اس ملک میں ایسی چیزیں ہوتی ہیں کہ لفظ ''حیران‘‘ بھی اب چھوٹا پڑ گیا ہے ۔
دو دن قبل سینیٹ کی کمیٹی برائے فنانس میں سیکرٹری خزانہ وقار مسعود پانچ سالہ پرانا ڈرافٹ بل لائے جو2011ء میں اس وقت تحریر ہوا جب اٹھارویں ترمیم کے بعد نئے الیکشن کمشن کی تشکیل ہوئی اور اس کے بعد چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی تنخواہوں کا سوال اُٹھا۔سینیٹرز حیران ‘پانچ سال گزر گئے‘ تمام ممبران نے وقت پورا کر لیا تھا‘ اب تو وہ سب گھر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔اور پانچ سال میں ڈرافٹ بل قانون نہ بن سکا۔ اگر یہ بل قانون ہی نہ بن سکا تھا تو پھر کیسے الیکشن کمشن ممبران کو تنخواہیں مل رہی تھیں؟ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر تو وہ ایک روپیہ تک وصول نہیں کر سکتے تھے۔ انکشاف ہوا ڈرافٹ بل پارلیمنٹ کو بھیجا گیا تو ساتھ ہی الیکشن کمشن ممبران اور الیکشن کمشنر نے خود ہی تنخواہ اور مراعات کا تعین کر لیا۔ خود ہی لکھا ایک ایک ممبر کی تنخواہ ساڑھے آٹھ لاکھ روپے ہوگی۔ سولہ سی سی کار، پانچ سو لٹر پٹرول، ڈرائیور، الائونس ہائی کورٹ کے جج کے برابر، ہائوس الائونس پچھتر ہزار روپے۔ اس سے پہلے یہ ریٹائرڈ جج ہر ماہ پنشن کی مد میں چھ لاکھ سے آٹھ لاکھ روپے لے رہے تھے۔ پنشن اور نئی تنخواہ ملا کر پندرہ لاکھ روپے ماہانہ ہوگئی‘ بلے بلے!! الیکشن کمشن ممبران نے اپنی تنخواہ خود مقرر کرنے کے بعد اکائونٹنٹ جنرل پاکستان کو لکھا، انہیں ہر ماہ چھ لاکھ روپے پنشن کی بجائے اب پندرہ لاکھ روپے ماہانہ ادا کیے جائیں۔ اس پر اکائونٹنٹ جنرل نے وزارت خزانہ کو لکھا۔ تنخواہوں کا بل تو ابھی پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوا ہم کیسے ان کی اپنی مرضی کی لکھی تنخواہ دے سکتے ہیں ۔ اس پر وزارت خزانہ نے کہا چپکے سے ان ریٹائرڈ ججوں سے لکھوا لو تنخواہ تو آپ کو منہ مانگی ملے گی لیکن اگر پارلیمنٹ نے یہ بل منظور نہ کیا تو پھر آپ کو یہ سب پیسے واپس کرنا ہوں گے۔ اس پر الیکشن کمشن کے ممبران نے فورا ڈیل کر لی۔ کسی ریٹائرڈ جج نے نہ پوچھا بھلا کیسے ممکن ہے کہ ایک بل پاس نہیں ہوا اور انہیں تنخواہ ملے گی اور اگر پاس نہ ہوا تو وہ پیسے واپس کریں گے۔
یہ پانچ سال پرانی بات ہے۔ پانچ برس بعد بھی پارلیمنٹ سے تنخواہ کا بل ابھی تک پاس نہیں ہوا اور اب اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد ایک ایک ممبر پانچ پانچ کروڑ روپے گھر لے کر جارہا ہے۔اور اس کے علاوہ وہ پانچ کروڑ روپے پنشن لے کر جارہے ہیں۔ یوں ایک ممبر کو دس کروڑ روپے ان پانچ سالوں میں ملا ہے جس میں سے پانچ کروڑ روپے وہ ہے جو غیرقانونی ہے اور کسی صورت نہیں مل سکتا تھا ۔
سب کے لیے حیرانی کی بات تھی بھلا جج ہوتے ہوئے ممبران کیسے اس ڈیل پر تیار ہوگئے اگر بل پاس نہ ہوا تو وہ پانچ کروڑ روپے واپس کر دیں گے؟ یہ سب غیرقانونی تھا لیکن سب پیسے لیتے رہے۔ پتہ چلا جان بوجھ کر یہ کام کیا گیا ۔ اس کا مطلب واضح تھا الیکشن کمشن کے ممبران پر پانچ کروڑ روپے کی تلوار لٹکائی جائے اگر انہوں نے تھوڑی سی بھی ہوشیاری دکھائی تو ان سب ممبران کی تنخواہیں روک لی جائیں گی کیونکہ قانونی طور پر تو وہ یہ پیسے لے ہی نہیں سکتے تھے جب تک پارلیمنٹ اس کی منظوری نہ دے۔ اس بات کا الیکشن کمشن کے ممبران کو بھی پتہ تھا انہیں پیسے غیرقانونی طور پر دیے جارہے تھے۔ وہ سب ایک معاہدے پر دستخط کر چکے تھے جس کے تحت حکومت جس دن چاہے گی وہ بل نامنظور کر کے ان سے کروڑوں روپے واپس لے لے گی ۔ یوں بل پانچ سال سے پارلیمنٹ میں لٹکا کر رکھا ہوا ہے۔ اسی باعث الیکشن کمشن نے پارلیمنٹ میں جعلی ڈگریوں کا معاملہ ہویا پھر پارلیمنٹرین کے صادق اور امین ہونے کا معاملہ، قرضوں کی معافی ہو، آرٹیکل 62 ہو، یا دھاندلی کے الزامات ہوں سب پر خاموشی اختیار کئے رکھی۔ یوں حکومت وقت بڑی خاموشی سے الیکشن کمشن کے ممبران کو بلیک میل کرتی آئی ہے۔ اگر الیکشن کمشن اب تک کوئی قابل ذکر کارروائی نہ کر سکا تو اس کے پیچھے ہر ماہ ساڑھے آٹھ لاکھ روپے کی لٹکتی ہوئی تلوار تھی کہ حکومت جب چاہے ان ممبران کی تنخواہوں کا بل مسترد کرادے ۔ اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے ایسے الیکشن کا ہم نے اچار ڈالنا ہے جس کا ایک ایک ممبر تنخواہ اپنی مرضی کی خود لکھ لے۔ ہر ماہ پندرہ لاکھ روپے گھر لے کر جائے، لیکن وہ پانچ سال بعد ایک صاف ستھرا اور شفاف الیکشن بھی قوم کو نہ دے سکے۔ 2013ء کے بعد ابھی تک سیاسی پارٹیاں لڑ رہی ہیں اور الیکشن کمشن ممبران حکومت کے ساتھ ڈیل پر دستخط کر کے بیٹھے ہیں ۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ کون سا ممبر ہوگا جو حکومت وقت کے خلاف جانے کی جرأت کرے گا ۔ کون پانچ کروڑ روپے واپس کرنے پر تیار ہوگا؟
اب اپ پوری کہانی سمجھ گئے ہوں گے الیکشن کمشن کیسے جیب میں ڈالا گیا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے پی ٹی آئی کے سینیٹر محسن عزیز بھی اس اجلاس میں موجود تھے جب یہ سب انکشافات کیے جارہے تھے کہ کیسے پیپلز پارٹی اور نواز شریف حکومت نے مل کر الیکشن کمشن کر بلیک میل کر رہے تھے۔ پی ٹی آئی کے محسن عزیز الٹا الیکشن کمشنر اور ممبران کے حق میں دلائل دے رہے تھے۔ محسن لغاری وہ واحد سینیٹر تھے جو حیران تھے کہ بھلا بغیر کسی قانون اور بل پاس کیے آپ پارلیمنٹ کے اختیارات کیسے استعمال کر رہے تھے۔ یہاں شور سینیٹر محسن عزیز کو مچانا چاہیے تھا جن کی پارٹی شکایت کرتی ہے الیکشن کمشن کے ساتھ مل کر ان کا الیکشن چرایا گیا تھا۔ لیکن محسن عزیز اپنے سامنے سیکرٹری خزانہ وقار مسعود کو دیکھ کر دبک کر بیٹھے تھے کیونکہ محسن عزیز خود ایک کاروباری ہیں وہ کوئی ایسی بات سیکرٹری خزانہ کے منہ پر نہیں کہنا چاہتے تھے جس سے وہ ناراض ہوں۔ کسی نے وقار مسعود سے نہ پوچھا کہ بھلا آپ نے پارلیمنٹ کی طاقت کیسے استعمال کر کے الیکشن کمشن کے ممبران سے ڈیل کر لی۔محسن لغاری نے پوچھ گچھ کی کوشش کی تو الٹا وقار مسعود غصے میں آگئے اور سینیٹرز پر چڑھ گئے اور سب نے معذرت خواہانہ انداز میں ان سے جان چھڑائی اور وہ ہنستے مسکراتے سینیٹرز کی کلاس لے کر نکل گئے۔ حالانکہ پارلیمنٹ کی طاقت استعمال کرنے پر وقار مسعود کے خلاف تو کارروائی ہونی چاہیے تھی۔
کسی کو یاد نہ رہا کِہ جو وقار مسعود ان سینیٹرز پر چڑھ دوڑے تھے وہ کبھی زرداری کے قریبی ساتھی تھے اور ماشاء اللہ زرداری صاحب کے ساتھ جیل بھی گزار چکے ہیں۔ اللہ بھلا کر ے جنرل مشرف کا جن کے مارشل لاء کے بعد وقار مسعود کی لاٹری نکل آئی تھی۔ہندوستان کی تقسیم سے قبل کے کچھ پرانے حوالے کام آگئے ورنہ وہ بھی جیل میں پڑے رہتے۔ آج کل وہی وقار مسعود سینیٹرز کی دھلائی کرتے اور وزارت خزانہ چلاتے ہیں ۔ آپ ابھی اپنی حیرانی سنبھال کر رکھیں ایک اور کہانی سنانی ہے۔ اس اجلاس میں ایک وکیل صاحب کا تعارف کرایا گیا۔ جناب !یہ آپ سب کو پاناما لیکس پر بریفنگ دیں گے۔ سینیٹر مشاہداللہ ایک ذہین انسان ہیں ۔ انہیں شک گزرا کہیں سلیم مانڈوی والا واردات ہی نہ کر جائیں اور پورے میڈیا کے سامنے ہی پاناما لیکس کی توپوں کا رخ نواز شریف کی طرف نہ ہوجائے۔ انہوں نے اعتراض جڑ دیا ‘کیا ضرورت ہے۔؟ اس پر سلیم مانڈوی والا نے کہا مشاہد اللہ صاحب !آپ پریشان نہ ہوں‘ آپ بریفنگ سن کر خوش ہوں گے۔ ابھی حیرت باقی تھی۔ جنہوں نے بریفنگ دینا تھی ان کا نام سن کر سب چونک گئے‘ وہ سلیم مانڈوی والا لاء فرم کے محمود مانڈوی والا نکلے۔سب مسکرا پڑے اوہ !یہ تو اپنے چیئرمین سلیم مانڈوی والا کے گھر کی بات ہے۔ خیر محمود نے بریفنگ شروع کی اور حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹتے گئے۔ انہوں نے انکشاف کیا ،نواز شریف نے اٹھائیس جولائی1992ء میں پہلی دفعہ وزیراعظم بننے کے بعد ایک قانون پاس کرایا تھا جس کے تحت پاکستانی شہری یا کوئی غیرملکی پاکستان میں فارن کرنسی اکائونٹ کھول کر اس میں چاہے ایک ارب ڈالرز ڈال کر کسی اور ملک میں جا کر اسی بنک کی لندن یا نیویارک برانچ میں سے نکلوا لے اس سے کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا ۔ مطلب قانونی طور پر پاکستان سے ڈالرز کی لانڈرنگ ہورہی تھی۔ بھلا کیسے آپ سب پاکستانیوں کو یہ اجازت دے سکتے ہیں کہ وہ جہاں سے چاہے، ڈالرز اکٹھے کریں، اپنے ملک میں ایک اکائونٹ کھول کر دنیا کے کسی اور شہر میں اسی بنک کی برانچ میں جا کر وصول کر لیں۔ اس قانون کے تحت کسی کے خلاف کوئی بھی کاروائی نہیں ہوسکتی تھی ۔ یہ تھا وہ کام جو نواز شریف نے کیا اور قانون بنا کر منی لانڈرنگ کی گئی۔ وجہ یہ بتائی گئی یہ سرمایہ کاری کے تحفظ کا قانون ہے۔ سوال یہ ہے کہ غیرملکی سرمایہ کارکی حد تک بات سمجھ آتی ہے لیکن بھلا پاکستانیوں کو کس خوشی میں یہ اجازت دی گئی وہ چاہیں تو دس ارب ڈالرز اپنے پاکستان میں موجود اکائونٹ میں جمع کرائیں اور لندن اور نیویارک میں اپنے اکائونٹس میں سے نکلوا لیں؟ میرا خیال ہے آپ سب سمجھ گئے ہوں گے یہ قانون کیوں لایا گیا تھا ۔ وزیراعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین نے آف شور کمپنیاں اس قانون کے منظور ہونے کے ایک سال بعد پانامہ میں کھول لی تھیں ۔ اب آپ کو سمجھ آجانی چاہیے کہ یہ حیران کردینے والا قانون کس کے کام آیا تھا۔۔ کسی کے نام پر اپنے ملک میں فارن کرنسی اکائونٹ کھلوا کر پیسے اس میں ڈال دو اور باہر لے جائو۔
16دسمبر1999ء کو جنرل مشرف نے یہ قانون ختم کیا لیکن اب تک آٹھ برسوں میں جن لوگوں کے لیے نواز شریف نے یہ قانون بنوایا تھا وہ پاکستان سے اربوں ڈالرز باہر لے جاچکے تھے اور یہ سب کچھ قانون کے نام پر ہورہا تھا ۔ اب آپ کو سمجھ آئے گی کہ سوئس بنکوں میں طاقتور سول ملٹری بیوروکریسی، کاروباریوں اورسیاسی حکمرانوں کے دو سو ارب ڈالرز کیسے پہنچ گئے۔ یہ تھی وہ قانونی گیدڑ سنگھی جو نواز شریف نے سب کو فراہم کی تھی ۔پاناما لیکس پر محمود مانڈوی والا صاحب نے سب کو مطمئن کر دیا کہ فکر کی کوئی بات نہیں ‘مجوزہ کمشن کچھ نہیں کر سکے گا کیونکہ پاکستان نے دنیا میں صرف پانچ ملکوں سے باہمی مددکے معاہدے کر رکھے ہیں ‘جب کہ جن کے نام پاناما لیکس میں آرہے ہیں ان کی جائیدادیں برطانیہ میں ہیں جن کے ساتھ پاکستان کا کوئی معاہدہ نہیں ہے لہذا اگر پاناما کمشن ان ممالک سے جائیداد کی تفصیلات مانگے گا تو بھی وہ نہیں دیں گے۔
اس طرح یہ بھی انکشاف ہوا کہ بھارت نے ایک عالمی معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے بعد بھارتی حکومت کو ستمبر 2017ء سترہ کے بعد دنیا کے کسی بھی بنک سے اپنے ڈیڑھ ارب شہریوں کے غیرملکی بنکوں میں موجود دولت کی تفصیلات محض ایک کلک پر مل جائے گی۔ اسحاق ڈار نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔ کرتے بھی کیسے سب سے پہلے تو اس معاہدے کا شکار یہ حکمران خود ہوتے۔ یوں سوئس بنکوں میں پڑے دو سو ارب ڈالرز کا کبھی پتہ نہیں چلے گا۔ بھارتی حکومت کو اگلے سال سب کچھ مل جائے گا کہ ان کے ملک سے کون باہر پیسے کیسے لے گیا تھا۔ ہم اتنے خوش قسمت نہ نکلے اور اسحاق ڈار آرام سے پتلی گلی سے نکل گئے۔میری نظروں کے سامنے پاکستانی سیاسی اور کاروباری اشرافیہ بارے خوفناک انکشافات کا سلسلہ جاری تھا جنہوں نے لوگوں کے دیے ہوئے ووٹوں کی طاقت پر اپنے خاندان کے کاروبار چمکانے اور پاکستان سے سرمایہ باہر لے جانے کے لیے ایسے ایسے قوانین بنا لیے تھے کہ دنیا دنگ رہ جائے۔
میں نے سینیٹرز کی طرف دیکھا سب مطمئن اور خوش‘کہ چلیں جان چھوٹی پاناما لیکس پر بھی کمشن کچھ نہیں کر سکے گا ۔
انکشافات کا سلسلہ ابھی جاری تھا جب کہ میں صدمے کا شکار، منہ میں انگلیاں دبائے، ناخنوں کو چباتے اور ہونٹوں کو سختی سے کاٹتے ، سب کچھ سن بھی رہا تھا اور سمجھ بھی....(جاری)