جناب پرویز رشید کی زبانی ، گزشتہ تین دہائیوں میں شریف فیملی کے ''احتساب‘‘کی کہانی میں خاندان کے بزرگ میاں محمد شریف (مرحوم ) کے ذکر پر ، ہمیں کیا کیایا د آیا !محترمہ کی دوسری وزارتِ عظمیٰ کا یہ دوسرا مہینہ تھا ، نومبر اور اُس کی 13تاریخ ۔ تب لاہور میں موسمِ سرما اتنا مختصر نہیں ہوتا تھا ۔ خنک شام ڈھل رہی تھی جب پنجاب اسمبلی کی پریس گیلری میں خبر پہنچی ، ایمپریس روڈ پر ، شملہ پہاڑی کے قریب ، ریڈیو پاکستان کے پہلو میں ''اتفاق‘‘کے دفاتر کے محاصرے کی خبر ۔ دیگر اخبار نویس ساتھیوں کے ساتھ ہم بھی بھاگم بھاگ وہاں پہنچے لیکن تب تک کارروائی مکمل ہو چکی تھی ۔ وہ بڑے میاں صاحب کو گرفتار کرنے آئے تھے ۔ گارڈز کو دھکے دیتے ، دروازوں کو ٹھوکریں مارتے ہوئے ، وہ چیئرمین صاحب کے دفتر میں درآئے اور اُنہیں ساتھ چلنے کا حکم دیا ۔ مردِ بزرگ نے وارنٹ دکھانے کا مطالبہ کیا تو جواب ملا ، اس کی ضرورت نہیں ۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ آگے بڑھے ، انہیں میز کی دوسری جانب سے باہر گھسیٹا اور ٹرک میںڈال کر لے گئے ۔ چپّل کا ایک پائوں وہیں رہ گیا تھا ۔ اخبار نویس یہیں تھے کہ میاں نواز شریف بھی ماڈل ٹائون سے یہاں پہنچ گئے ۔ ماحول بتا رہا تھا کہ ابّا جی کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا ہو گا ۔
خاندان کے سبھی چھوٹے بڑے ابّا جی کے ساتھ بے پناہ محبت اور احترام کرتے تھے لیکن بڑے صاحبزادے کا معاملہ کچھ زیادہ ہی تھا ۔ ابّا جی کے ساتھ اس توہین آمیز سلوک کا تصور اس کے لئے زندگی کا بدترین لمحہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے جذبات کو چھپانے ، اپنے احساسات پر قابو پانے کی غیر معمولی صلاحیت سے بھی نوازا ہے ۔ وہ جو پنجابی کے شاعرنے کہا تھا ، دل دریا سمندروںڈوہنگے ، کون دلاں دیا ں جانے ہُو۔ اذیت کے بدترین لمحے میں بھی چہرے پر ایک لہر سی آتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ باقی جو کچھ گزرتی ہے ، دل پر گزرتی ہے ۔
13نومبر کی اس سرد شام بھی انہوں نے اپنے احساسات کو اندر ہی اندر منجمدکر لیا تھا ۔ ہمارے ایک سینئر ساتھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ، دیکھا یہ لوگ کس حد تک چلے گئے ہیں ۔
ایمپریس روڈ سے زیرِحراست ملزم کو وہ سیدھا ائیرپورٹ لے گئے جہاں ایک خصوصی طیارہ انہیں اسلا م آباد لے جانے کے لیے تیار تھا۔یہ رحمن ملک کی ایف آئی اے کے جاں باز تھے جنہوں نے بڑی سرعت کے ساتھ یہ آپریشن مکمل کر لیا تھا ۔ وہ جاتے ہوئے بہت سا ریکارڈ بھی ساتھ لے گئے تھے ۔ وزیرِاعلیٰ وٹو صوبائی حکومت کی لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اسے وفاقی حکومت کا کیا دھراقرار دے رہے تھے ۔ قائدحزبِ اختلاف نواز شریف کا کہنا تھا ، میرے سارے خاندان کو گرفتار کر لیا جائے پھر بھی جمہوریت کے مشن پر قائم رہوں گا اور جھوٹے مقدمات کا مقابلہ کروں گا ۔ ہائی کورٹ نے بزرگ صنعت کار کی غیر قانونی حراست کے خلاف رِٹ کو سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے کو ریکارڈ سمیت طلب کر لیا تھا۔ اس دوران پارلیمنٹ کے اجلا س سے صدر لغاری کے خطاب کے موقع پر بدترین ہنگامہ اور لاہور سمیت مختلف شہروں میں سیاسی کارکنوں، تاجروں اور صنعت کاروں کا احتجاج، ایک الگ کہانی تھی ۔ بالآخر ''عقلِ سلیم ‘‘بروئے کار آئی اور حکومت نے ڈاکٹروں کے مشورے پر 16نومبر کوانہیں ''پیرول‘‘پر رہا کر کے اسلام آباد سے لاہور پہنچا دیا۔ پنجاب اسمبلی میں قائدحزبِ اختلاف میاں شہباز شریف علاج کے لیے بیرون ملک تھے ۔ ان کے چھوٹے بھائی عباس شریف اور صاحبزادے حمزہ شہباز کو گرفتار کر کے اڈیالہ جیل میں ڈال دیا گیا ۔ تب حمزہ بی اے کا طالب علم تھا ۔ کہا جاتا ہے ، وزیراعظم صاحبہ سے حمزہ کی نَوعمری کی بات ہوئی تو انہوں نے پوچھا ، اس کی عمر کیا ہے ؟ بتایا گیا ، 18سال سے زیادہ ہے...پھر تو اسے کوڑے بھی مارے جا سکتے ہیں ، خاتون وزیراعظم لائٹ موڈ میں تھیں ۔
احتساب کی تاریخ میں یہ منفرد مثال تھی کہ قائدحزبِ اختلاف کے خاندان کے سبھی افراد کے خلاف مقدمات درج تھے ۔ ان کی والدہ ماجدہ ، بیگم صاحبہ ، بھاوجیں ، بیٹے ،بیٹیاں اور داماد ۔ صرف 2سالہ مہرالنساء تھی جس کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں تھا (مریم کی بڑی صاحبزادی ، اب ماشااللہ اپنے گھر والی ہو چکی ) ۔ یہ تو خونی رشتہ دار تھے ۔ ان کے علاوہ اتفاق گروپ کے جنرل مینیجر ہارون پاشا اور محمد اکرم بھی 36روز کوٹ لکھپت جیل میں رہے ۔ پرسنل سیکرٹری خیام قیصر سمیت پرسنل سٹاف کے ارکان ، باڈی گارڈز ، فارم مینیجر اور بہت سے ملازمین بھی مختلف مقدمات میں مطلوب تھے ۔ وطن واپسی پر شہباز شریف کو بھی ائیرپورٹ سے گرفتار کر کے اڈیالہ جیل پہنچا دیا گیا جہاں گجرات کے چودھری برادران بھی ان کے''خیر مقدم‘‘کے لیے موجود تھے ۔ یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ سیاسی ابتلا کی اس کربلا میں گجرات کے چودھری بھی اپنے لیڈرکے ساتھ ثابت قدم رہے تھے ....مشرف دور کی کہانی دوسری ہے ۔
اوراب 12اکتوبر (1999ء)کی بدقسمت شام کی کہانی ، بیگم کلثوم نواز کی زبانی :ہمارے ہاں رات کا کھانا جلد کھا لیا جاتا ہے ۔ اس شام بھی ہم رائے ونڈ والے گھر میں کھانے کی میز پر تھے ، مریم ، اسما ء، سائرہ ( بیگم حسین نواز )اور ابّا جی ....ہم اوپر والی منزل میں تھے ، اچانک نیچے شور سا سنائی دیا۔ کچھ باوردی لوگ ریلنگ پھلانگ کر اندر داخل ہو رہے تھے ۔ کسی نے ٹھوکر مار کر گھر کا دروازہ کھولا اور ایک باوردی میجر نے کمرے میں آ کر کہا ، کوئی اپنی جگہ سے حرکت نہ کرے۔اس کے ساتھ ہی دیگر دروازوں پر ٹھوکریں پڑنے کی آوازیں سنائی دیں۔ ملازمین کے ساتھ مار پیٹ بھی کی گئی ۔
2باوردی افراد ابّا جی کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے ہمراہ لے گئے ۔ ان کے گھٹنے میں تکلیف تھی اور وہ چلتے ہوئے درد محسوس کر رہے تھے ۔
شامی صاحب راوی ہیں، جاتی عمرہ کے گردسکیورٹی حصارقدرے نرم ہوا تو ایک دن وہ بڑے میاں صاحب سے ملنے پہنچ گئے ۔وہ بڑے حوصلے میں تھے۔ ان کا کہنا تھا ، اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے تو امتحان بھی لیتا ہے ۔ نعمتیں جتنی زیادہ ہوتی ہیں ،آزمائشیں بھی اسی حساب سے آتی ہیں ۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں سرخروکرے ۔
اور جدّہ میں جلا وطنی کی ایک شام ہمارے استفسار پر میاں نواز شریف پہلی قیدوبند کی کہانی سنا رہے تھے ، 12اکتوبر کے بعد قیدِ تنہائی کی کہانی ، جس میں کال کوٹھڑی سے باہر کسی سے کوئی رابطہ نہ تھا۔ دروازہ کھلتا اور کھانا لانے والا اسے دروازے کے ساتھ رکھ کر رخصت ہو جاتا۔ایک روز ایک میجر صاحب موبائل فون کے ساتھ آئے ، یہ آپ کے لیے کال ہے ۔ یہ بیرونی دنیا سے ان کا پہلا رابطہ تھا ۔ ادھر ابّا جی تھے ، نواز !گھبرانا نہیں ، ہم مقابلہ کریں گے ۔ اور اس کے ساتھ ہی کال ختم ہو گئی ۔ قیدِ تنہائی میں معزول وزیراعظم کو سب سے زیا دہ فکر ابّا جی اور والدہ محترمہ کی تھی ۔ اب ابّا جی کی عزم وحوصلے سے لبریز آواز نے انہیں نئی توانائی بخش دی تھی جیسے گلوکوز کی بوتل لگ گئی ہو ۔ فیض یاد آئے ،
آج یوں موج درموج غم تھم گیا
آج یوں غمزدوں کو قرار آگیا
جیسے خوشبوئے زلفِ بہار آگئی
جیسے پیغامِ دیدارِ یار آگیا