ایکٹ 1956ء کے تحت کمیشن کے پاس سِول جج کے اختیارات ہوتے ہیں۔ 
سب کو یاد ہے اس سے پہلے ایبٹ آباد کے فوجداری واقعہ کی بابت اسی قانونی دفع کے تحت ایک کمیشن جسٹس جاوید اقبال سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں بنایا گیا۔ اس واقعہ میں کچھ لوگ مارے گئے، اس کے باوجود کمیشن کوئی فوجداری اقدام نہ کر سکا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قانون کے تحت کمیشن کو پرچہ درج کرانے، فوجداری تفتیش کا حکم جاری کرنے یا مقدمہ چلا کر ٹرائل کرنے کا اختیار سرے سے ہی موجود نہیں تھا۔ جو ٹرمز آف ریفرنس وفاقی حکومت نے تجویز کیے ہیں ان کے تحت فوجداری معاملے میں دیوانی کمیشن تشکیل دینا اس صدی کا عظیم الشان مذاق ہے۔ اس کا مقصد ایک طرف عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش، دوسری طرف حکومت کے2 سال پورے کرنے کے لئے وقت لینا اور تیسری جانب سنگین جرائم پر مٹی پاؤپالیسی کے تحت پردہ ڈالنا۔
پاناما لیکس اور دھاندلی کمیشن میں ساتواں فرق یہ ہے کہ دھاندلی ایک طے شدہ الزام تھا جیسے پاناما لیکس میں بھی الزام طے شدہ ہے، لیکن پاناما لیکس کمیشن تجویز کے ذریعے تحقیقات کا دائرہ کار اس قدر پھیلا دیا گیا کہ اس کا نتیجہ نکالنے کے لئے قوم کو مزید 70 سال انتظار کرنا پڑے گا۔ ایک اور پہلو یہ بھی کہ سپریم کورٹ کے ججوں کے اختیارات بشمول چیف جسٹس کم کر کے انہیں سول جج کی ٹوپی پہنانے کے مترادف ہے۔ سپریم کورٹ کے جج جب عدالت میں بیٹھتے ہیں تو ان کے پاس ایک ایسا اختیار ہے جو پاکستان میں کسی دوسری عدالت یا انصاف کے فورم کے پاس موجود نہیں۔ یہ اختیار آئین کا آر ٹیکل 187سپریم کورٹ کو دیتا ہے۔ اسے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے آئین کے آرٹیکل187کی متعلقہ عبارت پڑھ لی جائے۔
Article 187(1).Issue and execution of processes of supreme court(1).subject to clause (2) of Article 175,the supreme court shall have power to issue such directions ,orders or decrees as may be neccessary for doing complete justice in any case or matter pending before it, including an order for the purpose of securing the attendance of any person or the discovery or production of any document. 
(ترجمہ : سپریم کورٹ کو اس امر کا اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسی ہدایات جاری کرے، حکم نافذ کرے یا ڈگری جاری کرے جس کے ذریعے مکمل انصاف کیا جا سکے۔ سپریم کورٹ اپنا یہ اختیار عدالت کے رو برو زیرِ التوا کسی بھی مقدمے یا معاملے کے بارے میں مکمل طور پر استعمال کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ اپنے رو بروکسی شخص یا کوئی بھی دستاویزات طلبی یا دستاویزات کی دریافت کا مکمل اختیار رکھتی ہے۔)
آئین کے اس آرٹیکل کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے، سپریم کورٹ کے جو جج حضرات پاناما کمیشن میں بیٹھیں گے وہ اپنا یہ اختیار استعمال نہیں کر سکیں گے۔ اس کی قانونی وجہ بھی صاف ظاہر ہے کیونکہ جج صاحبان 1956ئکے قانون کے تحت محض سول جج کا اختیار استعمال کر سکیں گے جو لازمی طور پر پاکستان کی حدود تک ہی محدود ہیں۔
انگریزی قانون کی ایک اصطلاح جسے ملزم اپنے حق میں بے رحمی سے استعمال کرتے ہیں اسے(Blame the victim)کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے اپنا مدعا، مدعی یا ملزم کے سر ڈال دو۔ جنگ اور فوج کی زبان میں بھی اسی طرح کا محاورہ موجود ہے،کہا جاتا ہے جارحیت بہترین دفاع ہے۔ اسی لئے نواز شریف نے چند جارحانہ سوال اٹھائے، مثلًا یہی کہ دھرنے والوںکا احتساب ہونا چاہیے۔ جس نے ان کے گھر پر تالے لگائے اس کا احتساب ہونا چاہیے۔ جو انہیں وطن سے بے وطن کرنے کے ذمہ دار ہیں ان کا احتساب بھی ضروری ہے۔ وزیراعظم یہ بھی کہہ گزرے، پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والوں کاا حتساب بھی ہونا چاہیے۔
وزیراعظم کی اس تقریرسے متاثر ہو کر بلاول بھٹونے فوراً ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا جبکہ کسی بے رحم شخص نے وہ ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی جس میں سعودی عرب کی انٹیلی جنس کے سربراہ پرنس مقرن، سابق سعودی بادشاہ کے داماد اور رفیق حریری آف لبنان کے بیٹے سعد حریری پاکستان میں کھڑے ہوکر میڈیا سے لائیو مخاطب ہیں۔ دونوں نے کہا ہم معاہدے کے تحت نواز شریف کو لے کر گئے۔ ایک اور سجن بے پروا نے سپریم کورٹ پر نون لیگی حملے کی ویڈیو تازہ کرکے پھر سے جاری کر دی۔ آج کل وزیراعظم غصے میں ہیں، مجھے ان نون لیگی کارکنوں پر ترس آ رہا ہے جو سپریم کورٹ پر حملے کے ذمہ دار ٹھہرائے گئے جبکہ لیڈر صاف بچ گئے۔ کہیں یہ کارکن دوبارہ نہ پکڑے جائیں۔ باقی بچے شہزادہ مقرن، رفیق حریری کا بیٹا سعد حریری، ان کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لئے آپ کو وزیراعظم کی چوتھی تقریرکا انتظار کرنا پڑے گا۔ دھرنے میں خاموش رہ کر نواز شریف نے جو کمائی کی تھی ان کی 3 تقریروں نے اس کا سَوا ستیاناس کر دیا۔ فی الحال انتظار فرمائیے، فائنل راؤنڈ جلد آ رہا ہے اور چوتھی تقریر بھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved