تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     29-04-2016

فریبِ ناتمام

ڈاکٹر اشرف غنی کے پاکستان مخالف بیان کے بعد عوام کو اُن کے پیشرو حامد کرزئی یاد آئے‘ جن کا بطور صدر چناؤ تو پاکستان کی مرضی اور درپردہ کوششوں سے ہوا مگر کابل کے قصر صدارت میں داخل ہونے کے بعد اُن میں سردار داؤد ‘ڈاکٹر نجیب اللہ، ببرک کارمل اور برہان الدین ربانی کی روح حلول کر گئی۔ ڈاکٹر اشرف غنی صدر منتخب ہوئے تو ہماری سول اور ملٹری قیادت کی خوشی دیدنی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ حقیقی معنوں میں ایک پاکستان دوست افغان صدر منتخب ہوا ہے۔ بیرون ملک دوروں کا آغاز بھی ڈاکٹر اشرف غنی نے چین‘ سعودی عرب، پاکستان سے کیا‘ اس لیے حکمرانوں کی طرح عوام بھی خوش ہوئے مگر کابل کے قصر صدارت میں کچھ ایسا ضرور ہے کہ وہاں داخلے کے بعد ہر حکمران پاکستان کی مخالفت پر اُتر آتا ہے۔
کسی پاکستانی دانشور سے پوچھیں تو اس کی سادہ وجہ وہ افغانستان میں پاکستان کی مداخلت اور کوئٹہ شوریٰ کی سرپرستی کو قرار دے گا‘ اور اس کے ڈانڈے 1970ء کے عشرے میں بعض مجاہدین رہنماؤں کی پاکستان آمد اور پہلے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور پھر ضیاء الحق کی سرپرستی سے جوڑے گا‘ مگر یہ حقیقت نہیں‘ یکطرفہ پروپیگنڈا ہے جس کا پول خان عبدالولی خان اور اجمل خٹک کے قریبی ساتھی اور نیشنل عوامی پارٹی (NAP) کے علاوہ پاکستان کمیونسٹ پارٹی (کالعدم) کے سرگرم کارکن جمعہ خان صوفی نے اپنی خود نوشت سوانح ''فریبِ ناتمام‘‘ میں کھولا ہے۔ جمعہ خان صوفی ''پہلی بات‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں:
''ہمارے خطے میں اور خصوصاً پاکستان اور افغانستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے جو خاک و خون کا سیلاب رواں دواں ہے اور گزشتہ 33۔ 34 سال سے افغانستان جس المیے کا سامنا کر رہا ہے اس کے بارے میں مختلف لکھنے والے اور تجزیہ نگار اس صورتِ حال کی پیدائش اور ابتدا کے بارے میں مختلف عوامل کی نشاندہی کرتے ہیں جو جزوی طور پر سچ ہو سکتے ہیں، لیکن ایک عوامی عامل جو اس زمانے میں امریکہ اور سوویت یونین کے مابین ''سرد جنگ‘‘ کے نام سے مشہور تھا‘ ساری دنیا کی سیاست پر حاوی تھا۔ اس پر تمام تجزیہ کار متفق ہیں؛ تاہم داخلی اور اندرونی عوامل پر اتفاق موجود نہیں ہے‘‘۔
''اس معاملے میں افغان تجزیہ کار تین گروہوں میں منقسم ہیں:
1۔ وہ تجزیہ کار جو داؤد خان کو اس سارے قضیے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ انہوں نے ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کر آئندہ کی بغاوتوں کا راستہ ہموار کیا۔
2 ۔ وہ تجزیہ کار جو اپریل 1978ء کے انقلاب ثور کو ذمہ دار گردانتے ہیں، جس کے نتیجے میں خون بہنا شروع ہوا اور خارجی قوتوں کو دعوت دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔
3۔ وہ تجزیہ کار جو افغانستان میں سوویت افواج کی آمد کو اس معاملے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
پاکستان کے دائیں بازو کے تجزیہ کار بھی اسی طرح تین گروہوں میں تقسیم نظر آتے ہیں، مگر یہ لوگ سارا الزام سوویت یونین اور کمیونزم پر ڈالتے ہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ سوویت یونین دراصل افغانستان کے راستے پاکستان پر قبضے کا خواہاں تھا اور گرم پانیوں تک رسائی چاہتا تھا‘‘۔ 
''دوسری طرف آزاد، لبرل اور بائیں بازو کے تجزیہ نگار بھی دو حصوں میں بٹے نظر آتے ہیں۔
ا۔ ایک گروہ 1974۔ 1975ء میں پاکستان کی جانب سے گلبدین حکمت یار، برہان الدین ربانی، احمد شاہ مسعواور دیگر اخوانی عناصر کو پا کستان میں منظم کرنے اور فوجی تربیت دینے کو اس قضیے کا پیش خیمہ قرار دیتا ہے۔
ب۔ دوسرے گروہ کے نزدیک اس معاملے کی اصل جڑ پاکستان کی جانب سے افغان انقلاب اور سوویت افواج کے افغانستان میں داخلے کے خلاف مجاہدین کو تربیت دینا، انہیں مسلح کرنا اور پاکستان میں ان کے کیمپ قائم کرنا ہے۔ اور دونوں عوامل ایک دوسرے سے جڑے ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔
اب ایسے تجزیہ کاروں میں اضافہ ہو رہا ہے جو پہلے عامل کو ہی زیادہ وزن دیتے ہیں جبکہ دائیں بازو میں بھی ان کے ہمنوا بنتے جا رہے ہیں۔
''تاہم سب تجزیہ کار ایک اہم اور بڑے عامل کو نظر انداز کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ وہ عامل یہ ہے کہ ان متواتر المیوں کی ذمہ داری نیشنل عوامی پارٹی، خصوصاً ولی خان کی جانب سے 1973ء میں بھٹو اور پاکستان کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے کا فیصلہ ہے۔ اسی نے داؤد خان کی حکومت کو ایک انجام شدہ عمل (Fait accompli) سے دوچار کرکے افغانستان کو جنگ کی طرف دھکیل دیا۔ یوں افغانستان کو داخلی اور خارجی طور پر پاکستان کی جانب سے عدم استحکام کا شکار کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں دائیں بازو کو ایجی ٹیشن پر اُبھار کر خود اس کا حصہ بنے اور فوجی جرنیلوں سے ساز باز کی۔ یوں افغانستان اور پاکستان دونوں ایک المناک سانحے سے دوچار ہوئے اور آخر میں ولی خان دیدہ دلیری سے عدم تشدّد کا راگ الاپنے لگے‘‘۔
''دلچسپ بات یہ ہے کہ افغانستان میں خوں ریز انقلاب برپا ہوتا ہے اور وہاں کی حکومت اپنے تمام عہدیداروں کے ساتھ جسمانی طور پر ختم کر دی جاتی ہے، وہ اپنی ناکامیوں کے عوامل لوگوں تک پہنچانے سے قاصر رہتے ہیں۔ پھر ترہ کئی اور امین کی حاکمیت انقلاب کی ہلچل کے دوران ہی سرنگوں ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد کارمل اور نجیب کی حکومتیں بہ امر مجبوری اسی لیڈرشپ کی محتاج رہتی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں بھٹو بھی قتل کیے جاتے ہیں اور اس کے جانشین ضیا کی فوجی حکومت بھی کچھ عرصے کے لیے ان کی محتاج رہتی ہے۔ دونوں طرف کے کردار اپنی داستانِ المِ سنانے سے پہلے ہی دنیا کے پردے سے ہٹتے چلے جاتے ہیں اور اصل عامل پوشیدہ رہتا ہے‘‘۔
''بھٹو کے عمل اور کردار سے آنکھیں بند کرنا مشکل ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ غوث بخش بزنجو کی رضا کے بغیر نیشنل عوامی پارٹی نے تشدد کا راستہ اختیار کیا تھا، جس کی وجہ سے بلوچ اپنے علاقوں کو چھوڑ کر پہاڑوں کی طرف ہجرت کر گئے اور پشتون قوم پرست نوجوانان پختون زلمے تنظیم کے بینر تلے اکٹھے کیے گئے۔ اگرچہ نیپ کے اس فیصلے میں بعض دیگر بلوچ رہنما اور کمیونسٹ بھی شامل تھے لیکن اصل فیصلہ عبدالولی خان ہی کا تھا۔ باچا کے بیٹے کی حیثیت سے ان کا افغانستان میں ایک اعتبار قائم تھا جس سے اس نے فائدہ اُٹھایا۔ باچا خان کا اس فیصلے میں شاید کوئی فعال کردار نہیں تھا، بلکہ انہوں نے مصلحتاً چپ کی راہ اختیار کی اور اس فیصلے کی راہ میں روڑے نہیں اٹکائے۔ نیپ کی جانب سے یہ پُرتشدد راستہ 14 فروری 1973ء کو اختیار کیا گیا، جب صوبہ سرحد اور بلوچستان کے گورنر برطرف کر دیے گئے اور بلوچستان میں عطاء اللہ مینگل کی حکومت کو ختم کیا گیا، اور صوبہ سرحد میں نیپ اور جمعیت کی مخلوط حکومت نے احتجاجاً استعفیٰ دیا تھا۔
عبدالولی خان کا خیال تھا کہ اگر ہم نے موثر تشدد کا راستہ اختیار کیا تو افغانستان مجبور ہو گا کہ پشت پناہی کے لیے ہماری مدد کرے۔ اس سے پہلے بھی یحییٰ خان کے زمانے میں کچھ اسی طرح کی فضا بنانے کی کوشش کی گئی تھی، جب یحییٰ خان نے نیپ پر پابندی لگائی تھی اور نیپ نے پہلی مرتبہ اجمل خٹک کو افغانستان بھیج دیا تھا؛ تاہم کچھ ہی عرصے بعد جب حکومت بھٹو کے حوالے کر دی گئی تو اس نے نیپ پر سے پابندی ہٹا دی، تب اجمل خاموشی کے ساتھ واپس آئے اور کسی کو کانوںکان خبر نہ ہوئی‘‘۔
''پشتونوں کی تاریخ بھی عجیب تاریخ ہے، بلکہ انتہائی تاسف کا مقام یہ ہے کہ یہ تاریخ ہمیشہ سے اپنوں کے بجائے کوئی اور لکھتا آیا ہے۔ اور المیہ یہ ہے کہ یہ تاریخ نویس جہاں ہمارے مسائل سے ناآشنا ہوتے ہیں، وہاں وہ ہماری داستان سننا تک گوارا نہیں کرتے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم خود سچ بولنا‘ سچ لکھنا اور سچ سننا برداشت نہیں کر پاتے۔ ہم ہر کام منطق کے بجائے توکل (بلکہ اٹکل) سے کرنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ ہمیں انجام کی فکر ہوتی ہے اور نہ نتائج کی پروا۔ ولی خان نے اپنی کتاب ''باچا خان اور خدائی خدمتگاری‘‘ میں ان تمام واقعات اور نتائج سے چشم پوشی کی ہے، جو خود اُن کے غلط اقدامات اور فیصلوں کی وجہ سے ظہور پذیر ہوئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved