تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     25-04-2016

کیا واقعی؟

میں بہت دیر تک کوئی خبر تلاش کرتا رہا کہ شاید عمران خان نے تحریک انصاف کے مقتول رکن اسمبلی سردار سورن سنگھ کی آخری رسومات میں شرکت کی ہو یا وہ اظہار افسوس کے لئے ان کے کسی عزیز سے ملے ہوں۔ خبر ہوتی تو ملتی۔ ان کے لئے غالباً پارٹی کا یوم ِ تاسیس کا جلسہ زیادہ اہم تھاجو میوزک شو سے زیادہ اب فیملی میلہ بن چکا ۔ پہلے لوگ میوزک کے ساتھ سیاسی تڑکے کا چسکا لیتے تھے‘ اب کشش کے لئے نیا سامان بھی متعارف کرایا جا رہا ہے۔ کراچی میں پاک سرزمین پارٹی کا جلسہ اس لحاظ سے ایک قدم آگے تھا۔ وہاں کپڑوں کی خریداری اور چٹ پٹے کھانوں کے سٹال بھی لگے تھے۔ گویا لوگوں کے لئے تفریح کا بھرپور سامان تھا۔ آئندہ جلسے غالباً کچھ اس طرح ہوں گے کہ ان میں بچوں کے لئے جھولے ہوں‘ لکی ایرانی سرکس کا اہتمام ہو اور فیس پینٹنگ اور کھانے بنانے کے مقابلے ہوں۔ بوری ریس اور ایک ٹانگ پر دوڑ بھی مقابلوں میں شامل کی جا سکتی ہے۔ صرف بیک گرائونڈ میوزک چلانے سے اب بات نہیں بنے گی۔ میوزک لوگ گھر میں بھی سن سکتے ہیں۔ آخر فیملی کے ساتھ اتنی دور گرمی میں جانے کا کچھ تو فائدہ ہونا چاہیے۔ گرمی سے یاد آیا‘ کل دوپہر کو یہ ٹکر چلتے رہے کہ علیم خان اور جہانگیر ترین قافلے لے کر نکلے تو راستے میں گرمی کی شدت برداشت نہ کر سکے۔ دونوں حضرات گاڑی میں بیٹھ کر غائب ہو گئے۔ کارکنان انہیں ڈھونڈتے ہی رہ گئے۔ کسی نے کہا وہ شاید جہاز سے اسلام آباد جائیں گے۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو کیا غلط کیا؟ یہ گرمی اور گولیاں وغیرہ کارکنوں اور عام 
لوگوں کے لئے ہی تو ہوتی ہیں۔ بات سردار سورن سنگھ سے شروع ہوئی تھی اور فیملی میلوں میرا مطلب ہے سیاسی جلسوں کی طرف نکل گئی۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کیا تحریک انصاف میں کوئی ایسا شخص نہیں جس نے خان صاحب کو یہ باور کرایا ہو کہ انہیں سردار صاحب کی آخری رسومات میں شرکت کرنی چاہیے۔سردار صاحب بہر حال پارٹی کے رکن اسمبلی اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر اور انتہائی مخلص انسان تھے۔انہوں نے پارٹی کا بھرپور ساتھ دیا۔ آج وہ نہیں رہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ان کو یکسر بھلا دیا جائے۔ کیا وہ اسی قابل تھے کہ پارٹی کے شعبہ اطلاعات نے عمران خان کے نام پر دو سطری بیان جاری کرنا کافی سمجھا۔ اگر خان صاحب وہاں جاتے تو اُن کا قد مزید بڑھتا۔ سکھ برادری میں ان کی قدرومنزلت میں اضافہ ہوتا۔ یہ پیغام بہت دُور تک جاتا کہ خان صاحب غمگساروں کے بھی ساتھی ہیں۔ مگر انہوںنے اس حوالے سے اپنا امیج تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔خان صاحب دوسروں کیلئے تو اخلاقیات کی بات کرتے ہیں‘ کوئی انہیں بھی بتائے کہ دوسروں کی خوشی غمی میں شریک ہونا بھی اخلاقیات ہی کا حصہ ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ جو شخص پارٹی چھوڑدیتا ہے یا دنیا ہی چھوڑ جاتا ہے‘ وہ پارٹی کے لئے کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ کچھ دن پہلے پی ٹی آئی کے کراچی کے رکن اسمبلی نے پاک 
سرزمین پارٹی جوائن کی تو انہیں سوائے غدار وطن، باقی سب کچھ کہا گیا۔ علی زیدی فرماتے ہیں‘ ان پر زمینوں پر قبضے کا الزام تھا اور پارٹی چیئرمین انہیں قریب قریب پارٹی سے نکال چکے تھے۔ یہ تو اچھا ہوا وہ پارٹی چھوڑ گئے۔ اس سے قبل ایک صاحب نے ایم کیو ایم جوائن کی تو انہیں کمزور جانور سے تشبیہ دی گئی۔ اس رویے میں پارٹی میں موجود دیگر رہنمائوں‘ کارکنوں اور چاہنے والوں کے لئے ایک واضح پیغام ہے جو بتانے کی ضرورت نہیں۔ ابھی خبر آئی کہ سردار سورن سنگھ کے قتل کے الزام میں پی ٹی آئی کے ہی ایک رکن کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جماعت کے اندر ہی اندر کیا کھچڑی پک رہی ہے۔لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو کیوں تیار نہیں۔ شاہ محمود قریشی چودھری سرور کا نام سننے کو کیوں تیار نہیں؟ انٹراپارٹی الیکشن کیوں منسوخ کئے گئے؟ کراچی میں پی ٹی آئی کے ووٹ نصف سے بھی کم کیسے رہ گئے؟ کیا خان صاحب کو ان باتوں کی فکر ہے؟ پی ٹی آئی کے چاہنے والے ان سوالوں کا جواب چاہتے ہیں۔ وہ اگر حکمران جماعت کی کرپشن کو چھپانے کیلئے کی جانے والی کوششوں کو ناپسندکرتے ہیں تو پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں میں بھی احتساب کے خواہش مند ہیں۔وہ نہیں چاہتے کہ جس طرح حکمران خاندان اپنے بچوں کو بچانے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے ‘ خان صاحب اپنے مخلص رہنمائوں پر اُن رہنمائوں کو ترجیح دیں جو دیگر جماعتوں سے اس جماعت میں آئے ہی اس لئے تاکہ تحریک انصاف کو اندرنی خلفشار کا شکار رکھیں۔ دوسری جانب وزیراعظم ہیں جن کے مشیر انہیں مزید بحرانوں میں پھنسانے پر تلے ہیں۔ پی ٹی آئی یا اپوزیشن کا مطالبہ صرف ڈمی کمیشن بنانے کا نہیں تھا۔ اگر حکمرانوں کے اپنے بنائے گئے کمیشن منصفانہ احتساب کر پاتے تو پھر ماڈل ٹائون کمیشن کی رپورٹ کبھی نہ دبائی جاتی۔ اپوزیشن کا تو کام ہی احتجاج کرنا اور جلسے کرنا ہے۔ جواب میں حکمران جلسے کرنے لگیں تو سمجھ جائیں‘ دال میں کالا ہے۔ عوام جلسوں کی طاقت سے نہیں بلکہ کمیشن کی غیر جانبدارانہ تحقیقات سے ہی مطمئن ہوں گے۔ ویسے یہ عوام کو مطمئن نہ بھی کرنا چاہیں تو عوام کیا کر لیں گے۔ اگلے انتخابات میں ایک پلیٹ بریانی کے لئے یہی لوگ پھر انہی حکمرانوں کو ووٹ دے دیں گے جن سے آج پانامہ لیکس پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس وقت انہیں یاد بھی نہیں ہو گا کہ انہوں نے کوئی کرپشن کی تھی۔ یاد ہو گا بھی تو اس سے فرق کیا پڑے گا۔کیا تحریک انصاف کے دھرنوں اور حکومت کو لتاڑنے کے باوجود کوئی نتیجہ نکلا؟ ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ ن بازی لے گئی۔ مجھے لگتا ہے اپوزیشن جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف کو ایک تحریک عوام کے خلاف بھی شرو ع کرنا ہو گی کہ آخر ان کا رویہ انتخابا ت کے موقع پر بدل کیوں جاتا ہے۔ کیا اپوزیشن جماعتوں میں ایسی کمزوریاں موجود ہیں‘ عوام جن سے بیزار ہو چکے یا پھر وہ خود کو اور ملک کو بدلنا ہی نہیں چاہتے؟ یا پھر وہ سمجھتے ہیں کہ صرف ایک عمران خان کے ٹھیک ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے دائیں بائیں آگے پیچھے اسی طرح کا ٹولہ اور شخصیات ہیں جیسی مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کے گرد۔ اگر عمران خان کو مائنس کر دیا جائے تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔ صرف ناچ گانوں اور میلوں ٹھیلوں سے سیاسی جماعتیں کب تک جلسہ گاہیں بھر سکیں گی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے جلسوں میں کون سے گانے چلتے تھے یا کون سا ڈی جے بٹ موجود تھا۔ لوگ آتے تھے اور دیوانہ وار آتے تھے۔ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر گرمی سردی کی پروا کئے بغیر گھنٹوں بھٹو کا انتظار کرتا۔ آج کے سیاسی رہنما قافلوں سے اس لئے الگ ہو جاتے ہیں کہ گرمی برداشت نہیں ہوتی ۔ اگر ان کا رویہ اپنے کارکنان سے ایسا ہی رہا تو عوام ان میلوں ٹھیلوں اور ناچ گانوں سے بھی جلد بیزار ہو جائیں گے اور پھر پی ٹی آئی کو بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ایل ڈی اے‘ واسا اور پی ایچ اے کے کارکنوں کو ٹرکوں میں بھر کر لانا پڑے گا۔ کیا پی ٹی آئی ایسی ہی صورتحال کی جانب بڑھ رہی ہے؟ کیا واقعی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved