تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     28-04-2016

مستقبل

جو قوم آنے والے کل کی منصوبہ بندی نہیں کرتی، جذبات سے مغلوب ہو کر ہسٹیریا کا شکار ہو جاتی ہے، اس کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔
شمال کے جاگیردار اونچی دیواروں والی حویلیوں میں رہتے اور لائو لشکر کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ عام آدمی کو بجلی میسر ہے اور نہ پانی ۔ درآمدات ہوتی ہیں اور امریکہ سے مہنگی۔ پھر داعش کی ہم نفس بوکوحرام ہے جو پتلون پہننے والوں کو کافر قرار دیتی اور قتل کر ڈالتی ہے ۔ یہ نائیجیریا ہے، تیل پیدا کرنے والا دسواں بڑا ملک۔ 
ماہرین کہتے ہیں کہ اس معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہولناک جذباتیت ہے۔ کوئی کسی کی نہیں سنتا۔ ایک طرف محروم عوام کی بے کنار آبادیاں ہیں تو دوسری طرف برطانوی اقتدار میں پروان چڑھے جاگیردار، جو قانون کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں۔ 
افغانستان، عراق، شام اور لیبیا برباد ہوئے۔ تیس ہزار برس کی انسانی تاریخ کا تجربہ یہ ہے کہ آبادیوں کو حکومت کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ جو کسی آئین کے تحت نظم و نسق چلائے۔ افتادگان کے آنسو پونچھے۔ مظلوموں کو انصاف عطا کرے۔ طاقتوروں کو حدود و قیود میں رکھے۔ امن قائم کرے اور ایک معقول ڈسپلن کے تحت معاشی سرگرمیوں کی آزادی ہو۔ تاریخ کا سبق یہ بھی ہے کہ تمام سیاسی اور سماجی ادارے کسی قوم کی روایات، مزاج اور عقائد سے پھوٹتے ہیں، جس طرح کہ شجر زمین سے۔ رواداری لازم ہے کہ خالق کائنات نے زندگی کو تنوع میں پیدا کیا ہے۔ وہ اختلاف اور کشمکش میں بروئے کار آتی اور حریّت میں ثمر بار ہوتی ہے۔
میاں محمد نواز شریف سے اس ناچیز کو کوئی ہمدردی نہیں۔ اس کی رائے میں وہ اقتدار اور دولت کے رسیا ہیں۔ تاجر ہیں ۔ من مانی کا ان میں رجحان ہے۔ آئین کے تقدس کی پروا ہے اور نہ مفلسوں اور محتاجوں کی۔ اس کے باوجود ہیرو بننے کا شوق ہے۔ خود کو برگزیدہ سمجھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی خود رحمی کا شکار بھی۔ اپنے خاندان پر ہونے والے مظالم اور اپنی حکومت کی برطرفیوں کا وہ رونا رویا کرتے ہیں۔ ان کی معصومانہ حیرت یہ کہتی سنائی دیتی ہے کہ زمین ان کے لیے جنت کیوں نہیں بن گئی۔ آزاد میڈیا، اپوزیشن اور مسلح افواج انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتیں۔ ان کا بس چلے توآزاد میڈیا سے نجات حاصل کریں۔ ان کا بس چلے تو اپوزیشن کا منہ بند کر دیں اور پاک فوج کو پنجاب پولیس بنا دیں جو صرف اطاعت کرتی ہے۔ ڈھنگ کے جو افسر اس میں موجود ہیں، تڑپنے پھڑکنے کی اجازت بھی انہیں نہیں۔ ایسی پولیس جو ڈاکوئوں کے کسی گروپ سے نمٹ نہیں سکتی۔ 
ناچیز سے وہ ناخوش ہیں۔ آمنا سامنا شاذ ہی ہوتا ہے۔ دیکھ پائیں تو چہرہ سرخ ہو جاتا ہے۔ ہاتھ ملا کر آگے کی طرف لپکتے ہیں۔ اخبار نویسوں کی منڈلی میں اگر سوال کروں تو جواب نہیں دیتے۔ ایک بار مجھے دیکھا تو گھنٹے بھر کی پوری تقریر ہی مجھ غریب پر لٹا دی۔ اخبار نویس کی تنقید کو انہوں نے''غیبت ‘‘ کہا اور دیر تک غیبت کی خرابیاں گنواتے رہے۔ یہ بھی فرمایا کہ وہ کبھی اس مرض میں مبتلا نہ ہوئے۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ عاجز بدمزہ نہ ہوا۔ حیران سنتا رہا۔ فوراً بعد ایک اور واقعہ رونما ہوا۔ ان کے ہمدم ایک مدیر نے میری طرف اشارہ کیا کہ ماضی کو بھلا دیجئے۔ بولے کچھ نہیں، چہرے پہ وہی ناراضی۔ میاں صاحب نے ان سے شکایت کی تھی کہ اس آدمی نے میرے بارے میں ایک بہت ناروا جملہ کہا۔ عرض کیا: بالکل بجا، ان کے ایک فدائی نے مجھے گالی دی۔ جواب میں یہ جملہ میں نے کہہ دیا۔ میری غلطی ہے، معافی مانگتا ہوں۔ اگر وہ چاہیں تو ٹی وی پر معذرت کر لوں گا ۔ جواب آیا: اس کی ضرورت نہیں، مگر آپ کا شکریہ۔ ایسی ہی ایک بات جناب شہباز شریف سے کہی تھی۔ انہوں نے کہا تھا، تین دن کے لیے میاں صاحب پر تنقید نہ کیجیے۔ عرض کیا، تین کیا سات دن۔ اللہ مہربان ہو تو لکھنے والے کے پاس موضوعات بہت ہوتے ہیں۔ خواہش ان کی یہ تھی کہ بڑے بھائی سے اخبار نویس کی ملاقات کرا دیں۔ ان کی سادگی پر میں ہنسا کہ یہ تو ہونے کا نہیں۔ آخر وہ مجھ سے کیوں ملیں گے۔ اپنی روش ہم بدل نہیں سکتے۔ حکمرانوں کے خوشہ چیں تو نہیں بن سکتے۔ دربار کی رفعت سے زمین کی پاتال اچھی۔
ایک آدھ نہیں، متعدد مواقع پر ان کی مدد بھی کی۔ 2008ء میں جب وہ دھاندلی کا ہدف تھے تو ناچیز یہ بات چیخ چیخ کر کہتا رہا۔ ایک مقبول پروگرام میں اسحق ڈار موجود تھے۔ اپنا مؤقف دہرایا تو حیران سے رہ گئے۔ غور کرنے کی توفیق انہیں کم ہی ہوتی ہے۔ راولپنڈی کے ہوائی اڈے سے عرب اغوا کر کے لے گئے تو یہ خاکسار تھا جس نے چلّا کر کہا تھا: پاکستانی عوام کے ایک مقبول لیڈر کو اغوا کر لیا گیا ہے اور وہ معاف نہ کریں گے۔ ایک آدھ اور نے آواز میں آواز ملائی۔ میاں صاحب سمجھوتے کے موڈ میں تھے۔ اسی شام جدّہ میں فرید پراچہ ان سے ملے تو وہ پیسٹری سے شغف فرما رہے اور بیکری والے کو داد دے رہے تھے۔ ہماری چیخ و پکار کا نتیجہ یہ نکلا کہ نون لیگ نے عرب سفارت خانے کی تقریب کا بائیکاٹ کر دیا۔ عرب سفیر نے ریاض کو لکھا: ہماری چھ عشروں کی سرمایہ کاری ضائع ہو گئی۔''خدانخواستہ اگر مجھے اغوا کر لیا جائے تو یہاں کوئی رونے والا نہ ہو گا‘‘۔
