تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     27-04-2016

شاخِ گل میںجس طرح بادِ سحر گاہی کانم

خانۂ دل کے مکیں شتابی سے رخصت ہو رہے ہیں۔ اس آنگن میں کچھ ایسا ہجوم تو پہلے بھی نہیں تھا، اب مگر اس گھرکی ویرانی دیکھی نہیں جاتی۔
ممتاز ماموں کو الوداع کہے کتنے دن ہوئے تھے؟ یہی چوبیس دن کہ انصاری صاحب بھی چل دیے۔کیا آپ نے انصاری صاحب کو دیکھا ہے؟ وہی مولانا ظفر احمد انصاری کے صاحب زادے؟ اگر آپ نے انہیں دیکھا اور ان سے ملے ہیں تو پھر جان سکتے ہیں کہ یہ کیسا احساسِ زیاں ہے جس نے مجھے حصارمیں لے رکھا ہے۔ اگر نہیں ملے تو بس یوں جانیے کہ ہماری تہذیب ایک پیکرِ خاکی میں ڈھل گئی تھی۔ رفتار،گفتار،کردار۔۔۔۔ ہماری تہذیب ان کے قدموں سے چلتی،ان کی زبان سے بولتی اور ان کے وجود سے ظہور کرتی تھی۔ شبلی نے سرسید کو دیکھا تھا، میں نے ظفر اسحاق انصاری صاحب کو ؎
پیری سے کمر میں اک ذرا خم
توقیر کی صورتِ مجسم
اُن سے پہلی ملاقات کب ہوئی، اچھی طرح یاد نہیں۔ بیس بائیس برس تو ہوگئے ہوں گے۔ ہاں، یہ یاد ہے کہ ایک ہی ملاقات ہے جو مسلسل چلی آتی ہے۔ پسِ مرگ بھی۔ تو کیا وہ مر گئے؟ نہیں! موت کا ان سے کیا واسطہ؟ تہذیب بھی کبھی مرتی ہے؟ جی ہاں! تہذیب کبھی نہیں مرتی مگر اس کی زندگی مشروط ہے۔ تہذیب اسی وقت زندہ رہتی ہے جب روایت بن جاتی ہے۔ جب نسل نسل کی اور فرد فرد کی جگہ لے لے۔ اب انصاری صاحب کی جگہ کون لے گا؟ ان جیسا دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ ممتاز صاحب کو روتے تھے،اب انصاری صاحب کو روئیں گے۔اقبال کا مرثیہ یاد آتا ہے:
خاموش ہوگئے چمنستاںکے راز دار
سرمایۂ گداز تھی جن کی نوائے درد
شبلی کو رو رہے تھے ابھی اہلِ گلستاں
حالی بھی ہوگئے سوئے فردوس رہ نورد
حیاتِ مستعار کے کتنے برس ہیں جو ان کی صحبت میں گزرے۔ علم، تہذیب،آداب اور معارف،دانستہ اور نا دانستہ، نہیں معلوم کیا کچھ سیکھا۔ ایک احساسِ ندامت مگر مسلسل دامن گیر ہے۔ اللہ کی اتنی بڑی نعمت ہاتھ آئی اور میں محروم رہا۔ب سمندر سے چند قطرے ہی لے سکا۔ میں نے ان کی علمی راہنمائی میں دو تحقیقی منصوبوں کی تکمیل کی۔ حکومت نے انہیں تعلیم کی اسلامی تشکیل کے لیے قائم کمیشن کا چیئرمین بنایا تو مجھے اس کمیشن کا سیکرٹری بنا دیا۔ اس کا یہ فائدہ کم نہیں تھا کہ ہر روز ان کی صحبت میں بیٹھنے لگا۔ وہ ادارہ تحقیقات اسلامی کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ کمیشن کا منصب اضافی طور پر ان کے پاس تھا۔ اس کا دفتر بھی اسی ادارے میں بن گیا۔ ادارے کی وسیع لائبریری اور انصاری صاحب کی صحبت۔ اندھا کیا مانگے، دو آنکھیں۔ میری تو عید ہوگئی۔ میں ممتاز ماموں کے احسانات کو یاد کرتا ہوں۔ ان کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ انہوں نے مجھے انصاری صاحب سے ملوایا، ورنہ یہ صحبت کہاں نصیب میں تھی ؎
کہاں ہم اور کہاں یہ نکہتِ گل
نسیمِ صبح تیری مہربانی
میں مجلس گریز ہوں مگر اس کے باوصف، بہت سے معروف افراد سے ملنے کا موقع ملا۔ افتادِ طبع کے باعث اہلِ علم ہی سے نسبت رہی اور ان میں بھی زیادہ تر وہ جو دینیات سے متعلق تھے۔ دو جگہ علم اور تقویٰ کا ایسا امتزاج دیکھا جس پر رشک کرنے کو دل چاہا۔ ایک استاذِ گرامی جاوید احمد غامدی اوردوسرے ظفر اسحاق انصاری۔ یقیناً ایسے لوگ اور بھی ہوںگے کہ خدا کی زمین نیک اور صاحبانِ علم سے خالی نہیں ہوتی۔ میری شہادت تو میرے مشاہدے تک ہے۔ انصاری صاحب کے علم و فضل کا یہ عالم تھا کہ علومِ اسلامی پر عربی، انگریزی اور اردو کی شاید ہی کوئی کتاب ہو جو چَھپے اور ان کی نظروں سے چُھپی رہے۔ اپنے شوق سے فرنچ زبان میں بھی کسی حد تک مہارت پیدا کر لی تھی۔ اردو میں درک کا یہ عالم کہ مو لانا ماہر القادری جیسا زبان کا دھنی حیرت سے کہتا: ''یہ نوجوان تو کبھی زبان کی غلطی نہیں کرتا‘‘۔ انگریزی میںقدرتِ کلام ایسی کہ ڈاکٹر ممتازاحمد کہا کرتے: ''امریکہ میں بھی کم لوگ ہوں گے جو ان جیسی انگریزی لکھتے ہیں‘‘۔
ان کے علمی کارناموں میں ایک 'تفہیم القرآن‘ کا انگریزی ترجمہ ہے۔ اپنے ترجمے کے بارے میں خود مو لانا مودودی کا بیان ہے کہ یہ 
عربیٔ مبین کو اردوئیِ مبین میں ڈھالنا ہے۔ اس کا ترجمہ وہی کر سکتا ہے جو تین زبانوں کا ماہر ہی نہیں، مولانا مودودی کا اسلوب شناس اور اس تفسیر کے شانِ نزول سے بھی واقف ہو۔ میرا احساس ہے کہ یہ تمام خو بیاں صرف اور صرف انصاری صاحب میں تھیں۔ ترجمے کا ترجمہ شائع ہو چکا تھا۔ افسوس کہ تفسیر کا ترجمہ ادھورا رہ گیا۔ ان کا آخری علمی کارنامہ یونیسکو کے ایک بڑے علمی منصوبے'اساساتِ اسلام‘ (Foundations of Islam) کی تکمیل ہے۔ کئی عشرے پہلے انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے لیے امام ابوحنیفہؒ پر مضمون لکھا۔ فقہ ان کا تخصص تھا جس میں میکگل،کینیڈا سے پی ایچ ڈی کی سند لی تھی۔
میں نے انہیں ادارہ تحقیقاتِ اسلامی اور عالمی دارہ فکرِ اسلامی کی بہت سے کتب کی ایڈیٹنگ کرتے دیکھا۔ یہ واقعہ ہے کہ اس باب میں ان جیسی محنت کرنے والا اور خوش ذوق شاید ہی کوئی ہوگا۔ وہ ایک کتاب کے مسودے پر اتنی بار نظر ثانی کرتے کہ اصل متن نظروں سے اوجھل ہو جاتا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایک کتاب کے آٹھ آٹھ مسودے دیکھے ہیں۔ ان کی ایڈیٹنگ کے ساتھ چھپنے والی کتابوں پر مختلف مصنفین کے نام لکھے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مصنف کہلوانے کے حق دار تو انصاری صاحب ہی تھے۔ 
میں نے دنیاوی مناصب کو ان کے دروازے پر دست بستہ کھڑے دیکھا ہے۔ انصاری صاحب نے چپکے سے انہیں کسی اور پتے پر بھیج دیا۔ ان کے کہنے پر کوئی وزیر بنا کوئی مشیر، کوئی منصف بنا کوئی منصب دار۔ وہ خود تما م عمر ان عہدوں سے بے نیاز رہے، اپنے والد کی طرح۔ مو لانا ظفر احمد انصاری شاید اس ملک کے واحد عالم تھے، بھٹو صاحب جن کی دل سے قدر کرتے تھے اور جن کے مشورے کو بے پناہ اہمیت دیتے تھے۔ انہوں نے بھی تما م عمر اپنا دامن مناصب سے بچائے رکھا۔ ان کے بیٹے نے بھی ان کی اس روایت کی حفاظت کی۔
حسن خلق ایسا کہ جو ایک بار ملا ان کو بھلا نہیں سکا۔ طبیعت میں ایسی نرمی جو گلاب کی پتیوں میں ہوتی ہے۔ نوجوانوں کی ایسی ہمت افزائی کرتے کہ مجھ جیسوں کو صاحبِ تصنیف بنادیا۔ دوسروں کے سامنے تعارف کراتے تو میں پسینے میں بھیگ جاتا۔ کتنے نوجوان ہوں گے جن کو علم کی راستے پرڈالا اوران کے لیے زادِ راہ کا اہتمام کیا۔ دیانت ایسی کہ آدمی حیرت سے تکتا رہ جائے۔ سخاوت میں بھی ان کا جواب نہ تھا۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ یہ میری تہذیب ہے جو ان کے وجود میں مجسم ہو گئی تھی۔ 
ڈاکٹرممتاز احمد صاحب کے ساتھ انہیں بے حد محبت تھی۔ نصف صدی کی دوستی تھی۔ وفات سے کچھ دن پہلے، ممتازاحمد صاحب کی آخری کتاب 'اسلامی تعلیم کی دستاویزی تاریخ‘ شائع ہوئی۔ن میں ملا تو اپنے دستخطوں کے ساتھ مجھے اس کا ایک نسخہ دیا۔ مجھ سے کہا،اس کاانتساب دیکھو۔ انگریزی زبان کی اس کتاب کو 'پروفیسر ظفر اسحاق انصاری ‘کے نام معنون کیا گیا تھا۔ ساتھ اقبال کا ایک مصرعہ لکھا تھا۔ میں نے زیرِِلب پڑھا، ممتاز صاحب نے بلند آواز سے ع
شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کا نم
کہنے لگے: 'انصاری صاحب نے دیکھا تو مجھے کہا، اپنے ہاتھ سے لکھ کرد یں‘۔ آج شاخِ گل باقی ہے نہ بادِ سحر۔ کچھ باقی ہے تو صرف آنکھوں کا نم۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved