ڈرنے والا نہیں ہوں‘ الزامات ثابت
ہو گئے تو گھر چلا جائوں گا : نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''دھمکیوں سے ڈرنے والا نہیں‘ الزامات ثابت ہو گئے تو گھر چلا جائوں گا‘‘ بشرطیکہ پرائے پتروں نے گھر جانے دیا کیونکہ ان جرائم کی سزا تو کم از کم جیل ہے‘ اللہ معاف کرے۔ انہوں نے کہا کہ'' ہمیں اخلاقیات کا سبق سکھانے والے بتائیں‘ فوجی آمر کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کون کھڑا تھا‘‘ اگرچہ خاکسار بھی جنرل ضیاء الحق کے پیچھے کھڑا رہا تھا لیکن ایک تو میں نے ہاتھ نہیں باندھے تھے‘ بلکہ پھیلائے ہوئے تھے‘ جس پر انہوں نے مجھے وزیر خزانہ پنجاب مقرر کر دیا اور دوسرے‘ وہ کوئی فوجی آمر بھی نہیں تھے بلکہ اللہ لوک آدمی تھے جو اپنی عمر اپنے اعلان کے مطابق میرے سپرد کر کے اللہ کو پیارے ہو گئے جن کی برسی پر میں آنسوئوں سے رویا کرتا تھا‘ اور ہر بار عہد کیا کرتا تھا کہ میں ان کے مشن کو مکمل کروں گا جس پر اب تک عمل کر رہا ہوں اور ان کی لگائی ہوئی پنیری کا اب تک خیال رکھ رہا ہوں اور کسی کی پروا بھی نہیں کر رہا۔ انہوں نے کہا کہ'' وطن کی مٹی سے عشق ہے‘ میرا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے‘‘ اسی لیے میں نے اپنی اولاد اور جائیداد سمیت کچھ بھی وطن میں نہیں رکھا تاکہ اس کے بوجھ تلے اس کی کمر ہی نہ ٹوٹ جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''کچھ لوگ ملک کو تباہ کرنے کے درپے ہیں‘‘ حالانکہ یہ نیک کام خود خاکسار بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ سرانجام دے رہا ہے اس لیے میری ان مساعی جمیلہ پر اعتبار کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''اللہ کے بعد صرف عوام کو جوابدہ ہوں‘‘ اگرچہ وہ بھی سب کے سب گمراہ ہو کر جرنیل کے گن گا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم اس وقت سے ٹیکس دے رہے ہیں جب کچھ لوگوں کو اس لفظ کے ہجے بھی نہیں آتے تھے‘‘ البتہ درمیان میں مجھے خود اس کے ہجے بھول گئے اور سارا پیسہ اس کے بغیر ہی باہر بھیجنا شروع کر دیا‘ ہیں جی؟ کیونکہ انسان سے بُھول چُوک ہو ہی جاتی ہے اور کسی لفظ کے ہجے ہمیشہ بھی یاد نہیں رہتے‘ جبکہ کھانا اگر نہ کھایا ہوا ہو تو میرا دماغ بالکل ہی کام نہیں کرتا‘ اور اس وقت تک معطل رہتا ہے جب تک کہ پیٹ بھر کے کھا نہ لوں‘ انہوں نے کہا کہ '' پرائیویٹ جہازوں میں پھرنے والوں سے حساب کون لے گا‘‘ جبکہ پھرا صرف سرکاری جہازوں ہی میں جاتا ہے‘ اور اب کے وزیراعظم بننے کے بعد جتنا ہوائی جہازوں میں میں پھرا ہوں اس سے ہوائی جہازوں کے ڈیلے ہی باہر آ جاتے تھے کیونکہ دوست احباب اور جملہ رشتہ دار بھی عموماً ساتھ ہی ہوتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والے قانون کی بالادستی کا راگ الاپ رہے ہیں‘‘ جبکہ میں نے کبھی ایسا نہیں کیا بلکہ صرف سپریم کورٹ پر اس کا مزاج درست کرنے کے لیے حملہ کیا تھا جبکہ شہباز صاحب جملہ بلوائی حضرات کے لیے لاہور سے دیگیں پکوا کر لے گئے تھے جبکہ پارلیمنٹ پر حملہ کرانے
والوں نے کسی سے پانی کا گلاس بھی نہ پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ ''ہمارا خاندان ایک ایک پیسے کا حساب دے گا‘‘ ماسوائے روپوں اور ڈالروں کے‘ کیونکہ ان کا حساب تو الحمدللہ ہمیں بھی معلوم نہیں ہے کیونکہ ہم بنیے نہیں ہیں جو ان کا حساب رکھتے پھریں جبکہ حساب رکھنے کے لیے سوئس بینک اور آف شور اکائونٹس ہی کافی ہیں کہ آخر وہ کس مرض کی دوا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پانامہ لیکس کو بنیاد بنا کر لگائے گئے الزامات بائیس برس پرانے ہیں اور کچھ لوگ گڑھے مردوں کو اکھاڑنے پر زور دے رہے ہیں ‘‘ حالانکہ اس سے مردوں کی سخت بے حرمتی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ''منتخب وزیراعظم کو ہتھکڑیاں لگا کر کال کوٹھڑی میں ڈالا گیا۔ جلاوطن کیا گیا‘ اس وقت سپریم کورٹ کو کیوں نہیں جگایا گیا‘‘ اگرچہ خاکسار نے پنگا ہی ایسا لے لیا تھا کہ سپریم کورٹ بھی کچھ نہ کر سکتی تھی، تاہم اب جب پھر ایسا وقت آنے والا ہے تو سپریم کورٹ کو پانامہ لیکس پر لگا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''میری ساری زندگی کھلی کتاب کی طرح ہے‘‘ جس میں سارے کارہائے نمایاں و خفیہ درج ہیں اور ہر کوئی انہیں پڑھ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''72ء سے حساب دے رہا ہوں‘‘ کیونکہ معاملات اس قدر طویل و عریض ہیںکہ 72سال بھی ناکافی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''خوفزدہ ہو کر سیاست نہیں کی‘‘ اور لندن بھی خوفزدہ ہو کر نہیں گیا تھا بلکہ زرداری صاحب کو خوفزدہ کرنے گیا تھا کہ اگر میں پھنس گیا تو آپ بھی نہیں بچ سکیں گے، اس لیے آپسی تعاون ہی ہمیں بچا سکتا ہے جس پر خاکسار نے ایان علی اور ڈاکٹر عاصم حسین کی مدد کرنے کی حامی بھر لی اور جواب میں ان کی جماعت نے دھرنے میں شامل نہ ہونے اور مجھ سے استعفیٰ طلب نہ کرنے کا وعدہ کیا جس پر وہ تو قائم ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ میں اپنا وعدہ کیسے پورا کر سکوں گا کیونکہ ایک تو میرے اختیار ہی میں کچھ نہیں ہے اور دوسرے پانامہ لیکس کے علاوہ بھی مجھے کئی اطراف سے خطرات درپیش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''بہتان لگانے والے دیکھ لیں ملک کو دہشت گردی کی آگ میں کس نے دھکیلا‘‘ اور اگر ہمارے ہاتھوں ایسا ہو گیا ہے تو ہماری مجبوریوں کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے کہ اگر ایسا نہ کرتے اور سخت رویہ اختیار کرتے تو اپنے ووٹ بینک ہی سے فارغ ہو کر بیٹھ جاتے کیونکہ الحمدللہ ہمارا تو یہاں قیام ہی اس وقت تک ہے جب تک اقتدار ہمارے پاس ہے ورنہ ہمارا یہاں ہے ہی کیا۔ انہوں نے کہا کہ ''مجھ پر ہائی جیکنگ کا مقدمہ بنانے کا حساب ہونا چاہیے‘‘ حالانکہ میں نے فقط
اتنا ہی کہا تھا کہ اگر پاکستان میں حالات سازگار نہیں ہیں تو جہاز کو بھارت لے جایا جائے کہ ہمسایہ ماں جایا ہے اور ہم ایک دوسرے کا شروع ہی سے بے حد خیال رکھتے چلے آ رہے ہیں اور اب بھارتی جاسوس پکڑنے پر بھی میرے منہ سے کوئی ایسا لفظ نہیں نکلا کہ بھارت کو ناگوار گزرے جبکہ بھارتی جاسوس تو پہلے ہی ملک عزیز میں ہر جگہ موجود ہیں‘ ایک کے پکڑے جانے سے کیا فرق پڑتا ہے بلکہ پچھلے دنوں چنیوٹ والی ہماری شوگر ملز سے بھی دو ایسے جاسوس پکڑے گئے تھے لیکن الحمدللہ کہ ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ انہوں نے کہا کہ '' کیا عوام جھوٹ بولنے والوں کو معاف کر دیں گے؟‘‘ اور خطرہ ہے کہ ضرور معاف کر دیں گے کیونکہ یہ ہمارے جھوٹ بھی ہمیشہ سے معاف کرتے چلے آ رہے ہیں اور انہیں اس کی عادت پڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''کمشن بنانے اور تحقیقات کے لیے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا ہے‘‘ اور اب دیکھیں گے کہ وہ مقدمات کی زیادتی کی وجہ سے کیسے معذرت نہیں کرتے بلکہ اب تک ایسے کمشنوں کا جو حشر ہو چکا ہے اور ان کے سربراہوں کی جو عزت افزائی ہوئی ہے اس کے پیش نظر وہ خود اس عزت افزائی کے لیے تیار ہوتے ہیں یا نہیں۔ آپ اگلے روز الیکٹرانک میڈیا پر چند روز میں قوم سے تیسری بار خطاب کر رہے تھے۔
آج کا مطلع
کیا پوچھ رہے ہو نام اُس کا
بس دیکھتے جائو کام اُس کا