احتجاج رنگ لایا تو رفتہ رفتہ آنجناب کی آمد کا رستہ ہموار ہوا۔ جنرل مشرف اور امریکیوں کا منصوبہ وگرنہ یہ تھا کہ میدان میں صرف قاف لیگ اور پیپلز پارٹی رہ جائیں۔ اغوا کے ہنگام زرداری صاحب کے دو مشیر میرے پاس بیٹھے تھے۔ وہ شاد تھے۔ کیوں نہ ہوتے؟ آنے والے برسوں میں مفلس کروڑ پتی ہوا اورکروڑ پتی اربوں میں کھیلنے لگا۔
سلمان تاثیر اور رحمن ملک کی سازش سے شہباز حکومت برطرف کی گئی تو سب سے پہلے اس اخبار نویس نے صدائے احتجاج بلند کی۔کہا کہ پنجاب کی افسر شاہی غیر آئینی حکومت کے احکامات تسلیم نہ کرے گی۔ سب سے بڑھ کر دھرنے کے ایام میں ان کی مدد کی۔ دوسرے کسی لکھنے والے نے اس قدر خطرہ مول نہ لیا۔ لوگ باگ حیران تھے اور مجھ سے پوچھتے تھے، تمہیں ہوا کیا ہے۔ مجھ پر دبائو تھا مگر ایک سازش کے ذریعے حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کی حمایت سے انکار کر دیا۔
کبھی کبھی میں حیران ہوتا ہوں کہ اختلاف پر کردار کشی کرنے والی نون لیگ نے ان مواقع پر کبھی رابطہ تک نہ کیا۔ تعلق اور تحسین کی الحمد للہ کوئی خواہش نہ تھی مگر ایسے کٹھور کہ سرکاری تقریبات میں میرے داخلے پر پابندی برقرار رہی۔ 
تمہید کچھ طویل ہو گئی۔ عرض یہ کرنا تھا کہ حکومت کو ضرور چلتا کیا جائے۔ مجھ ایسوں کو اس سے کیا دلچسپی۔ یہ مگر ملحوظ رکھا جائے کہ اس کے بعد اور زیادہ افراتفری پیدا نہ ہو۔ خدانخواستہ ملک انارکی کا شکار نہ ہو جائے۔ شام، عراق، لیبیا اور افغانستان تو انشاء اللہ ہم نہ بنیں گے مگر مزید عدم استحکام کے ہم متحمل نہیں۔ نون لیگ پاناما لیکس کی تحقیقات سے فرار کی راہ پر ہے۔ شریف خاندان اگر سچّا ہے تو مجوزہ کمیشن کے دائرہ کار پر اپوزیشن کی تجاویز اسے قبول کر لینی چاہئیں۔ اگر وہ معصوم ہیں تو ان کی معصومیت اجاگر ہوگی۔ مخالفین کو منہ کی کھانا پڑے گی۔ نکتہ یہی ہے کہ 1992ء یا فوراً بعد سمندر پار جو کمپنیاں حسن نواز، حسین نواز اور محترمہ مریم نواز کے نام سے بنائی گئیں، بظاہر وہ میاں صاحب ہی کا روپیہ تھا۔ اولاد تو کم سن تھی۔ پھر یہ کہ خود میاں صاحب کے پاس اتنی بہت سی نقدی کہاں سے آ گئی تھی؟
بایں ہمہ احتجاج کو فساد میں نہیں ڈھلنا چاہیے۔ کتابوں میں انقلاب بہت دلکش لگتے ہیں مگر عملاً وہ خدا کا عذاب ہوتے ہیں۔ ایوب خان، بھٹو، ضیاء الحق، بے نظیر بھٹو، خود میاں صاحب اور جنرل مشرف کو مار بھگانے سے کیا حاصل ہوا؟
جو قوم آنے والے کل کی منصوبہ بندی نہیں کرتی، جذبات سے مغلوب ہو کر ہسٹیریا کا شکار ہو جاتی ہے، اس کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved