تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     29-04-2016

سپریم کورٹ کے آپشن

سرکار نے اپنی طرف سے ٹائمنگ، ٹرمز آف ریفرنس اور ہومیوپیتھک کمیشن کے قیام کی خاطر ایس ایس آر او جاری کر کے سمجھا، اب اپوزیشن سمیت سب کچھ اس کی جیب کی گھڑی بن گیا۔ سوال مگر اس سرکاری ''چالاکی‘‘ سے بہت بڑا ہے۔ کیا ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے آپشن خط لکھنے کے بعد ختم ہو گئے یا شروع ہوئے ہیں؟ قومی منظرنامے کے اس اہم سوال کا جواب کئی جگہ سے ملتا ہے۔ بظاہر ''ڈار ڈپلومیسی‘‘ اپوزیشن کے حلقوں میں ناکام ہو چکی۔ اس ناکامی کا نقطہء آغاز سرکار کی طرف سے منہ بسورنے کی حرکتِ شریف سے شروع ہوا‘ جب چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کا نام پانامہ کمیشن کی سربراہی کے لئے سامنے آیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کو خط لکھتے وقت وفاقی سرکار یہ بات بھول گئی کہ اس سے پہلے بھی ایک وزیر اعظم نے سپریم کورٹ کو خط لکھا تھا۔ اس خط کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئینی اختیارات کے تحت اپنے طریقے سے عوامی نوعیت کا معاملہ قرار دے کر بھرپور احکامات جاری کر ڈالے۔ قانون، آئین اور سپریم کورٹ کے ضابطہ جاتی رولز 1980ء کی روشنی میں سپریم کورٹ کے پاس وزیر اعظم کے خط کے تناظر میں تین آپشن موجود ہیں۔
پہلا آپشن: آئین میں دیئے گئے اختیارات اور دائرہ کار کی حدود کو اقتدار کی مثلث (Tricotomy of power) کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت کسی فوجداری معاملے کی تفتیش، تحقیق یا ایف آئی آر کا اندراج کرنا انتظامی اختیارات کے زمرے میں شامل ہیں۔ آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اس نظام کی حدود میں رہ کر اختیارات کا استعمال کر ے گی۔ پانامہ لیکس لازمی طور پر ایک فوجداری معاملہ ہے؛ چنانچہ کسی قسم کی تفتیش سے پہلے مقدمہ درج کرنا ضروری ہے‘ جس کے لئے دو راستے کھلے ہیں۔
ایک راستہ متعلقہ اداروں کی طرف سے براہ راست پرچہ کاٹنے کا ہے‘ جبکہ دوسرا، ضابطہ فوجداری کی دفعہ A-122 اورB کی رو سے سیشن جج پرچہ درج کرنے کا حکم جاری کرے۔ اس مقصدکے لئے سیشن جج کو (Justice of peace) کے اختیارات حاصل ہیں۔ ہاں البتہ مقدمے کا مدعی کون ہو گا، یہ ملین ڈالر سوال ہے۔ قوم کی لوٹی ہوئی دولت حکمرانوں کے بیرونِ ملک اکاؤنٹس، اثاثوں اور آف شور کمپنی سے برآمد ہوئی‘ لہٰذا صاف ظاہر ہے کہ وہ خود اپنے یا اپنے عزیزوں کے خلاف ایف آئی آر کیوں کٹوائیں؟
اگر سپریم کورٹ نے اقتدار کی مثلث کو سامنے رکھ کر پرچہ درج کرنے کو انتظامی معاملہ کہہ دیا تو پھر ایف آئی آر فوری طور پر کٹ جائے گی۔ اس صورت میں سپریم کورٹ جوڈیشل کمیشن بنانے سے انکار کرنے کا اختیار استعمال کر سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے پاس دوسرا آپشن، کمیشن بنانے کے لئے حکومت کی درخواست قبول کرنے کا ہے کہ وہ فاضل چیف جسٹس صاحب سمیت سرکار کی ''فرمائش کردہ‘‘ ٹرمز آف ریفرنس کے تحت کمیشن بنا دے۔ ایسا ہوا تو سرکاری ٹرمز آف ریفرنس پر کمیشن کے قیام کو اپوزیشن نے پہلے ہی مسترد کر رکھا ہے۔
رواں ہفتے چوٹی کے کچھ سیاستدانوں سے ملاقاتیں ہوئیں‘ جو پانامہ کمیشن کے امکانات، سنگینی اور اس کے نتائج پر میری رائے جاننا چاہتے تھے۔ اسلام آباد کے غیر ملکی سفارت خانے، چار ہفتوں سے اپنے دارالحکومت کو پانامہ ''ڈوزیئر‘‘ بھیج رہے ہیں۔ قوم سے لے کر قومی سلامتی کے اداروں تک سب کی خواہش ہے کہ احتساب کا عمل اوپر سے شروع ہو۔ سرکار کے ٹرمز آف ریفرنس‘ احتساب کا آغاز زمین کے اندر سے کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بھی ایسی محترم میتوں کو اکھاڑ کر جو آدھی صدی سے بھی زیادہ عرصے سے آسودہ خاک ہیں۔ اگر سرکاری ٹرمز آف ریفرنس پر سپریم کورٹ نے کمیشن بنایا‘ تو ایسے کمیشن کا فیصلہ لوگ بھگت سنگھ اور وزیر اعظم بھٹو کے ٹرائل کی طرح مسترد کر دیں گے۔
ٹرمز آف ریفرنس کے حوالے سے حکومتی رویہ 'کر لو جو کرنا ہے‘ کی انتہا تک جا پہنچا ہے۔ اس رویے نے اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ''بُعدالمشرقین‘‘ ختم کروا دیا۔ یہ آپشن پاکستان کی قوم کو عالمی کرپشن مکاؤ مہم سے جدا کر کے رکھ دے گا۔ لوگ سمجھیں گے‘ پاکستان میں دو قانون ہیں‘ اس لئے انصاف کے پیمانے بھی علیحدہ علیحدہ۔ غریب ملزموں پر قہر اور بڑے چوروں پر نوازشات کی بارش۔
عدالتِ عظمیٰ کے روبرو تیسرا آپشن بھی کھلا ہے۔ وہ آپشن استعمال کرنے کی عدالتی نظیر پہلے سے موجود ہے۔ سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 187 کی ذیلی دفعہ نمبر1 کے تحت دو صورتوں میں مکمل انصاف کرنے کے لئے کوئی بھی حکم یا ہدایت جاری کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ پہلی صورت سپریم کورٹ کے پاس زیرِ التوا مقدمہ(Case)‘ اور دوسری صورت سپریم کورٹ کے سامنے موجود کوئی معاملہ (Matter)۔ ماضی قریب میں وزیر اعظم کے ایک خط کو بنیاد بنا کر بدانتظامی اور بدعنوانی پر اہم احکامات جاری ہوئے‘ لہٰذا سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے روبرو موجود اس خط کے ''معاملہ‘‘ میں انصاف کے لئے سماعت شروع کرے۔ عدالتِ عظمیٰ، سپریم کورٹ کی حیثیت سے ہی اپنے رولز کے تحت ٹرمز آف ریفرنس‘ یا دائرہ کار طے کر دے۔ ساتھ ہی سینئر وکلا کو عدالتی معاون بنا کر سیاسی جماعتوں سمیت سب کو موقع دے‘ تاکہ وہ پانامہ لیکس پر اپنی تجاویز ریکارڈ پر لا سکیں۔ یہ وہ واحد قانونی راستہ ہے جس کے ذریعے حکومت اَنا کے پہاڑ سے نیچے اترے گی۔ اپوزیشن بھی سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرے گی۔ موجودہ آئینی بحران سے نکلنے کے لئے اس کے علاوہ باقی راستے بند ہیں، یا پھر انتہائی متنازعہ اور خطرناک۔ 
وفاقی سرکار بڑی تیزی سے اپنے آپشن ختم اور راستے بند کرتی جا رہی ہے۔ چوری کے ایک سیدھے سادے مقدمے میں پارسائی کے دعوے اور مذہبی نعروں پر مبنی قسمیں نہ عوام کو متاثر کر سکیں‘ نہ اپوزیشن کو۔ لوگ جانتے ہیں کہ حکمرانی کی مسند پر نام نہاد ''علم حکمرانی‘‘ والے چڑھ بیٹھے ہیں۔ بُلھے شاہ نے ایسے ہی نام نہادوں کو مخاطب کر کے یہ کہا تھا:
پڑھ پڑھ نفل نماز گزاریں
اُچیاں بانگاں چاہنگاں ماریں
منبر تے چڑھ واعظ پکاریں
کیتا تینوں حرص خوار
علموں بس کریں او یار
پڑھ پڑھ شیخ مشائخ کہاویں
اُلٹے مسئلے گھروں بناویں
بے عقلاں نوں لٹ لٹ کھاویں
الٹے سدھے کریں اقرار
علموں بس کریں او یار
ترجمہ: تو نمازیں اور نوافل پڑھنے میں لگا رہتا ہے۔ بلند آواز اذانیں دیتا ہے‘ شور مچاتا ہے‘ منبر پر چڑھ کر وعظ سناتا ہے۔ تجھے لالچ نے ذلیل و خوار کر چھوڑا ہے۔ اب علم جھاڑنا چھوڑ دے۔ پڑھائی کر کے تو عالم فاضل بن بیٹھا۔ الٹے سیدھے مسائل اپنے ذہن سے اختراع کر لیتا ہے تو جاہلوں کو لوٹ لوٹ کر دولت ہضم کرتا ہے۔ ان سے جھوٹے وعدے کرتا رہتا ہے۔ اے یار علمی ڈینگ مت مار۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved