تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     27-04-2016

مزید حماقتوں کی اب گنجائش نہیں

عمر فاروقِ اعظمؓ جینئس تھے۔ سیاسی ، عسکری ، انتظامی اور علمی بھی۔ فرمایا ''لوگوں کو اپنے حکمرانوں سے نفرت ہوتی ہے ‘‘۔ تاریخ کہتی ہے کہ گاہے یہ نفرت انتقام میں ڈھل جاتی ہے ۔ پھر طوفان اٹھتے ہیں ۔ 
معاملہ بگڑگیا ۔ تلخی اسی طرح بڑھتی رہی تو فوج فیصلہ کن ہو جائے گی ۔ اللہ کرے ، میرا اندازہ غلط ہو مگر قرائن یہی ہیں ۔ مارشل لا میں آرزوئے اقتدار شامل ہو سکتی ہے ۔ جنرل عبد الوحید کاکڑ اس سے بلند تھے۔ بتایا جاتاہے کہ امریکیوں نے انہیں اقتدار سنبھالنے کا اشارہ کیا مگر انہوں نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ غلام اسحٰق خان اور وزیرِ اعظم کی لڑائی ذاتی ہو گئی تو جنرل کو ثالث بنایا گیا۔ میاںصاحب نے کہا : مجھ سے دستبرداری کا تقاضا ہے مگر وہ خود منصب سے چمٹے ہوئے ہیں ۔ صدر نے اس جملے کو پکڑ لیا اور کہا : میں بھی الگ ہونے کو تیار ہوں ۔وزیرِ اعظم مستعفی ، وہ چھٹی پر چلے گئے ۔نئے انتخاب کا ڈول ڈالا گیا۔ بے نظیر وزیرِ اعظم بن گئیں ۔ جنرل کاکڑ غنی تھے۔ محترمہ نے توسیع کی پیشکش کی تو انکار کر دیا۔ اس تماشے سے ملک کو کیا حاصل ہوا تھا؟
فوجی اقتدار میں امن بحال ہو جاتاہے اور معیشت نمو پذیر ۔ لوٹ مار رک جاتی ہے مگر سات آٹھ برس کے بعد خلقِ خدا بیزار ہو جاتی ہے ۔ فوج کو سیاستدانوں کی ضرورت پڑتی ہے تو سستے عناصر ان کے کام آتے ہیں ۔ ساٹھ سال کی تاریخ یہی ہے ۔ قائدِ عوام فخرِ ایشیا ، ذوالفقار علی بھٹو فیلڈ مارشل ایوب خان کے ایوان سے ابھرے ۔ قائدِ اعظم ثانی میاں محمد نوا زشریف غازی محمد ضیاء الحق کے دربار سے ۔ چوہدری برادران روشن خیال جنرل پرویز مشرف کے سائے میں نمودار ہوئے ۔ چوہدری غلط تھے تو میاں صاحب اور بھٹو کو انقلابی کیسے مان لیا جائے ۔ وہ ایوب خان کو ایشیا کا ڈیگال اور صلاح الدین ایوبی کہتے رہے ؛تاآنکہ جنرل ناراض ہو گیا۔ پاکستان کو صنعت کاری اور محدود جمہوریت کی راہ پر چلانے والا حکمران اب زوال پذیر تھا؛ اقوامِ متحدہ میں بھارت کو للکارنے والا بھٹو امید کی کرن بن کے پھوٹا ۔
افراد ہوں یا جماعتیں ، جہاں کہیں اختلاف ہو ، ازالے کا نظام ہونا چاہیے ۔ شکایت کا اندمال نہ ہو تو وہ زخم بنتی ہے ۔ جس طرح گلے کی خرابی پھیپھڑوں کو آخر کار جکڑ لیا کرتی ہے ۔ شکایت غیبت میں ڈھلتی اور مبالغہ کرتی ہے ۔ نفرت بڑھتی جاتی ہے تو بغض و عناد ہو جاتی ہے ۔ آخر کو جتھے داری ۔پھر وہ ایک د وسرے کی بتاہی کے درپے ہوتے ہیں ۔ یہ اجتماعی ہسٹیریا ہوتاہے ۔ گاہے گروہ کے گروہ جذبات سے مغلوب ہو جاتے ہیں ۔ بلوچستان ایک مثال ہے اور کراچی دوسری ۔کبھی دیہی سندھ اور پختون خوا بھی مبتلا ہوئے تھے۔ فیصلہ پھر طاقت کے ساتھ ہوتاہے ۔ سیاسی جماعتیں اخلاقی طور پر خود کو تباہ کر لیتی ، حکومت نا مقبول و بے وقار ہو جاتی ہے تو عسکری قیادت بروئے کار آتی ہے ۔ 
تفصیل نہیں بتا سکتا مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ جنرل حضرات مضطرب ہیں ۔ سیاچن، بھارتی اور افغان سرحد پر مدّت سے لڑائی جاری ہے ۔ وزیرستان ، بلوچستان اور کراچی میں فوجی جوان لہو میں نہاتے رہے ۔ دہشت گردی کے خلاف سندھ حکومت نے اپنا کردار ادا کیا اور نہ مرکز و پنجاب میں نون لیگ نے ۔ وہ طالبان سے مذاکرات پر تلی تھی ۔ اب پنجاب میں کارروائی ہے ۔ڈاکوئوں سے نمٹنا بھی اب فوج کی ذمہ داری ہے۔ بجا طور پر سول اداروں سے فوج کو بد عنوانی اور بے حسی کی شکایت ہے ۔ نیب میں احتساب ہے تو فوجی افسروں کے طفیل ۔ کراچی میں زندگی لوٹ آئی ہے تو رینجرز کی وجہ سے۔ قائم علی شاہ اور شہباز شریف کی پولیس مسائل پیدا کرتی ہے ، حل نہیں ۔ بتدریج بہتر بنائی جا سکتی تھی مگر پرواہ ہی نہیں ۔فقط شعبدہ بازی ہے ۔ اورنج ٹرین اور میٹرو ۔ ہر سال دس لاکھ آدمی آلودہ پانی سے مرتے ہیں ۔ مسئلہ تعلیم کا ہے ۔ اول تو بجٹ ہی کم ہے ، جو ہے وہ رائیگاں۔ اساتذہ کی تربیت ہی نہیں تو طلبہ کی کیا ہوگی۔ ہسپتال برباد ہو گئے ۔ ٹھیکیداری نظام اور سرکاری کارپوریشنوں کے طفیل ایک ہزار ارب روپے سالانہ ڈوبتے ہیں ۔ ٹیکس وصولی کی شرح ضیاء الحق کے دور میں16فیصد تھی ،اب 9فیصد ۔ برآمدات کم ہو گئیں ۔ آبادی بے تحاشا بڑھ رہی ہے ۔زمین بیروزگاروں کے لشکر اگل رہی ہے ۔ میاں صاحب خلق کو تجارتی راہداری سے مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مریض کا علاج نہیں ، اس کے لیے خوش نما گھر کا سپنا ہے ۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ اچھی حکمرانی کیا ہوتی ہے ۔ میاں صاحب ایک اور ہی آموختہ سناتے ہیں ۔ آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے ۔ وزیرِ اعظم ، وزیرِ خزانہ اور اپوزیشن لیڈر کی پیروی میں سرمایہ ملک سے فرار ہو رہا ہے ۔ جناب اسحٰق ڈار اقتصادی ترقی کا دعویٰ فرماتے ہیں ۔ آدمی کی ساری تاریخ یہی ہے ۔ ضمیر نہ جاگتا ہو تو حکمران اندھے ہو جایا کرتے ہیں ۔ روشنی باہر نہیں ، آدمی کے اندر ہوتی ہے ۔ ع
مکّے گیاں گل مکدی نہیں جے نہ آپ مکائیے 
اہم نکتہ یہی ہے ۔ سول اداروں کی تعمیر ۔ پولیس ، پٹوار، عدالت ، ایف بی آر، مارکیٹ کمیٹی ، سیکرٹریٹ ۔ قانون کی حدود میں سرکاری ملازم کو آزاد ہونا چاہیے ۔ کرپشن تو الگ، مہذب معاشرے میں حکمران کاروبار نہیں کر سکتے ۔ پاکستانی فوج کی ایک ساکھ ہے ۔ ہر چیلنج کا سامنا اس نے ولولے کے ساتھ کیا ۔ جنرل راحیل شریف اتنے مقبول ہیں کہ ریفرنڈم ہو تو اکثریت ان سے اقتدار سنبھالنے کی استدعا کرے مگر یہ تباہی کا نسخہ ہے ، بار بار آزمایا ہو ا ۔ کوئی ملک کبھی کسی فوج نے تعمیر نہیں کیا۔ زندہ اور بیدار اقوام کیا کرتی ہیں ، سول اداروں کے ذریعے ۔ دوسری عالمگیر جنگ میں چرچل نے یہی کہا تھا: برطانوی عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں تو ہم ظفر مند ہوں گے ۔ 
انصاف ہی استحکام کی بنیاد ہوتاہے ۔ تعلیم کا فروغ ، قانون کا نفاذ ، منصوبہ بندی ، رواداری اور ہر حال میں انصاف۔ شہباز شریف نے جنوبی پنجاب کے ساتھ کیا کیا ؟ اس کے ہسپتالوں ، سکولوں ، اور قبرستانوں تک کے فنڈز لاہور پر لٹا دئیے ۔ اہلِ علم اورکتاب کی صحبت سے محروم، دولت اور قتدار کی محبت میں مبتلا یہ لوگ اپنے حریفوں کی حماقت سے اقتدا رمیں ہیں۔ فرض کیجیے ، آئندہ الیکشن رسان سے ہو جائیں ۔ ممکن ہے ، وہ یہ بھی جیت لیں۔ مگر آخری نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ وہی جو بھٹو سمیت دوسروں کے ساتھ ہو ا۔ خدا کی بستی دکاں نہیں ہے ۔ کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِکم عیار ہوگا۔ ہر حکمران فریبِ نفس کا شکار ہوتاہے ۔ ہر حکمران برباد ۔ افسوس کہ عبرت کوئی نہیں پکڑتا۔ 
اپوزیشن کا حال بھی پتلا ہے ۔ بدعنوان اس میں بھی بہت ۔ دبائو برحق ، سیاست یہی ہوتی ہے مگر اتنی ہی آگ انہیں جلانی چاہیے ، جتنی بجھائی جا سکے ۔ الائو بے قابو ہوا تو وہ بھی بچیں گے نہیں ۔ حکمت بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔ شریف خاندان دبائو میں ہے ۔ ایک اچھی مہم کے ذریعے سب معقول مطالبات منوائے جاسکتے ہیں ۔عمران خان کو سندھ جانے اور ذاتی الزامات عائد کرنے کی ضرورت کیاہے ؟ ادھر شریف حکومت ہے ۔ تمام توپوں کا رخ اگر عمران خان کی طرف ہے تو وہی لیڈر بن کے ابھریں گے ۔ ابھی وقت ہے کہ حکومت او راپوزیشن ہوش کے ناخن لیں۔ آپس میں بات کریں اور کوئی حل نکالیں ۔ بہت سی تجاویز ہو سکتی ہیں ۔ ایک یہ ناچیز بھی پیش کرے گا کہ امن ہو اور استحکام آئے ۔ 
عمر فاروقِ اعظمؓ جینئس تھے۔ سیاسی ، عسکری ، انتظامی اور علمی بھی۔ فرمایا ''لوگوں کو اپنے حکمرانوں سے نفرت ہوتی ہے‘‘۔ تاریخ کہتی ہے کہ گاہے یہ نفرت انتقام میں ڈھل جاتی ہے ۔ پھر طوفان اٹھتے ہیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved