تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     26-04-2016

کتاب‘ کہانی‘ اماں ممتازی اور ماں جی

کتاب کلچر کو ہم نے مل جل کر قتل کیا۔ والدین‘ اساتذہ‘ پبلشر اور خود صاحب کتاب نے‘ رہی سہی کسر اجتماعی معاشرتی انحطاط نے نکال دی۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میری والدہ مرحومہ یعنی ماں جی مجھے روز رات سونے سے پہلے کہانی سناتی تھیں۔ ماں جی گورنمنٹ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے خواتین میں پرنسپل تھیں۔ اباجی ایمرسن کالج میں لائبریرین تھے۔ ماں جی دوپہر کو واپس آتیں۔ پیچھے اماں رمضان بی بی نے سالن پکا رکھا ہوتا تھا۔ گرم گرم روٹیاں ہمارے واپس آنے پر پکتیں۔ ہم سب اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ تب سردیوں میں کھانا باورچی خانے میں کھایا جاتا تھا اور گرمیوں میں بڑے کمرے میں‘ جسے ہم سب ہال کمرہ کہتے تھے۔ ماں جی واپس آ کر سارے گھر کے معاملات دیکھتیں۔ دھلے کپڑے باہر تار سے اتارے جاتے اور ترتیب وار ہم چاروں بہن بھائیوں کے ٹرنکوں میں رکھ دیے جاتے۔ گھر میں واحد ہینگر الماری اباجی کی تھی۔ لکڑی کی بنی ہوئی جس کے باہر والے ایک پٹ پر شیشہ لگا ہوا تھا۔ ہم سارے بہن بھائی اپنا آخری جائزہ عموماً اسی شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر لیتے تھے۔ یہ الماری اب میرے بھتیجوں کے پاس ہے۔ ان کے لیے یہ محض ایک الماری ہے لیکن میرا بہت کچھ اس سے جڑا ہوا ہے۔ کئی بار دل چاہا کہ اسے اٹھا کر گھر لے آئوں مگر پھر رک گیا۔ اب بھلا اس کے نیچے والے خانے میں وہ ٹوکری کہاں سے لائوں گا، جس میں میں نے اپنا دھات سے بنا ہوا ببر شیر رکھا ہوتا تھا۔ اللہ جانے میں نے اپنا کراچی سے خریدا ہوا وہ شیر اس الماری میں کیوں رکھا تھا؟ وہ شیر عشروں اس الماری میں رہا۔ آخری بار دس بارہ سال پہلے نکال کر دیکھا تھا۔ پھر نجانے کہاں چلا گیا۔ اس کے بعد میری اس الماری سے دلچسپی تقریباً ختم ہو گئی۔
رات ماں جی سونے سے پہلے کہانی سناتی تھیں۔ ہاتھی والی‘ آدھے بھائی والی ‘ علی بابا چالیس چوروالی‘ کانے دیو والی اور اسی طرح کی اور کہانیاں۔ میں بالکل چھوٹا سا تھا جب سے کہانیاں سننے کا چسکا پڑا۔ تھوڑا بڑا ہوا تو اچانک احساس ہوا کہ ماں جی تو ہر دس پندرہ دن بعد پرانی کہانی سناتی ہیں ۔ یہی کوئی دس پندرہ کہانیاں ہیں جو سالوں سے سنائی جا رہی ہیں۔ درمیان میں اماں ممتازی آ جاتیں تو عید ہو جاتی وگرنہ وہی پرانی گھسی پٹی کہانیاں۔
اماں ممتازی ہماری پرانی ملازمہ تھی جسے اب ہمارے گھر میں بزرگ کا درجہ حاصل ہو چکا تھا۔ اماں ممتازی نے ادھیڑ عمری ہمارے ہاں گزاری۔ میں ابھی دو تین سال کا ہی ہونگا کہ اماں ممتازی کو اس کا بیٹا ڈیرہ غازی خاں لے گیا۔ بیٹے کا کہنا تھا کہ اب وہ اپنی ماں کو ہمارے گھر کام نہیں کرنے دے گا کہ وہ اب کمانے لگ گیا ہے۔ اماں بھی بیٹے کے پاس چلی گئی کہ وہ اپنے پوتے پوتیوں کو کھلانا چاہتی تھی۔ اماں چلی تو گئی مگر اس کا دل ادھر ہی اٹکا رہا۔ دو چار مہینے بعد ہفتے دس دن کے لیے آ جاتی۔ ہم اماں ممتازی کے آنے پر اتنے خوش ہوتے کہ اس کو بیان کرنا الفاظ میں ناممکن ہے۔ اماں اس دوران ماں جی سے اپنی بہو کی شکایتیں کرتیں اور کہتیں کہ ان کو بیٹے نے واپس اس لیے بلایا ہے کہ وہ ان کے بچوں کو سنبھالے۔ بہو آرام کرتی ہے اور گھر کا سارا کام‘ روٹی ہانڈی اور رات بچوں کے ساتھ جاگنا۔ یہ سب اماں ممتازی کے ذمے ہے۔ جہاں ایک طرف اماں ممتازی کا ہمارے ہاں آنا ہمارے لیے عید ہوتی تھی وہیں اماں ممتازی بھی ہمارے پاس آرام کرنے آتی تھیں۔ میری دونوں بہنوں کی ڈیوٹی تھی کہ وہ روزانہ رات کو اماں ممتازی کی ٹانگیں دباتی تھیں۔ اباجی کا کہنا تھا کہ اماں نے بچپن میں تمہارا بڑا خیال رکھا ہے اب بڑھاپے میں اس کی خدمت کرنا آپ لوگوں کا فرض ہے۔ اماں کو روٹی ٹرے میں لگا کر دی جاتی تھی۔
اماں ممتازی اتنی سگھڑ‘سلیقہ مند اور ہنر مند تھیں کہ خدا کی پناہ۔ لیکن ان کی اصل خوبی قصہ گوئی تھی۔ میں آج بھی یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں اشفاق احمد صاحب کے بعد اماں ممتازی سے بڑھ کرکوئی قصہ گو نہیں دیکھا۔ اماں ممتازی ہمارے پاس آتیں تو پرانے اخبارات کو پانی میں بھگو کر ان کا ملیدہ سا بناتیں اور اس کا گاچنی مٹی ملا کر مضبوط اور ہلکا سا میٹریل تیار کرتیں۔ اس سے نمائشی برتن بناتیں۔ ہٹ نما مکان بناتیں۔ میری بہنوں کے سکول کے لیے چیزیں بناتیں مگر اصل مزہ کہانی سننے میں آتا۔
اماں ممتازی سال میں ایک آدھ بار اپنے بیٹے سے باقاعدہ ناراض ہو کر اور بہو سے لڑ کر آتی تھیں۔ تب وہ ایک ڈیڑھ ماہ تک ہمارے گھر رہتی تھیں تاوقتیکہ ان کا بیٹا انہیں لینے آ جاتا۔ اس دوران ہم اماں کو بڑا سمجھاتے کہ وہ اب واپس نہ جائے(ہماری لالچ کہانیوں کے باعث تھی) اماں بھی ہم سے وعدے و عید کرتیں مگر بیٹے کے آتے ہی سارے وعدے بھول کر اس کے ساتھ چل پڑتیں۔ وہ ماں جی کو کہتیں کہ اب کمبخت ماری بہو کے باعث پوتوں پوتیوں کو تو نہیں چھوڑ سکتی۔ بیٹے کے آتے ہی سب کچھ بھول بھال کر اماں ممتازی اپنا سامان اٹھاتیں۔ اس دوران انہیں نئے کپڑے بنوا کر دیے جاتے تھے وہ بھی ساتھ لے کر لدی پھندی اماں واپس ڈیرہ غازی خان چلی جاتیں۔ ہم کئی روز اداس رہتے اور پھر دوبارہ معمولات زندگی میں مست ہو جاتے۔
اماں ممتازی سے بڑھ کر کہانی سنانے والا پھر دوبارہ کبھی دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ سردیوں میں ہال کمرے میں اور گرمیوں میں اوپر صحن میں۔ تاہم اصل مزہ سردیوں میں آتا تھا۔ ہال کمرے میں پتھر والے کوئلے کی بڑی سی انگیٹھی گرم کی جاتی۔ کھڑکی کے پاس والی بڑی چارپائی پر(جسے ہم بڑا پلنگ کہتے تھے) تایا جی‘ اباجی‘ چچا رئوف اور دو چار چھوٹے چھوٹے بچے جن میں تب میں بھی شامل تھا رضائیاں لے کر بیٹھ جاتے۔ اماں ممتازی کے لیے کمرے کے کونے میں ایک چارپائی رکھوائی جاتی وہ اس پر بیٹھ جاتیں۔ میری دونوں بہنیں ان کی ٹانگیں دبانا شروع کر دیتیں اور اماں کہانی شروع کر دیتیں۔ اماں کے ہمارے گھر آتے ہی کہانی کا پلان بننا شروع ہو جاتا۔ جس روز کہانی شروع ہونی ہوتی۔ تایا جی‘ تائی جی‘ چچا‘ چچی اور ان کے بچے‘ سب لوگ رات کا کھانا کھا کر ہمارے گھر آ جاتے۔ کہانی دو تین گھنٹے جاری رہتی۔ بچے اور عورتیں انگیٹھی کے اردگرد بچھی دری پر بچھے ہوئے روئی کے گدوں پر بیٹھ جاتے اور پائوں رضائیوں میں ڈال لیتے۔ اس دوران مونگ پھلی چلتی۔ چائے کا وقفہ ہوتا کہ دوران کہانی کوئی شخص چائے بنانے کے لیے باورچی خانے میں جانے پر تیار ہی نہیں ہوتا تھا۔ عموماً ایک کہانی دو تین راتیں چلتی۔ کہانی کے شروع میں اماں ممتازی ہمیشہ یہی جملہ کہتیں ایک تھا بادشاہ‘ ہمارا تمہارا ''خدا بادشاہ‘‘ اور پھر اگلی دو تین راتیں کہانی میں گزر جاتیں۔
کہانی کیا ہوتی؟ وہی پرانے موضوعات۔ بادشاہ ‘ ملکہ ‘ شہزادے شہزادیاں ‘ جن‘ بھوت اور پریاں‘ کوہ قاف اور ملک فارس ‘ بہادر شہزادہ اور بدمعاش دیو۔ لیکن اماں ممتازی اس طرح سناتیں کہ سب گوش بر آواز رہتے۔ خاموشی ایسی کہ صرف اماں ممتازی کی آواز اور بس۔ اماں جنوں کی باتیں کرتیں تو لہجہ اور ہوتا۔ دیو مخاطب کرتا تو آواز میں عجب رعب طاری کر لیتیں۔ شہزادی یا ملکہ گفتگو کرتی تو محبت اور نرمی آواز سے ٹپکتی۔ بادشاہ تحکمانہ لہجے میں بولتا۔ توتے کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور بادل کا گرجنا۔ گھوڑوں کی ٹاپیں اور ہنہنانا۔ غرض ہرچیز کا الگ صوتی effect۔اماں چلی جاتیں تو ماں جی کی سنائی جانے والی کہانیاں باقاعدہ بدمزہ لگتیں۔ اوپر سے پرانی در پرانی کہانیاں۔
ماں جی سے تقاضا شروع ہوا کہ اب نئی کہانی سنائی جائے۔ بھلا نئی کہانی کہاں سے آتی؟ ماں جی نے تعلیم و تربیت اور بچوں کی دنیا سے پڑھ کر سنانی شروع کر دیں۔ دس منٹ میں کہانی ختم اور پیسہ ہضم۔ میں ماں جی کو کہتا کہ وہ اگلی کہانی سنائیں۔ ماں جی بھی سمجھ دار تھیں انہیں پتہ تھا کہ اگر ساری کہانیاں ایک ہی دن سنا دیں تو پورا مہینہ کیا کریں گی؟ اگلا رسالہ تو ایک ماہ بعد آئے گا۔ سو اب ایک اور مسئلہ شروع ہو گیا۔ پہلی والی کہانیاں تھوڑی لمبی ہوتی تھیں اور اب والی اور بھی چھوٹی۔ ہمیں اماں ممتازی والی دو تین گھنٹے روزانہ والی تین اقساط پر مشتمل طویل کہانیوں کی عادت پڑ چکی تھی۔ لہٰذا ہم نے کوشش شروع کر دی کہ اب سننے کی محتاجی سے جان چھوٹے اور ہم خود سے کہانی پڑھ سکیں۔ بس یہیں سے حرف شناسی کی کوشش شروع ہوئی اور چار پانچ سال کی عمر میں ہی ہجے کر کے اردو پڑھنے کا مرحلہ طے کر لیا۔ کہانیوں کے چسکے نے کتاب پڑھنے کا مرحلہ آسان کر دیا اور کتاب سے دوستی اس عمر میں قائم ہوئی جس عمر میں کھلونوں کے علاوہ کسی اور شے سے دلچسپی کا تصور ہی نہیں ہوتا۔ کتاب سے دوستی کروانے کا سارا سہرہ اماں ممتازی اور ماں جی کے سر جاتا ہے۔
ہم نے بچپن میں اپنے گھر میں جو چیزیں پہلے پہل دیکھیں کتاب ان میں سے ایک چیز تھی۔ لیکن اس تک پہنچانے کا سارا کریڈٹ کہانی کو جاتا ہے۔ اس کہانی کو جو اماں ممتازی نے سنائی اور ماں جی نے سنائی۔ اب عالم یہ ہے کہ میرے گھر میں اگر کوئی چیز سب سے کثرت میں ہے تو وہ کتابیں ہیں۔ ایک باقاعدہ لائبریری ہے جو میرے بچپن کا خواب تھی۔ اب لائبریری تو ہے مگر میرے پاس اماں ممتازی نہیں جو میرے بچوں کو کتاب سے اس طرح باندھ سکتی جیسے اس نے مجھے باندھا تھا۔ میری اہلیہ نے میرے بچوں کو کہانیاں سنائی ہیں۔ لے دے کر چار میں سے دو بچوں کو کتاب سے دلچسپی ہے۔ ایک روز اس تناسب پر بڑا ملال ہوا مگر پھر دل کو تسلی دی کہ ہم چار بہن بھائیوں میں بھی کتاب سے محبت کا یہی تناسب تھا۔ یہ تناسب برا نہیں مگر آگے کی صورتحال کچھ بہتر نظر نہیں آ رہی۔ کتاب‘ کہانی‘ اماں ممتازی اور ماں جی یہ سب ایک دوسرے سے جڑی ہوئی چیزیں تھیں۔ جب سے علیحدہ علیحہ ہوئی ہیں اپنی اپنی جگہ پر موجود تو ہیں مگر نظر نہیں آتیں۔ کہ کتاب سے محبت کا آغاز گھر سے ہوتا ہے۔ کہانی سے شروع ہوتا ہے اور ماں سے شروع ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved