تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     26-04-2016

مصیبت کیوں آتی ہے ؟

لوگ اسے مختلف ناموں سے پکارتے تھے۔ مثلاً ''دعا والی سرکار‘‘،کوئی اسے '' اللہ کا بندہ‘‘ کہتا۔ یہ کہاجاتا تھا کہ اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ اسی لیے میں اس کے پاس آیا تھا لیکن جب میں نے اسے اڑھائی کروڑ روپے مالیت کی کار سے اترتے دیکھاتو ارادہ ترک کر دیا ۔پہلوانوں کا سا ڈیل ڈول، بڑی بڑی مونچھیں ، جنہیں وہ تائو دے رہا تھا ۔ کلف لگے کپڑے اور سگریٹ کے وہ کش پہ کش لگا رہا تھا۔ ''یہ ہے اللہ کا بندہ؟‘‘ مایوسی سے میںنے سوچا اور واپس جانے کے لیے مڑا۔ اس پر اس نے یہ کہا'' تمہارا قرض اتر جائے گا‘‘ میں ہکا بکا رہ گیا،کس نے اسے بتایا کہ میرا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے۔ 
وہ قہقہہ لگا کر ہنسااور اس نے مجھے اپنی کہانی سنائی ۔ اس نے یہ کہا کہ اپنی ساری زندگی اس نے شدید غربت میں گزاری ۔ ایسی غربت کہ کوئی باپ اپنی بیٹی اس سے بیاہنے کو تیار نہ تھا۔ لوگوں کو وہ خوش خرم ، اپنی زندگی سے لطف اندوز ہوتے دیکھتا تو رو پڑتا۔وہ حیران پریشان بیٹھا رہتا کہ خدا اس کے ساتھ ہی ایسا کیوں کر رہا ہے ۔ ''پھر میں نے تحقیق شروع کی ‘‘ اس نے کہا کہ ہمیشہ سے وہ بہت متجسس ذہن کا مالک تھا ۔ اب وہ اس بات پر تحقیق کرنے لگا کہ خدا ہے بھی کہ نہیں ۔ اگر واقعی انسانوں کا ایک رب ہے تو دنیا میں اس قدر نا انصافی ، ایسا ظلم، ایسی شدید غربت اور بیماری کیوں ہے ؟ 
اپنی تحقیق اس نے ایمانداری سے کی۔اس نے دیکھا کہ کرّ ہ ء ارض کے علاوہ ساری زمینیں زندگی کی حفاظت کرنے والے لوازمات سے محروم تھیں ۔ اس نے دیکھا کہ انسان کے علاوہ پچاس لاکھ دیگر مخلوقات عقل سے محروم تھیں ۔ عقل کے ساتھ جوابدہی ہوتی ہے ، وہ اس نتیجے پر پہنچا۔ ایک بار جب وہ خدا کے وجود پر یقین کی منزل تک پہنچا ، جب اسے عقل کی اہمیت کا ادراک ہوا تو اس کا دماغ ترکیب سوچنے لگا۔ کوئی ایسا طریقہ ، جس سے میں اپنے حصے کی دولت خدا سے وصول کر لوں ۔ وہ سوچتا رہا ، سوچتا رہا۔
'' آخر میں نے خدا سے یہ کہا‘‘ اس نے ہنس کر بتایا '' پیدا کیا ہے تو رزق بھی دے ۔ جہاں سے مرضی دے ۔ میں نے تجھ سے یہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ مجھے اس زمین پہ پیدا کر۔ اب تو مجھے رزق دے، جہاں سے مرضی دے ‘‘ وہ بچّے کی طرح ضد کرنے لگا۔ روٹھنے بگڑنے لگا۔ اس کے باپ کا تایا زاد قرب المر گ تھا ۔ اس سے اس کی کبھی نہ بنی تھی ۔ ہمیشہ وہ فاصلے پر رہے ۔ وہ مرا تو معلوم ہوا کہ آخری وقت میں اپنی ساری جائیداد وہ اس کے نام کر گیا ہے ۔ '' میں دولت مند ہو گیااور مجھے اس کا یقین نہیں آتا تھا ۔ ہفتوں اور مہینوں میں بے یقینی کے عالم میں پھرتا رہا۔آخرمیں زندگی سے لطف اندوز ہونے لگا ‘‘
''ایک روز میرے پیٹ میں ایک ابھار سا بننے لگا۔ کچھ ہفتوں میں وہ رسولی کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ کوئی معمولی رسولی نہیں ، کینسر تھا۔ بھاگم بھاگ میں ہسپتالوں کے چکر لگانے لگا۔ ایک رسولی ختم ہوتی تو دوسری جگہ سے کینسر پھوٹنے لگتا۔ علاج کراتے کراتے میں تھک گیا۔ میں زندگی سے مایوس ہو گیا ۔ یہاں ایک بار پھر مجھے بھولا ہوا خدا یا دآنے لگا۔ میں اس کی طرف پلٹا۔ اس سے میں نے یہ کہا '' پیدا کیا ہے تو صحت بھی دے ‘‘ ایک بار پھر وہ روٹھنے بگڑنے لگااور یا للعجب ، دیکھتے ہی دیکھتے وہ روبہ صحت ہو گیا۔
اب اس کے اہلِ خاندان ، دوستوں اور محلے داروں پہ انکشاف ہوا کہ اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔ دراصل اسے خدا پہ گہرا یقین آ گیا تھا۔ اس نے اپنی عقل سے اس دنیا کا جائزہ لیا تھا۔ خدا کی نشانیاں کائنات میں بکھری پڑی تھیں اور انہیں دیکھنے کے بعد وہ یقین کی منزل تک پہنچا تھا۔ یقین کے بعد بس مانگ لینے کا مرحلہ تھا اور مانگتا وہ لڑ جھگڑ اور لاڈ پیار سے تھا، جیسے کوئی اولاد اپنے باپ سے ضد کرتی ہے ۔ 
اب وہ ایک پرسکون شادی شدہ زندگی گزار رہا تھا۔ ایمان، دولت اور صحت ، اب اور بھلا کس چیز کی وہ خواہش کرتا۔ اس اثنا میں اس کی پہلی اولاد، ایک نہایت خوبصورت گورے چٹے بیٹے نے جنم لیالیکن اس وقت اس کی ساری خوشی دھری کی دھری رہ گئی ، جب ڈاکٹرنے بتایا کہ بچّہ ذہنی طور پر معذور ہے ۔ 
''تم میری مایوسی کا اندازہ لگا سکتے ہو ‘‘ ۔ اس نے کہا'' میرے دل و دماغ میں اپنے بیٹے کی ایسی شدید محبت بیدار ہو چکی تھی کہ میں اپنی ساری دولت اور صحت سے محروم ہونے پر آمادہ تھا ۔ اگر مجھے باندھ کر جنگلی شیر کے سامنے ڈال دیاجاتا اور اس کے عوض میرے بیٹے کو صحت نصیب ہو جاتی تو میں اس کے لیے تیار تھا۔ ‘‘
اب ایک نئے سرے سے اس نے تحقیق کا آغاز کیا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ خدا اس کے ساتھ ایسا کیوں کر رہا تھا۔ لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ وہ دعا مانگے ، اس کا بیٹا یقینا تندرست ہو جائے گالیکن اندر ہی اندر اسے معلوم تھا کہ بچّے کے تندرست ہو جانے کے کچھ عرصہ بعد کوئی اس سے بھی بڑی مصیبت اس کی راہ تکتی ہوگی ۔ خدا نے اسے علم سے نوازا تھا اور وہ پوری ایمانداری کے ساتھ تحقیق میں مصرو ف تھا اور اس بار نتائج انتہائی حیران کن تھے۔ 
''دراصل یہاں اس زمین پہ جو وقت ہم گزار رہے ہیں ، اپنی پیدائش سے لے کر قبر میں اترنے تک، وہ آزمائش کا وقت ہے ۔ یہاں اس دنیا میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ، جسے اس آزمائش سے نجات حاصل ہو۔ ایک موچی سے لے کر وزیرِ اعظم اور سپہ سالار تک ، ہر ایک کو آزمائش سے گزرنا ہوگا اور زندگی بھر گزرنا ہوگا۔ اس آزمائش کی شدّت کتنی ہوگی، یہ خدا نے بتادیا ہے ۔ وہ یہ کہتا ہے کہ ''اللہ کسی جان پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا‘‘ ۔ جتنی کسی میں استطاعت ہوگی، اگر وہ عقل اور خدا سے تعلق پر قائم رہے گا تو وہ اپنی آزمائش سے سلامت گزرے گا۔ جس کی ہمت زیادہ ہوگی ،وہ پچاس سال بیمار رہ کر موت کے گھاٹ اتر جائے گا۔ جس کی ہمت کم ہوگی، اس پہ چھوٹی چھوٹی مصیبتیں آتی رہیں گی ۔ یہ ہمارا امتحان ہے ، ہمارا ٹیسٹ ہے ۔ کسی کو اس سے خلاصی نہیں؛البتہ دعا کی آزادی ہے ۔ ہم خدا سے مانگ سکتے ہیں لیکن اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ وہ آزمائش کے بغیر ہی اٹھا لیا جائے گا تو یہ اس کی بھول ہے ‘‘ ۔ یہ کہہ کر وہ اپنے ذہنی معذور بیٹے کو چومنے لگا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved