تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     27-04-2016

کیپٹن اسفندیار شہید کا مقدمہ

بڈھ بیر پشاورکے ہوائی اڈے کی حفاظت کی خاطر اپنی جان پر کھیلتے ہوئے دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کو جرأت و بہادری سے خاک میں ملا کر جام شہادت نوش کرنے والے کیپٹن اسفند یار شہید کی جب نماز جنازہ ادا کی جا رہی تھی تو شہید کے والدِ محترم نے تابوت میں پڑی ہوئی اپنے جوان بیٹے کی میت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بلند آواز میں کہا: ''میرے بیٹا لٹیروں کے لئے نہیں، ملک کی دولت کو نوچنے والوں کے لئے نہیں، بادشاہوںکی اولادوں کے خزانے بھرنے کے لئے نہیں، منی لانڈرنگ کرنے والوں کے لئے نہیں بلکہ اس پاکستان پر قربان ہوا ہے جس میں عدل و انصاف کا بول بالا ہو۔ اگر ہمارے جوان بیٹوںکی لاشوں کے اوپر بیٹھ کر ان لٹیروں نے راج کرنا ہے، اگر ہمارے دل کے ٹکڑوں کی کھوپڑیوں سے انہوں نے دنیا کے ہر ملک میں اپنے محل بنانے ہیں تو جنرل صاحب! خدا کے لئے ہمارے نوجوان بیٹوںکو ان چوروں اور ڈاکوئوں کے لئے قربانی کا بکرا نہ بنائیں‘‘۔ 
کیپٹن اسفند یار شہید کے والد گرامی اپنے جوان بیٹے کے لاشے پر کھڑے جب یہ دکھ بھری گفتگو کر رہے تھے تو ان کے چہرے پر اپنے جسم کے ٹکڑے کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہو جانے کا دکھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ ایک باپ کی تو اپنے جوان سال بیٹے کی موت کی خبر سنتے ہی کمر ٹوٹ جاتی ہے، لیکن جوان لاشے پر کھڑے ہو کر شہیدکا یہ باپ اپنے وطن کے لئے سوچ رہا تھا، اسے پاکستان کی آنے والی نسلوں کی فکر تھی، اسفند یار شہید کے والدکا نوحہ اپنے لئے نہیں تھا۔ جب ٹی وی چینلز پر 
کیپٹن اسفند یار شہید کے والد کی آرمی چیف سے کی جانے والی یہ گفتگو دکھائی جا رہی تھی تو مجھے جہلم سے شہیدِ سیاچن کیپٹن معظم کے والد میجر ڈاکٹر اخترکا فون پر گلوگیر آواز میں کیا جانے والا شکوہ یادآ گیا: ''بھائی جی میں تو اب یہ سوچنے لگا ہوں کہ میرا نوجوان چاند معظم وطن پر قربان ہوا ہے یا اس پر قابض ڈاکوئوں کے لئے؟‘‘
بد قسمتی سے پاکستان چند خاندانوں کی جاگیر بن کر رہ گیا ہے، جہاں ریاست کا نہیں بلکہ ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کو قوانین کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ یہ قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں قائم ہونے والے پاکستان کی سر زمین ہے جسے ایک قوم نے اپنے ایمان اور جذبے سے، اپنے گرم لہو سے اور اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتوں کی قربانیاں دے کر حاصل کیا۔ یہ مقدس خطہ ان ہزاروں شہیدوں کی ملکیت ہے جو پاکستان بننے کے دوران اور بعد میں دشمن کی بار بار کی چالوں اور سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے وطن کی مٹی میں بکھرکر امر ہو گئے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان جانثار شہیدوںکی روحوں کی حکمرانی ہوتی، لیکن یہاں ان بادشاہوں کی اولادوں کی حکمرانی چل رہی ہے جو اس ملک کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔ 
طاقت اور اختیار کے نشے میں دھت یہ حکمران، ان کی اولادیں اور ان کے کاسہ لیس شاید بھول گئے ہیں کہ جب پانی کی دیوار اٹھتی ہے تو ریت کی دیوار بیٹھ جاتی ہے، زندہ خون کی دیوار کاخ و ایوان کے حصاروں میں نقب لگا کر تاریخی عمل کے لئے راستہ ہموار کر دیتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ طاقتور ارباب اختیار عام طور پر تاریخی عمل روکنے کی بھر پورکوشش کرتے ہیں، لیکن پھر اس طرح غرقاب ہوتے ہیںکہ ان کی پہچان ختم ہوجاتی ہے اور وہ فرعون کی ممی کی طرح عبرت اور رسوائی کی علامت بن جاتے ہیں۔ پاکستان آج گرداب میں پھنسا ہوا ہے، عوام کو آسمان گھومتا دکھائی دے رہا ہے، تاریخ گواہ ہے کہ اس سے پہلے بھی قومیں اسی طرح کے تند و تیزگرداب میں پھنسیں اور اس میں سے وہی قوم ابھری اور زندگی سے لطف اندوز ہوئی جس نے اپنی لغزشوںکو جانا اور اپنے بد اعمال حکمرانوںکو بے رحم محاسبے کے عمل سے گزارا۔ 
عوام آج پھر جس کرب اور اذیت سے گزر رہے ہیں، شاید اسی وقت کے بارے میں ہی قائد اعظم نے فرمایا تھا: ''ملک کے حق میں حکومت کے خلاف ہو جانا غداری نہیں، البتہ حکومت کے حق میں ملک کے خلاف بات یا عمل کرنے کو حب الوطنی نہیں کہا جا سکتا‘‘۔ عمران خان سمیت کوئی بھی جماعت یا گروہ اگر قائد اعظمؒ کے اس فرمان کے مطابق ملک میں اصلاح کی کوئی تحریک چلاتا ہے تو یہ سب سے بڑی حب الوطنی ہوگی، لیکن اگرکوئی شخص یا گروہ اس کی مخالفت کرتا ہے توقائد کی نصیحت کے مطا بق یہ حب الوطنی نہیں ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ فوجی اور سیاسی حکومتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں، جیسے آگ اور پانی! بظاہر ان میں کوئی قدر مشترک نہیں، لیکن انسانی معاملات میں آگ اور پانی مختلف خانوں میں تقسیم نہیں ہوتے۔ اقتدار کا حلف اٹھاتے ہوئے قرآنی آیات کے سائے تلے ''ملک اور قوم سے وفا‘‘ کا جو عہد کیا جاتا ہے اس کی پاسبانی نہ کرنا دینی تعلیمات کے منافی اور آئین سے غداری ہے۔ دل میں اپنی فوج سے بیر رکھتے ہوئے دشمن کے گیت گانے کو حب الوطنی اور حلف کے کس زمرے میں رکھا جائے گا؟ 
جنرل راحیل شریف نے فوج میں تطہیرکا جو عمل شروع کیا ہے وہ کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہاں تک پہنچنے کے لئے سب 
کے پر جلتے رہے۔ بدقسمتی سے فوج کے کچھ لوگ لوٹ مارکا باقاعدہ حصہ بن گئے جس پر فوج کے افسر اور جوان کڑھتے تھے۔ محسوس کرنے والوں کے لئے یہ کڑھن اذیت بن جاتی ہے، ذہنی کرب کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور ایک ایماندار، سچے اور وطن کی محبت میں ڈوبے ہوئے سرفروش کے لئے یہ کرب عذاب بن جاتا ہے۔ اس کرب کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جس کے ضمیر میں کسک اور دل میں خلش محسوس کرنے کی صلاحیت ہو۔ضمیر کی اسی خلش اور آواز پر لبیک کہتے ہوئے جنرل راحیل شریف نے فورٹریس سٹیڈیم سے ملحق بیش قیمت زمین کی دو جرنیلوںکوکی جانے والی الاٹمنٹ منسوخ کردی۔ یہ کوئی چھوٹا عمل نہیں تھا۔ انہوں نے یہ بھاری اقدام اٹھاتے ہوئے اور اپنے دائیں بائیں رہنے والوںکی ناراضی کی پرسا نہ کرتے ہوئے سب کو واضح پیغام دیا کہ اب ایسا نہیں ہوگا۔ اس کی پہل اپنی ذات سے کی جب انہوں نے قوانین کے تحت آرمی چیف کو الاٹ ہونے والا کمرشل پلاٹ پاک فوج کے شہیدوں کے نام وقف کر دیا۔ 
جنرل راحیل شریف نے دو ٹوک لہجے میں کوہاٹ سگنل سینٹر میں جو بات کہی تھی اس پر عمل کی ابتدا کرتے ہوئے فوج کے کئی بڑے افسروں کو قوم کے وسائل لوٹنے اور قومی دولت کو نقصان پہنچانے پر فوج سے نکال باہر کیا۔ان جرنیلوں اور افسروں کے نام ملکی اور غیر ملکی میڈیا پر چھا گئے۔ جنرل راحیل شریف نے 13 فوجی افسروں کا اس طرح احتساب کیا کہ لوٹی ہوئی تمام دولت بھی واپس لے لی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved