تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     25-04-2016

انوکھی داستان

وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے پانامہ لیکس کی کانٹوں سے اٹی ہوئی جھاڑیوں کو ٹیلی ویژن پر قوم سے کئے جانے والے اپنے ایک خطاب کی صورت میں کی جانے والی پر مغز تقریر سے اس طرح اکھاڑ کر پھینکا ہے کہ لگتا ہے یہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ تقریر سننے والوں کی پانامہ لیکس کی جانب سے توجہ تو اسی وقت ہٹنا شروع ہو گئی تھی جب میاں نواز شریف نے اپنی اس نشری تقریر میں انتہائی خفیہ معلومات دیتے ہوئے بتانا شروع کیا کہ وہ اسی لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن اور لڑکپن سب اسی لاہور اور پاکستان میں گزرا ہے اور ان کی تو شادی بھی اسی پاکستان میں ہوئی ہے۔ ان کی سادگی اور شان و شوکت کا مظاہرہ کئے بغیر شادی خانہ آبادی کے موقع پر اتاری گئی ایک تصویر کی تو کئی سالوں سے سوشل میڈیا پر دھوم مچی ہوئی ہے جس میں وہ اپنے بزرگوں اور بھائیوں کے ساتھ دولہا بنے ہوئے بیٹھے دکھائی دیتے ہیں اور اس تصویر کی خاص بات یہ ہے کہ ان کے بائیں جانب رکھا ہوا پیڈسٹل فین اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اس وقت ملک میں ایک تو ائیر کنڈیشنر کا رواج بہت ہی کم تھا اور دوسرے لوڈ شیڈنگ بھی نہیں ہو تی تھی۔ 
وزیر اعظم نے اپنی اس تقریر میں اپنے ساتھ قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور لیاقت علی خان سمیت1947ء سے اب تک کے تمام حکمرانوں اور سرکاری ملازمین سمیت کاروباری حضرات کے احتساب کا بھی چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تجویز کئے جانے والے کمیشن سے مطالبہ کرد یا اور صرف مطالبہ ہی نہیں کیا بلکہ اس سلسلے میں کمیشن کیلئے جو قواعد و ضوابط طے کئے ہیں‘ ان میں با قاعدہ لکھ بھی دیا ہے کہ اگر میرے اثاثے اور بیرون ملک جائداد کی تفصیلات معلوم کرنی 
ہیں تو اب تک پاکستان میں جو بھی حکمران رہا ہے اس کے بارے میں مکمل تحقیق کی جائے۔ میاں نواز شریف وزیر اعظم پاکستان کی تقریر پر جب اپنے استاد گوگا دانشور سے اس پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو کہنے لگے کہ تمہیں بتائوں وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں1947 ء سے احتساب کا مطالبہ کیوں کیا ہے؟۔ہمارے کچھ نہ سمجھنے پر وہ بولے نادان! آصف علی زرداری کی اسلام آباد والی تقریر بھول گئے جس میں انہوں نے فوج کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا '' پاکستان بننے سے اب تک کے تمام جرنیلوں کی ایک فہرست مہیا کروں گا پھر ساری عمر بیٹھ کر جواب دیتے رہنا۔۔۔خبر دار خبردار‘‘۔ وزیر اعظم کی تقریر پر مزید کریدنے کیلئے گوگا دانشور سے سوال کیا تو وہ کہنے لگے۔۔۔۔ پاکستان بننے کے کوئی بیس سال بعد انسپکٹر آف سکولز کسی دیہاتی سکول کے معائنے کیلئے تشریف لے کر گئے ،اس وقت سرکاری افسران کو تھوک کے بھائو موٹر گاڑیاں نہیں دی جاتی تھیں، وہ پہلے بس اور بعد میں تانگے پر بیٹھ کر اس سکول تک پہنچے، مختلف کلاسوں کا معائنہ کرنے کے بعد انہوں نے پانچویں جماعت کے لڑکوں سے سوال کیا '' لاری اڈے سے تمہارے اس سکول کا فاصلہ پانچ میل ہے اور گندم کا بھائو آج کل بیس روپے من ہے بتائو میری عمر کتنی ہے؟۔کلاس کے سب سے آخر میں چھپا کر بٹھائے گئے نالائق طالب علم نے سب کی نظریں بچا کر ہاتھ اٹھاتے ہوئے جو جواب دیا وہ تو کبھی پھر بتائیں گے لیکن گوگا دانشور کہتے ہیں کہ جو جواب اس پانچویں جماعت کے طالب علم نے انسپکٹر سکولز کو دیا تھا کچھ اسی قسم کی میاں نواز شریف کی یہ تقریر تھی جس کی ابھی تک گوگا دانشور جیسے با علم شخص کو بھی سمجھ نہیں آ رہی لیکن گوگا دانشور کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کی یہ تقریر بار بار سننے کے بعد انہوں نے انتہائی سوچ بچار کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ '' یہ سب عمران خان کی کوئی سازش لگتی ہے‘‘ کیونکہ میاں صاحب نے کہا ہے کہ ان کی شادی بھی پاکستان میں ہوئی جبکہ سب جانتے ہیں کہ عمران خان کی شادی لندن میں ہوئی۔۔میاں صاحب کے بچے بھی یہیں پاکستان میں ہی پیدا ہوئے جبکہ عمران خان کے لندن میں پیدا ہوئے۔ میاں نواز شریف کے پاس اﷲ کا دیا ہوا سب کچھ ہے جس سے وہ جہازوں اور ہیلی کاپٹروں میں سفر کرتے ہیں جبکہ عمران خان کے پاس سوائے بنی گالہ کے گھر کے کونسی کوئی فیکٹری یا کارخانہ ہے جس کی کمائی سے وہ پرائیویٹ جہازوں میں سفر کرتے ہیں۔۔۔اور وزیر اعظم ہائوس سے جاری ہونے والے ٹویٹس میں بھی عمران خان سے پوچھا جا رہا ہے کہ آپ کا تو کوئی کاروبار ہی نہیں اور بیرون ملک نہ ہی کوئی آف شور کمپنی ہے تو پھر یہ سب ٹھاٹ باٹھ کس طرح سے چل رہے ہیں،یہ جو ہر روز آپ ایک شلوار کرتہ پہنتے ہیں آخر یہ کس طرح خریدے جاتے ہیں اور پشاور سے جو ہر چھ ماہ بعد ایک نئی چپل بن کر اسلام آباد کے بنی گالہ میں پہنچ جاتی ہے، ٹویٹس کے ذریعے اب بار بار اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جن کا عمران خان کو اب جواب دینا ہی پڑے گا ؟۔ 
کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ عمران خان کے ساتھ ساتھ اپنے محبوب وزیر اعظم سے بھی پوچھ لیا جائے کہ حضور والا:۔ جب پاکستان میں اب تک سینکڑوں بچے غذائی قلت،ادویات اور طبی سہولتوں کی کمی کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں، جب لاہور کے کارڈیالوجی ہسپتال کے ایک بیڈ پر تین تین مریض لیٹے ہوتے ہیں توآپ اپنے ۔۔۔۔ایک معمولی چیک اپ کیلئے جس کے بارے میں نہ تو اس ہسپتال کے ذرائع نے کوئی بیان جاری کیا ہے اور نہ ہی وزیراعظم ہائوس کے کسی ترجمان نے بتانے کی کوشش کی ہے کہ خدا نخواستہ وہ کو نسی بیماری ہے جس کیلئے آپ ایک خصوصی جہاز بھر کر لندن براستہ ماسکو پہنچے اور وہاں آخر کیوں ایک ہفتہ قیام کے بعد واپس اسلام آباد آئے؟۔
کیا حکومت پاکستان کا کوئی ایک نمائندہFOI آرڈیننس2002 ء اور آئین پاکستان کے آرٹیکل19A کے تحت یہ 
بتانے کی کوشش کرے گا کہ اس خصوصی جہاز جس میں بیٹھ کر آپ 13 اپریل سے19 اپریل تک لندن میں رہے آپ کے ساتھ عملے، خاندان اور سٹاف سمیت کتنے لوگ سوار تھے؟۔کیا یہ سب لوگ جو آپ کے ساتھ اس جہاز میں سوار تھے ان کے اخراجات حکومت پاکستان نے ادا کئے ہیں تو براہ کرم بتانے کی کوشش کریں گے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے کسی بھی وزیر اعظم کے طبی معائنے کیلئے اخراجات اور ساتھ جانے والے عملے کی کیا تفصیلات ہیں ؟۔براہ کرم ،کیا وزیر اعظم یا ان کے سرکاری ترجمان قوم کو یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ خصوصی جہاز لے کر میڈیکل چیک اپ کیلئے لندن میں قیام کے دوران اس ہسپتال سے طبی معائنے، کسی بھی قسم کے کرائے گئے طبی ٹیسٹ اور دی جانے والی ادویات پر مشتمل میڈیکل بلوں کے حساب سے کس قدر اخراجات حکومت پاکستان نے ادا کئے ہیں؟۔ براہِ کرم کیا آپ یا وزیر اعظم ہائوس سے جاری کردہ کوئی ٹوئٹ یہ بتائے گا کہ جس جہاز میں آپ عازم ِلندن ہوئے اس کے تیل کے اخراجات کے علا وہ لینڈنگ، پارکنگ اور ہینڈلنگ چارجز کے علا وہ لندن اور ماسکو ائیر پورٹ پر کس قدر اخراجات ہوئے؟۔برائے مہربانی کیا یہ ممکن ہے کہ وزیر اعظم یا وزارت خزانہ کی جانب سے اس جہاز میں سوار تمام لوگوں اور عملے سمیت سب کے لندن میں قیام کے دوران کئے جانے والے اخراجات کے بارے میں ہوٹل بلوںکی تفصیلات فراہم کی جا ئیں؟!!
کیسی انوکھی داستان سب کو سنا گیا۔۔۔۔ایک شخص سارے'' ملک‘‘ کو ما موں بنا گیا ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved