تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     27-04-2016

علم اور عقل

اللہ اور اس کے سچّے پیغمبرؐ کو تعلیم و تحقیق پہ کس قدر اصرار ہے ؟ ''بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔ ‘‘عقل والے کون ؟ ''وہ لوگ جواللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے بیٹھے، اور پہلوئوں کے بل لیٹے ہوئے ۔‘‘ کیا صرف عبادت گزار، تسبیح پڑھنے والے اہلِ دانش ہیں ؟ جی نہیں ، مزید فرمایا'' اور وہ غو ر کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں‘‘۔ آلِ عمران 191۔ 
ملّا عمرنے جو اسلام نافذ فرمایا اور ملّا فضل اللہ اور مولوی عبد العزیز جس نفاذِ اسلام کے علمبردار تھے، اس کا تصور کرتے ہی ، ذہن میں فقط اسلامی سزائوں کا نفاذ آتاہے ۔یہ سزائیں اس وقت نافذ کی جاتی ہیں ، جب کوئی فرد معاشرے میں سرِ عام برائی کرتے ہوئے ، اس میں خرابی پیدا کرے ۔ قتل کرنے والے کو زندہ رہنے کا حق نہیں دیا جا سکتا ۔دوسری طرف ذاتی زندگی میں خد اآپ کو انتخاب (Choice)کا حق دیتاہے ۔ آپ اسے مانتے ہیں یا نہیں ، یہ اس نے آپ پر چھوڑدیا ہے ۔ 
اگر خدا کی کتاب اور رسالت مآب ؐ کی مقدس حیات کا مطالعہ کیا جائے تو علم ، تحقیق، حکمت اور دانش ہمیشہ ہر صورت غالب نظر آتی ہے۔ زمین پر غور کیسے کیا جائے گا ؟ یہ 23.6ڈگری پر اپنے محور پرجھکی ہوئی ہے ۔اس زاویے کے اس کے موسموں پر اثرات ہیں ۔ زمین کی ایک آب و ہوا ہے ،گیسوں کا غلاف اس سے لپٹا ہوا ہے ۔یہ سب نہ ہوتا تو چاند پر جہاںدن میں درجہ ء حرارت 70ڈگری سینٹی گریڈ ہوتاہے ، وہاں رات کو یہ منفی 70ڈگری تک گر جاتاہے ۔ یہ سب زندگی کے لوازمات ہیں ۔ 
کرّہ ء ارض پر غور کرتے ہوئے ، 4.6ارب سال کی تاریخ میں بڑے واقعات کا ذکر آئے گا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ خدا کو یہ خوف ہرگز لاحق نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غو ر و فکر سے کہیں اس کا وجود غلط ثابت ہوجائے گا ۔ یہ خوف ہمارے ذہنوں میں ہے اور اس کا سب سے بڑا سبب کم علمی ہے ۔خوف یا تو گناہ اور جرم سے پیدا ہوتاہے یا پھر کم علمی سے ۔ یہ حیرت انگیز بات کسی طرح سمجھ میں نہیں آتی کہ جس خدا نے انسان کو عقل دی، بھلا وہ اسے عقل کے استعمال سے کیوں روکے گا۔ 
خدا نے انسان کو پیدا کیا ، عقل کے امتحان کے لیے ۔ اسے یہ اختیار دیا کہ وہ ہدایت اور خواہش میں سے ایک کا انتخاب کرتا رہے؛ حتیٰ کہ اسے مو ت آجائے ۔ اس کے بعد ترازو ضرور لگے گالیکن ہمارے گناہ مستقل طور پر ہمارے سر پہ سوار نہیں ۔ جو توبہ کرے گا، آخری عمرمیں بھی خدا کی طرف پلٹ جائے گا، اسے بھی وہ یہ کہتا ہے : بے شک اللہ سب کے سب گناہ معاف کر دیتاہے ۔ انسان معاف کرے نہ کرے، خدا بخش دیتاہے ۔
سوشل میڈیا، فیس بک پر مفتیانِ کرام کے شہر آباد ہیں ۔ ایک دوسرے کو کوئی رو رعایت دینے پر وہ آمادہ نہیں ۔ دوسری طرف وہ ''علما ‘‘ ہیں ، دین میں آسانی پیدا کرنے کی خاطرجو نت نئی مضحکہ خیز رعایتیں متعارف فرما رہے ہیں ۔ ایک عالم فاضل نے فرمایا: اگر ایک مرد اور عورت ہاتھ ملانا(Hand Shake) چاہیں اور ان کا کلچر اجازت دیتا ہو تو ملالیں ۔ خدا نے مخالف جنس میں ایک دوسرے کے لیے کشش رکھی ہے ۔لمس کا احساس جلدمیں موجود nervesسے دماغ تک پہنچتا اور لطف کا احساس پیدا کرتاہے ۔ کلچر کی اتباع اگر شریعت میں ملحوظ رکھی جائے تو یورپ اور امریکہ کا کلچر انسانوں کو کون کون سی رعایتیں دیتا ہے ، میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا ۔ ایک صاحب نے کہا ،شادی ایک کرو، خفیہ طور پر نکاح متعدد کرو۔ ان خفیہ نکاحوں سے معاشرے میں جو خون خرابا ہوگا، اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟
خدا کے نزدیک انسانی برتری کا معیار نسل ،رنگ اور زبان نہیں ، تقویٰ ہے ، یہ آپ سب نے سن رکھا ہوگا۔ یہ تقویٰ کوڑے کے زور سے پید انہیں کیا جا سکتا، اس کی بنیاد علم ہے ۔ یہ خدا نے فرمایا ہے : انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء۔ اللہ کے بندوں میں سے وہی اس سے ڈرتے ہیں ، جو علم والے ہیں ۔ جسے خدا کی شناخت ہی نہ ہو، وہ متقی نہیں ہو سکتا۔ سورۃ الکہف میں حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت خضرؑ کا واقعہ پڑھ لیجیے ''موسیٰ نے اس سے کہا ، کیا میں اس غرض سے تیری پیروی کر سکتا ہوں کہ مجھے بھی اس ہدایت میں سے کچھ سکھا دے ، جو تجھے سکھلائی گئی ہے۔ اس نے کہا ، یقینا تو ہرگزمیرے ساتھ صبر کی استطاعت نہیں رکھے گا‘‘ خضر علیہ السلام نے اگلا جملہ کمال کا کہا ۔فرمایا، جس چیز کا تجھے علم نہیں، تیرا علم جس چیز کا احاطہ نہیں کرتا، تو کیسے اس پر صبر کرے گا؟ صبر بھی علم کے ساتھ ہے ۔ ایمان بھی علم کے ساتھ ہے ۔ 
خدا کہتا ہے کہ زمین میں گھومو پھرو ، اپنے سے پچھلوں کو تباہ و برباد ہوا دیکھو اور عبرت حاصل کرو۔ مسئلہ یہاں یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے فاسلز (Fossils)کا علم چاہیے ۔ اس کے لیے بوسیدہ ہڈیوں کی عمر ناپنے کا علم چاہیے ۔ اس کے لیے ڈھانچوں کی ساخت پر تحقیق چاہیے ۔ اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ 99فیصد جاندار یعنی 5ارب مخلوقات ،جو ساڑھے چار ارب سال کی تاریخ میں زمین پر بستی رہی ہیں ، وہ ناپید (Extinct)ہو چکی ہیں ۔ فاسلز کے علم ہی سے تو ہم نی اینڈرتھل انسان (Homo sapien Neanderthal)کے ناپید ہو نے پر غور کر سکتے ہیں ۔ یہ ایک بدصورت، چھوٹے قد اور بڑے سر والا انسان تھا۔ آج سے تیس ہزار سال پہلے جب ہمارے آبائو اجداد افریقہ سے نکل کر ایشیا اوریورپ میں پھیلتے چلے جا رہے تھے، نی اینڈرتھل آبادیاں ختم ہوتی جا رہی تھیں ۔ اس خاتمے کی وجہ مہذب انسان سے جنگ تھی ، آپس کی لڑائیاں ، بدلتا موسم یا کچھ اور، آج تک کوئی حتمی رائے اس پر نہیں دی جا سکی ۔یہ شواہد بھی ملے ہیں کہ نی اینڈرتھل آبادیاں ایک دوسرے سے دور قائم تھیں اور آپس میں ان کا میل ملاپ، اشیا اور تحائف کا تبادلہ اس طرح کا نہیں تھا، جیسا کہ ہمارے آبائو اجداد میں ۔ ہم لوگ ہمیشہ ہر فائدہ مند چیز سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے ہیں ، علم کا تبادلہ کرتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے کٹے ہوئے تھے ۔خیر نی اینڈرتھل کا موضوع تو ایک الگ کالم کا متقاضی ہے ۔ 
خدا کی نظر میں آپ کا مرتبہ و مقام اور اس زمین پر دوسری اقوام کے مقابلے میں عظمت ، ذاتی زندگی میں کامیابی اور قومی سربلندی ، سبھی کچھ علم اور عقل کے ساتھ جڑا ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved