تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     26-04-2016

جانے والے لوٹ کر نہیں آتے!

جانے والے لوٹ کر کبھی نہیں آتے ۔ سب چلے جاتے ہیں، بس کہانی رہ جاتی ہے۔ موت ہی زندگی کی سب سے بڑی سچائی ہے‘ اور اسی کا ہمیں ادراک نہیں۔ آدمی بھی عجیب ہے، بالکل عجیب!
''آپ کا دوست قتل کردیا گیا‘‘ 
عدنان عادل نے مجھے بتایا تو میں حیرت زدہ رہ گیا۔ کیا کوئی سورن جیت سنگھ کو بھی قتل کر سکتا ہے؟ اس سے تو صرف محبت کی جا سکتی تھی۔ ظاہر ہے کہ اختلاف کیا جا سکتا تھا۔ بہت سے بہت لڑائی جھگڑا‘ مگر قتل۔ ایسے ''بیبے‘‘ آدمی کا قتل۔ خدا کی پناہ ۔لوگ کیا پاگل ہوگئے؟
2009ء کے ہولناک سیلاب میں‘ جس نے 20 فیصد آبادی کو متاثر کیا تھا‘ یہی وہ سیلاب تھا‘ جس کے بارے میں الطاف حسین نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ مصنوعی ہے۔ امریکیوں نے لیزر سے برپا کیا۔ میں سمجھاتارہاکہ جی نہیں حضور بلکہ غیرمعمولی بارشوں کے طفیل ۔72 گھنٹے پہلے ہی پیش گوئی تھی۔ بریگیڈیئر مجتبیٰ کے ہاں اس سے ملاقات ہوئی تھی۔ گوردوارہ حسن ابدال میں وہ سینکڑوں سکھ خاندانوں کے ساتھ مقیم تھا۔ ان کی خدمت میں جتا ہوا۔ جلد ہی اس سے دوستی ہوگئی۔ تھا ہی ایسا۔ سادہ اطوار مگر ہوش مند‘متحرک اور انسان دوست۔ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک حکیم تھا‘ خاندانی طبیب۔ مگر اس کی زیادہ بڑی دلچسپی سماجی اور سیاسی تھی۔ ان دنوں وہ جماعت اسلامی کی طرف مائل تھا۔ دو چیزوں کی فکر اسے لاحق رہتی۔ ایک تو اپنے سکھ بھائی اور دوسرے اپنا سیاسی مستقبل۔ سکھوں اور ہندوئوں کے ایک گروپ کے ساتھ ایک ملاقات اب تک یاد ہے۔ وزیراعلیٰ مہتاب عباسی کے سابق مشیر گیان سنگھ کے سسر بھی موجود تھے‘ جو اب برطانوی شہریت کی تگ و دومیں ہے۔ بولے: ہم تو جماعت اسلامی کے ساتھ ہیں۔ سبب پوچھا تو کہا: وہ نیک لوگ ہیں۔ جنت میں جائیں گے۔ ہم بھی نیک لوگ ہیں۔ ہم بھی جنت میں ان کے ساتھ ہوں گے۔ ان کے رفیق اس پر ہنسے تو میں نے کہا: ہنسنے کی کیا بات ہے۔ جماعت اسلامی والے کیا پارسا نہیں۔ سورن جیت سنگھ نے یہ اخذ کیا کہ میں جماعت اسلامی کا حامی ہوں۔ بولا: کیا میں ان سے وابستہ رہوں؟ مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ مجھے ایم پی اے کا ٹکٹ دیں گے۔ اس سوال کا میں کیا جواب دیتا؟
چند ہفتے بعد پھر ملاقات ہوئی تو وہ مخمصے میں تھا کہ جماعت اسلامی سے جڑا رہے یا تحریک انصاف سے وابستہ ہو جائے جو پختونخوا پہ غالب آتی جا رہی تھی۔ عرض کیا: سورن سنگھ! آدمی کو وہاں ہونا چاہئے‘ جہاں اس کا جی لگتا ہو۔ مگر سوال اسے پریشان کرتا تھا: کیا جماعت والے کافی سیٹیں جیت سکیں گے؟ کیا اسے ایم پی اے بنائیں گے۔ غالباً وہ پیمان پر آمادہ نہ تھے۔ ایک دن جب اس نے بہت اصرار کیا تو میں نے کہہ دیا: تحریک انصاف میں چلے جائو اس لیے کہ ان کی کامیابی کا امکان زیادہ ہے۔ ثانیاً میں ان سے سفارش بھی کر سکتا ہوں۔ معلوم نہیں شرارت پر تلے رہنے والے مجتبیٰ نے کیا پٹی اسے پڑھائی تھی کہ بولا : وہ تو میں جانتا ہوں کہ عمران خان آپ کا بالکا ہے۔ اب تو میں بھی آپ کا بالکا ہوں۔ مجھے اس کے پاس لے جائیے۔
شاید 2010ء میں تحریک انصاف نے پشاور میں تین دن کا دھرنا دیا۔ کرپشن اور نیٹو افواج کو رسد اور اسلحے کے لیے راہگزر کی فراہمی کے خلاف۔ سورن جیت سنگھ آن پہنچا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور سٹیج پر لے گیا۔ عمران کو میں نے بتایا کہ وہ بڑی اہلیت کا آدمی ہے اور اپنی قوم میں بہت مقبول۔ اسے تقریر کا موقعہ دیاجائے۔ ایسا خطاب اس نے کیا کہ دھاک بیٹھ گئی۔ وہ ایک پیدائشی مقرر اور لیڈر تھا اور جیسا کہ کپتان نے اتوار کو اسلام آباد کے جلسے میں کہا : بیوی بچے بھارت چلے گئے‘ مگر وہ اس معاشرے میں ڈٹا رہا‘ جس میں وہ رچا بسا تھا‘ جسے وہ پسند کرتا تھا۔ وہ عاصمہ جہانگیر وں اور آئی اے رحمانوں سے کہیں زیادہ وہ پاکستانی تھا۔ایک پکا پاکستانی۔ ان لوگوں میں سے ایک جو معاشرے کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ جو ہجوم میں تنہائی کی طرح آسودہ رہتے ہیں۔ جن کا ظاہر اور باطن ایک سا ہوتا ہے۔
2009ء میں بھارتی حکومت نے سیلاب سے دوچار ہندوئوں اور سکھوں کے بارے میں پروپیگنڈہ شروع کیا کہ ان کا خیال نہیں رکھا جا رہا۔ ٹی وی پر وہ نمودار ہوا اوربھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو مخاطب کر کے یہ کہا : آپ کو کیا تکلیف ہے جناب! ہم پاکستانی ہیں اور یہ ہمارا اپنا مسئلہ ہے۔ یوں بھی ہماری دوسروں سے زیادہ دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔ یہ بالکل صحیح بات تھی۔ جس طرح تھر کی ہندو آبادی کے لیے مسلمان بلاامتیاز ایثار کرتے ہیں‘ پختونخوا کی سکھ اقلیت کی بھرپور مدد کی جا رہی تھی‘ خاص طور پر مسلح افواج کی طرف سے۔ مسلمانوں کی امدادی تنظیموں نے بھی ان کا خیال رکھا۔ کوئی بھوکا نہ رہا۔ نظم و نسق سورن سنگھ نے سنبھالے رکھا۔ جھجھک نام کی کوئی چیز اس میں نہیں تھی۔ جب طے کرلیتا تو غصے اور ہیجان پہ قابو رکھتا۔
2013ء میں تحریک انصاف نے اسے ایم پی اے بنا دیا۔ اس کا خیال تھا کہ میری سفارش پر‘ حالانکہ یہ اس کی کارکردگی کا نتیجہ تھا۔ ملک بھر میں بہت سے سکھوں اور ہندوئوں کو اس نے کپتان کی پشت پر لاکھڑا کیا تھا۔ اب بضد کہ اسے وزیر بنایا جائے۔ میں نے کہا : کچھ دن صبر کرو۔ بولا: اقلیتوں کے لئے کیا ایک وزارت بھی نہیں۔ میں نے کہا:صبر تو کرنا ہوگا۔ خیر، یہ مرحلہ بھی سر ہوا اور اس کے اپنے تحرک کے طفیل۔کسی دن ایک بات پر مجھے غصہ آیا اور میں نے کہا: سردار جی آپ بچوں کی طرح بے تاب ہو جاتے ہیں۔ ''کیا میں ہی بے تاب ہوتا ہوں۔ اتنا غصہ آپ کو کیوں آتا ہے۔ اپنے بالکوں کے ساتھ کیا اس طرح کا سلوک کیا کرتے ہیں۔‘‘ 
ایک اور واقعے نے کچھ زیادہ شرمندہ کیا۔ہمدرد بہت تھا۔ اس کی ایک رشتہ دار خاتون کو دل کا دورہ پڑا۔ اسے وہ فوجی فائونڈیشن ہسپتال راولپنڈی لایا ۔ علاج کے لئے ایک دھیلا بھی اس کے پاس نہ تھا۔ سورن سنگھ اس کی کیا مدد کرتا کہ جو کچھ آمدن تھی، اڑادیتا۔ اس دن وہ بے حد اداس تھا۔ جنرل عاصم باجوہ کو میں نے فون کیا۔سی ایم ایچ میں اسے داخل کرا دیجئے اور براہ کرم اس کا بل بھی ادا کیجئے۔ وہ حیران کہ کیا کریں۔ سورن سنگھ کے لئے آدمی انہوں نے بھجوایا مگروہ ملا نہیں۔ فون پر بھی نہیں۔ آخر کار میں نے اسے تلاش کیا۔ طے شدہ قیام کی بجائے وہ کہیں اور تھا اورمصر کہ وہ درست جگہ پہ ہے۔ شدید مصروفیت تھی۔ ایسے میں یہ نازک ذمہ داری۔ قدرے سختی کے ساتھ میں نے کہا،سورن سنگھ تم ہوش مندی سے کام نہیں لیتے۔ ایک زندگی کا سوال ہے اور تم ایسے لاپروا ہو۔ اس کی اداسی کچھ اور گہری ہوگئی۔ کہا! میری بہن مر رہی ہے۔مغالطہ ضرور ہوا مگر میں غیر ذمہ داری کا ارتکاب کیسے کرسکتا ہوں۔ جنرل باجوہ کا خدا بھلا کرے، سی ایم ایچ والوں نے کچھ عنایت کی مگر بل کا ایک حصہ تو ادا کرنا تھا۔ اس کے لئے انہوں نے دوستوں سے چندہ جمع کیا۔ آپریشن کامیاب رہا۔ مریض کے ساتھ وہ گھر لوٹ گیا۔ اس دن وہ بہت بشاش تھا۔
یادیں ہجوم کرتی چلی آتی ہیں۔ گرمیوں کے موسم میں اسے تازہ انجیر بھجوانے کو کہتا۔ مصروفیت کا مارا ہوا کبھی ڈھونڈتا، کبھی بہانہ کرتا۔ ''بونیر کی بلندیوں پر انجیر دیر سے پکتی ہے‘‘وہ کہتا ۔''آنے میں موسم گزر جاتا۔ وہ پسند ہوتو سوکھی انجیر بھجوا دے‘‘ ناراضی کے ساتھ میں اس سے کہتا: سکھا! سوکھی انجیر اسلام آباد میں بہت ملتی ہے۔ شہد کا معاملہ بھی یہی تھا۔ وہ تلاش کرتا ہی رہتا۔ کبھی کبھار محض چھیڑ چھاڑ کے لئے میں اس سے فرمائش کردیتا۔ جی چاہتا ہے اب چیخ کر کہوں۔ سورن سنگھ یہ مذاق اچھا نہیں۔ خدا کے لئے لوٹ آئو، میں تمہیں شہد اور انجیر کے لئے کبھی پریشان نہ کروں گا۔ تم ان سے کہیں زیادہ میٹھے ہو، مجھے تمہاری کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
جانے والے لوٹ کر کبھی نہیں آتے ۔ سب چلے جاتے ہیں، بس کہانی رہ جاتی ہے۔ موت ہی زندگی کی سب سے بڑی سچائی ہے‘ اور اسی کا ہمیں ادراک نہیں۔ آدمی بھی عجیب ہے، بالکل عجیب!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved